تاریخ شائع کریں2021 12 May گھنٹہ 18:15
خبر کا کوڈ : 503688

اسلامی ممالک کی خاموشی و مسلئہ فلسطین

دنیا بھر کے لیڈروں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں فلسطینیوں کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسرائیلی حکومت سے امن و امان بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران مصری حکومت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پیدا ہونے والی تازہ ترین کشیدگی کو ختم کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسلامی ممالک کی خاموشی و مسلئہ فلسطین
بشکریہ: شفقنا اردو

مشرقی بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلی فورسز کا فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد آج کے روزبھی جاری رہا جہاں جھڑپوں میں فورسز کے ہاتھوں سیکڑوں نوجوان زخمی ہوگئے۔ رپورٹس کے مطابق مسجد اقصیٰ کے اطراف میں فلسطینیوں پر تشدد کا سلسلہ 2017 سے جاری ہے اور رمضان جیسے مقدس مہینے میں مسلمانوں کو عبادات سے روکا جاتا ہے اورمسجد اقصیٰ کی طرف جانے والے راستوں پر رکاؤٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔رپورٹس کے مطابق گزشتہ شب اسرائیلی فورسز کی ربڑ کی گولیوں اور ہینڈ گرینیڈ حملوں سے مزید 121 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے قبل 220 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے جنہیں اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ میں نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیلی فورسز نے بیت المقدس میں لیلتہ القدر پر خصوصی عبادات کے لیے مسجد اقصیٰ کے قریب جمع ہونے سیکڑوں فلسطینیوں کو مسلسل دوسری رات بھی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ہنگامہ آرائی کے دوران فلسطینی نوجوانوں نے پتھراؤ کیا اور اسرائیلی فورسز کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں گراتے ہوئے آگئے بڑھے۔ جس کے نتیجے میں پیدل اور گھوڑوں پر سوار اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں پر بدترین تشدد کیا اور انہیں پسپا کرنے کے لیے اسٹن دستی بم اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔  امریکا اور اقوام متحدہ کی طرف سے تشدد میں کمی کا مطالبہ سامنے آیا جبکہ یورپی یونین اور اردن سمیت دیگر نے ممکنہ بے دخلی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کے حملوں کے بعد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے تل ابیب کے منصوبوں کی مذمت کی ہے۔

دنیا بھر کے لیڈروں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں فلسطینیوں کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسرائیلی حکومت سے امن و امان بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران مصری حکومت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پیدا ہونے والی تازہ ترین کشیدگی کو ختم کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم مشرقی بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں میں شیخ جراح کے علاقے میں چند فلسطینی خاندانوں کو جبری بے دخل کرنے کے عدالتی فیصلہ خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک مقامی عدالت نے چند فلسطینی خاندانوں کو اپنے خاندانی گھر اور املاک چھوڑنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہاں یہودی آباد کار اپنے گھر بنا سکیں۔ اس فیصلہ کے خلاف اسرائیلی سپریم کورٹ سوموار کو مقدمہ کی سماعت کرے گی۔ اعلیٰ عدالت میں شنوائی نہ ہونے پر بیت المقدس میں عرب آبادی کے عدم تحفظ میں اضافہ ہو گا جو طویل المدت بے چینی اور اشتعال کا سبب بن سکتا ہے۔

۔ پاکستان کے صدر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے بیانات میں اس سانحہ پر شدید غم و غصہ اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’اس اقدام سے تمام انسانی اقدار اور بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ ہم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے حقوق کو یقینی بنایا جائے‘ ۔ صدر عارف علوی نے ایک بیان میں اس واقعہ کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اپارتھائیڈ قرار دیا اور کہا کہ ’اب وہ وقت قریب آ گیا ہے جب عالمی سیاست مفادات کی بجائے اخلاقی اصولوں پر استوار ہوگی‘ ۔ پاکستانی صدر کی یہ خواہش تو نہ جانے کب پوری ہوگی لیکن فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جبر میں کمی کا فی الوقت کوئی امکان نہیں ہے۔ فلسطینی قیادت عرصہ دراز سے اسرائیل کا بطور ریاست حق تسلیم کرچکی ہے جو اس تنازعہ کی بنیاد تھا لیکن اسرائیل مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمانہ حکمت عملی اختیار کرنے اور دو ریاستی فارمولے کی بنیاد پر اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔

افسوسناک ضرور ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے 162ممالک جن میں امریکا، چین ، فرانس ، جرمنی اورروس جیسے اہم ممالک شامل ہیں، اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا تواس کی سب سے بڑی سرپرست ہے۔ اور اب تو بہت سارے عرب ممالک نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر کے فلسطین کے کفن میں‌آخری کیل ٹھوک دی ہے۔ 31 ممالک(الجیریا، بحرین،کیمروج، جبوتی، عراق، کویت ، لبنان،لیبیا، موریطانیہ، مراکش، عمان، قطر، سعودی عرب،صومالیہ، سوڈان، شام،تیونس، یمن،افغانستان، بنگلہ دیش،برونائی،ایران، ملائشیا، انڈونیشیا،مالی، نائیجر اور پاکستان جبکہ تین غیرمسلم ممالک یعنی بھوٹان،کیوبا اور شمالی کوریا) اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔

تاہم جن ممالک نے ابراہام معاہدے کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا ہے انہوں نے سب سے زیادہ ظلم یہ کیا ہے کہ فلسطینی کاذ کے مقابلے میں اپنے مفادات کو اول رکھا ہے اورعرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے فلسطینی کاز پر کوئی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بظاہر سب عرب ممالک فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہیں اور کسی ناخوشگوار واقعے کے بعد ہر عرب دارالحکومت سے مذمتی بیان بھی زور شور سے جاری کیے جاتے ہیں لیکن کسی عالمی فورم یا بین الملکی تعلقات میں دولت مند عرب ممالک نے فلسطین کو کبھی اپنے ایجنڈے پر سر فہرست نہیں رکھا۔ اس لئے یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے کہ اسرائیلی حکومت بھی فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کرتی ہے اور طاقت کے زور پر ان کی آزادی کو سلب کیے ہوئے ہے۔ عرب ممالک جس شد و مد سے ایران کے خلاف محاذ آرائی کرتے ہیں یا سعودی عرب کی قیادت میں یمن پر جنگ مسلط کی گئی ہے اگر اس کا عشر عشیر بھی فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر دیکھنے میں آتا تو اسرائیل کو ضرور فلسطینی عوام کا حق دینے کے لیے کسی معاہدے پر راضی ہونا پڑتا۔

موجودہ صورت حال میں عرب ممالک کے بیانات تو فلسطینیوں کی حمایت میں ہوتے ہیں لیکن ان کی پالیسیاں اسرائیلی جبر و تسلط کی تائید کا تسلسل ہیں۔ اسرائیلی حکومت کو اچھی طرح خبر ہے کہ کون سا عرب ملک اس سے معاملات کرنے میں کس حد تک جانے پر آمادہ ہے۔ قول و فعل کا یہی تضاد دراصل فلسطینیوں کے مصائب اور عرب دنیا کی ہزیمت کا سبب بنا ہوا ہے۔ اسی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف فسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنے اور مسلسل حالت جنگ میں رہنے کے باوجود اپنے ملک میں جمہوری نظام مستحکم کیا ہے اور اپنے عوام کو بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیاں فراہم کی ہیں۔ لیکن کوئی عرب یا دوسرا مسلمان ملک ویسی ہی آزادیاں اپنے شہریوں کو فراہم کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق بیشتر اسلامی دنیا میں اجنبی اصطلاح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنے ہی شہریوں کو آزادیوں سے محروم رکھنے والے ممالک کس منہ سے اور کس بنیاد پر فلسطینی عوام کی آزادی اور بنیادی حقوق کے لئے سرگرم ہو سکتے ہیں۔

آج مسجد الا قصیٰ میں جو کچھ ہورہا ہے یہ محض عربوں کی کمزوری کی بنا پر ہورہا ہے۔ عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے امریکہ اور اسرائیل پر تکیہ کرکے امن معاہدات اور ‘صدی کی ڈیل’ کی شکل میں صدی کا سب سے بڑا دھوکہ کھایا ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل جیسے غاصب اور جارح ممالک پر تکیہ کرکے عرب دنیا کے حکمران، اپنی بقا کو کیسے یقینی رکھ پائیں گے؟ نیزپوری دنیا میں ہر محاذ پر ناکامی کا شکار ہونے والا امریکہ، اپنی تیزی سے ڈوبتی ہوئی معیشت کے ساتھ عربوں کی کیا مدد کرے گا؟ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ عرب حکمران امریکہ اور اسرائیل کا سہارا لینے کے بجائے آپس میں اتحاد اور یکجہتی کےنام سے کوئی کارنامہ سر انجام دیتے لیکن افسوس کہ امریکی و صہیونی چالوں میں پھنسے یہ حکمران صدی کا سب سے بڑا دھوکہ اپنے مقدر میں لکھنے پر فخر محسوس کر رہےہیں۔ اور آج جو کچھ اسرائیلی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں اس پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
 
https://taghribnews.com/vdcjoteiouqeymz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ