تاریخ شائع کریں2021 12 June گھنٹہ 20:10
خبر کا کوڈ : 507553

’افغان سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت فغان شہریوں کی ذمہ داری ہے

طالبان نے واضح کیا کہ ’اگر کسی نے افغانستان میں اپنی فوج کی موجودگی رکھنے کی غلطی کی تو افغان عوام اور طالبان انہیں قابض طاقتیں سمجھیں گے اور ان کے خلاف ان کا مؤقف وہی ہو گا جو افغان عوام حملہ آوروں کے خلاف پوری تاریخ میں اختیار کرتے آئے ہیں۔
’افغان سرزمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت فغان شہریوں کی ذمہ داری ہے
افغان طالبان نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کسی بھی ملک کی فوج کی ملک میں موجودگی کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان سرزمین کے ایک ایک انچ، اس کے ہوائی اڈوں، غیر ملکی سفارت خانوں اور سفارتی دفاتر کی حفاظت افغانوں کی ذمہ داری ہے۔
 
افغان طالبان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کا ماننا ہے کہ افغانستان میں عالمی سفارتی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے ’فعال اور محفوظ‘ ہوائی اڈے کی ضرورت ہے اور ایسے ہوائی اڈے کی سہولت نہ ملنے کی صورت میں غیرملکی سفارت خانے بند ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔
 
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ کابل میں کسی بھی عالمی سفارتی موجودگی کے لیے محفوظ ہوائی اڈے کا ہونا ضروری ہے، جس سے افغانستان میں مسافروں اور معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔‘
 
اس سے قبل ترکی نے بھی کہا تھا کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد وہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت اور اسے چلانے کے لیے اپنے فوجی افغانستان میں روک سکتا ہے، جس کی افغان طالبان نے سختی سے مخالفت کردی تھی۔
 
ہفتے کو جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں افغان طالبان نے کہا کہ ’افغان عوام اور طالبان کے لیے امن کی خاطر یہ عمل ناقابل قبول ہے اور امریکی فوج کی واپسی کے بعد کسی اور ملک کی فوج یہاں رکھنے کی صورت میں حالات کی ذمہ داری ایسا فیصلہ کرنے والوں پر ہوگی۔‘
 
طالبان نے بیان میں مزید کہا کہ ’افغان سرزمین کے ایک ایک انچ، ہوائی اڈوں، غیرملکی سفارت خانوں اور سفارتی دفاتر کی حفاظت افغان شہریوں کی ذمہ داری ہے۔ کسی کو بھی ہمارے ملک میں فوج رکھنے یا سلامتی کے نام پر موجود رہنے کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی ایسے اقدامات کیے جائیں، جس سے ہمارے لوگوں اور ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو جائیں۔‘
 
طالبان نے واضح کیا کہ ’اگر کسی نے افغانستان میں اپنی فوج کی موجودگی رکھنے کی غلطی کی تو افغان عوام اور طالبان انہیں قابض طاقتیں سمجھیں گے اور ان کے خلاف ان کا مؤقف وہی ہو گا جو افغان عوام حملہ آوروں کے خلاف پوری تاریخ میں اختیار کرتے آئے ہیں۔حالات کی ذمہ داری بھی انہی لوگوں پر ہو گی۔‘
 
طالبان نے مزید کہا کہ وہ دنیا، علاقائی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مثبت اور فائدہ مند تعلقات کا قیام چاہتے ہیں۔ ’ہمارا ملک گذشتہ چار دہائیوں سے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور اس بنیاد پر اسے عالمی برادری، ہمدردی اور دوست ممالک سے مخلصانہ اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کریں گے۔‘
 
طالبان کے مؤقف کے بعد امریکہ، دیگر ملکوں اور کابل میں سفارتی مشن رکھنے والی عالمی تنظیموں کے لیے سنجیدہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ دارالحکومت میں لڑائی کی صورت میں عملے کو وہاں سے کیسے نکالا جائے گا۔
 
امریکہ کی طویل ترین جنگ سے نکلنے کے امریکی صدر جوبائیڈن کے فیصلے، تعطل کا شکار مذاکرات اور افغانستان میں مسلسل جاری تشدد کی بنا پر ان خدشات کو ہوا ملی ہے کہ افغانستان ایک بڑی خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ جب بائیڈن پیر (14 جون) کو برسلز میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ملاقات گے تو افغانستان کے معاملے پر بات چیت کریں گے۔
 
واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں رواں برس اپریل کے آخر میں افغانستان سے بقیہ غیر ملکی فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ تب افغانستان میں 2,500 امریکی فوجیوں کے علاوہ سات ہزار نیٹو کے فوجی بھی موجود تھے جن میں ترکی کے پانچ سو سے زائد فوجی شامل ہیں۔
 
https://taghribnews.com/vdcenf8nxjh87ni.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ