تاریخ شائع کریں2021 12 May گھنٹہ 18:12
خبر کا کوڈ : 503687

فلسطینیوں کی صورتحال و بین الاقوامی نظام کی خاموشی

ایک مرتبہ پھر اسرائیل کی اس کھلی بربریت پر بین الاقوامی برادری اسرائیل کی مزمت کر رہی ہے مگر اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کر رہی۔ مسلمان ممالک اپنے فلسطینی بہن اور بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
فلسطینیوں کی صورتحال و بین الاقوامی نظام کی خاموشی
بشکریہ: شفقنا اردو

بیسیوں صدی کے وسط سے جاری اس وقت دنیا کا سب سے بے قابو تنازعہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے ۔ گزشتہ 45 برس سے بین الاقوامی نظام ان دو قوموں کے مابین اس جھگڑے کو حل کر کے امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ جب کہ اسرائیلی افواج فلسطینیوں کے خلاف مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فلسطینی اسرائیلی مسلح افواج کے جبر کا مسلسل شکار ہیں اور الاقصٰی پر حالیہ حملہ اس کا واضح ثبوت ہے ۔ مشرقی یروشلم کے نواحی علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلیوں کے بعد رمضان کے مقدس مہینے میں یروشلم اور مغربی کنارے پر تناؤ میں اضافہ ہوا جو بعد میں جھڑپوں کی شکل اختیار کر گیا۔ مسلم برادری کے تیسرے مقدس ترین مقمام جس کو الاقصٰ مسجد یا ٹیمپل ماؤنٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے پر اسرائیلی افواج نے لیلت القدر کی رات حملہ کیا جو مزید دو دن بعد بھی جاری رہا جس میں سینکڑوں فلسطینی جوان اور بچے شدید زخمی ہوگئے

ان جھڑپوں کو پوری دنیا کے میڈیا نے اپنے اپنے انداز میں رپورٹ کیا اور بعض نے اسے حملہ کہا اور بعض نے اس کو جھڑپوں کا نام دیا۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر یہ حملہ اس وقت کیا  جب ہزاروں فلسطینی مسلمان لیلۃ القدر کے موقع پر مسجدِ اقصیٰ میں عبادت کے لیے جمع ہو رہے تھے۔اسرائیلی پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر ربر کی گولیاں چلائیں، سٹن گرینیڈ پھینکے جبکہ انھیں منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن بھی استعمال کی جس میں کئی فلسطینی شدید زخمی ہوگئے۔  جس وقت اسرائیلی فورسز نے بیت المقدس پر حملہ کیا اس وقت دو سو کے قریب مسلمان مسجد میں عبادت میں مصروف تھے۔ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی پولیس پر پتھراؤ کے نتیجے میں کئی حملہ آور بھی زخمی ہوگئے۔ جب مسجد کا نماز کا حصہ میدان جنگ میں تبدیل ہوا تو مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر پرسکون رہنے کے اعلانات نشر ہونے لگے۔ کہا گیا کہ ” پولیس فوری طر پر فائرنگ اور سٹن گرینیڈ کا استعمال روکے جبکہ فلسطینی جوان بھی تحمل اور سکون کا مظاہرہ کریں۔

انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر فلسطین نے اقوام متحدہ کو سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسرائیل کو مقامات مقدس پر حملوں اور تناؤ میں اضافے کا سبب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کے تحت ہونے والے معاہدوں کو بار بار پاش کیا ہے اور اب بین الاقوامی برادری کو اس پر خاموش نہیں رہنا چاہے۔ جو کچھ مشرقی یروشلم میں ہورہا ہے یہ جبرا قبضہ ہے نہ کہ اسرائیل کا کوئی جائز مطالبہ۔ اقوام متحدہ نے اس حوالے سے کئی قراردادیں منظور کی ہیں اور اسرائل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس علاقے سے اپنے شہریوں کو نکال لے۔ اقوام متحدہ نے کئی مرتبہ اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ جبری بے دخلیوں کے عمل کو بند کرے اور مشرقی یروشلم کے الحاق کو روکے اور اگر اسرائیل نے ایسا نہ کیا تو اس کی سرگرمیاں جنگی جرائم قرار دی جائیں گے۔ مزید برآں اسرائیل کے مشرقی یروشلم پر کوئی جائز دعوٰی نہیں ہے مگر پھر بھی وہ اس علاقے میں نسلی صفائی میں مصروف ہے۔ اور اس کی حالیہ مثال شیخ جراح سے فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنا ہے۔

ایک مرتبہ پھر اسرائیل کی اس کھلی بربریت پر بین الاقوامی برادری اسرائیل کی مزمت کر رہی ہے مگر اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کر رہی۔ مسلمان ممالک اپنے فلسطینی بہن اور بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ایران، سعودی عریبیہ، پاکستان اور عرب امارات نے اسرائیلی سرگرمیوں پر سخت بیانات دیے ہیں اور کہا ہے اس طرح کے ایکشن کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ مزید برآں امریکہ اور یورپین یونین نے بھی ان پرتشدد واقعات پر خدشات کا اظہار کیا ہے؟ اسرائیلی فورسز کے مظالم کو اب اگر نسلی عصبیت کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ اپنی ایک رپورٹ "دہلیر پار کر لی گئی: اسرائیلی حکام کے نسلی عصبیانہ جرائم اور قتل عام” جو کہ اپریل میں شائع کی گئی میں لکھا گیا ہے  اسرائیل  غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور دیگر فلسطینی علاقوں میں انسانیت سوز جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ تاہم اس رپورٹ کا بھی اسرائیل پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔

غزہ کا محاصرہ اور آزادی کی تحریک پر پابندیاں کرونا وبا میں فلسطینیوں کو مزید خطرات سے دوچار کر رہی ہیں۔ اسلامک جہاد کی جانب سے جوابی فائرنگ اور حملے،، غزہ اور حزب اللہ کے خلاف فضائی حملے ، جبری قبضے، بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں ، نسلی امتیاز اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا استعمال دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ صحت کی سہولیات تک عدم رسائی، خوف اور دہشت گردی کی فضا ، غیر یقینی صورتحال فلسطینیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر رہے ہیں اور یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ اس معاملے میں بین الاقوامی نظام کہاں کھڑا ہے؟ہر دفعہ تناؤ میں اضافے کے ساتھ بس یہ ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی انخلا کے حوالے سے ایک قرارداد منظور ہوتی ہے ، دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے اسرائیل کے خلاف مذمتی بیانات آتے ہیں اور پھر سب ایک اور اسی طرح کے سانحے کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازع کو اگر واضح الفاظ میں بیان کیا جاتے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ امن کے قیام میں یہ بین الاقوامی نظام کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اگرچہ بہت سارے ریسرچرز اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے اس کے بہت سارے حل پیش کیے گئے ہیں تاہم کسی مسئلے کو جب حقیقی معنوں میں حل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ مقناطیس کے دو مخالف قطبین کی طرح ہے جو ایک دوسرے کو ہرگز اپنی طرف نہیں کھینچتے۔

مذاکرات اور امن معاہدوں کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ریاستوں کا وژن مشترکہ ہو جو کہ کسی صورت ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فلسطینیوں کی ملکیتوں پر اسرائیل کا قبضہ صرف اسی صورت ختم ہوسکتا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے اعتماد کی فضا قام کریں اوراس کے لیے بین الاقوامی تنظیموں کی مدد سے سیاسی طور پر دونوں اطراف کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔ اس مسئلے کا ایک حل دوریاستی حل ہی ہے س پر عمل کر کے دونوں طرفین کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔  تاہم یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ مشرقی یروشلم کے باسیوں کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کہاں ہے؟غزہ کے لوگوں کوصحت، تعلیم اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ کا چارٹر کہاں ہے؟ دنیا کی بڑی طاقتوں چین، امریکہ اور روس کی قیام امن کے لیے کوششیں کدھر ہیں؟ جینیوا کنونشن کے تحت مقبوضہ علاقوں کے حقوق کیا ہوئے ہیں؟ اس تنازعے میں بین الاقوامی کردار کہاں ہے؟ اور ان تمام سوالات کا جواب کہاں ہے؟
 
https://taghribnews.com/vdcivpawyt1auq2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ