تاریخ شائع کریں2021 8 May گھنٹہ 21:32
خبر کا کوڈ : 503099

مودی نے انڈیا کو لاک ڈاؤن سے نکالا اور پھر کورونا کے بحران میں دھکیل دیا

اگرچہ اس ساری صورتحال میں حکومت تنقید کی زد میں تو ہے ہی مگر ساتھ ساتھ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم مودی کی بھی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
مودی نے انڈیا کو لاک ڈاؤن سے نکالا اور پھر کورونا کے بحران میں دھکیل دیا
تحریر:اپرنا الوری
بی بی سی نیوز، دلی


برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ ہیڈ لائن میں انڈیا میں کورونا وائرس کی شدید لہر کو کچھ ان الفاظ میں سمیٹا: ’مودی نے انڈیا کو لاک ڈاؤن سے نکالا اور پھر کورونا کے بحران میں دھکیل دیا۔‘

آسٹریلیا کے ایک اخبار نے اس کہانی کو دوبارہ کچھ اس انداز سے شائع کیا: ’ناقدین کا کہنا ہے کہ غرور، انتہا سے زیادہ قوم پرستی اور بیوروکریسی کی ناکامی نے مل کر انڈیا میں ایک بحران کو جنم دیا، جہاں ہجوم اور جلسوں کے دلدادہ وزیر اعظم تو مزے میں ہیں مگر عوام کا صیحح معنوں میں دم گھٹ رہا ہے۔‘

اگرچہ اس ساری صورتحال میں حکومت تنقید کی زد میں تو ہے ہی مگر ساتھ ساتھ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم مودی کی بھی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

انڈیا میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سے متعلق کہانیاں بین الاقوامی اور سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔

لوگ زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ وہ انتہائی نگہداشت والے بیڈز اور علاج کے منتظر ہیں۔ مدد کے طلبگار خاندان ہر چیز کے لیے مشقت کر رہے ہیں۔ آکسیجن سلنڈر سے لے کر ڈاکٹر سے وقت حاصل کرنے تک، اسی طرح کورونا وائرس سے مرنے والوں کے لیے اجتماعی چتاؤں کی تگ دو تک بھی کرنا اس میں شامل ہے۔

دنیا بھر میں انڈیا کے اس بحران کی کوریج اس طرح ہو رہی ہے کہ سارا الزام وزیر اعظم مودی پر عائد کیا جا رہا ہے، جو خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر متعارف کراتے ہیں جہ کو ایک بہت اچھے منتظم ہیں اور جو ہر چیز پر نظر رکھتا ہے۔ اور اب اسی شخصیت کے ملک میں یومیہ سب سے زیادہ کورونا وائرس سے عوام متاثر ہو رہی ہے۔

’شہرت کو دھچکا‘
سیاسی امور کے ماہر ملان ویشنو کے مطابق اگر قابلیت نریندر مودی کی پہچان بن چکی تھی تو اب لوگ اس قابلیت پر ہی سوالات اٹھا رہے ہیں۔

ان کے مطابق صرف یہی نہیں کہ حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی ہے یا پھر وہ تذبذب کا شکار ہے بلکہ وہ اس صورتحال کو مزید ابتر کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔

نریندر مودی کوئی واحد رہنما نہیں ہیں جو کورونا وائرس جیسی صورتحال سے ٹھیک سے نہیں نمٹ سکے۔

ملان ویشنو کے مطابق وزیر اعظم مودی کی پروقار مقام سے گراوٹ سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برازیل کے صدر جیئر بولسانارو کی طرح مودی خود کورونا وائرس کی حقیقت سے ہی انکاری نہیں تھے، مگر وہ تمام تر پیشگی علامتوں کے باوجود صورتحال کو قابو کرنے میں ناکام رہے۔

وزیر اعظم مودی نے حال ہی میں ایک ہندو میلے کی اجازت دی جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مذہبی عیقدے کو پورا کرنے کی غرض سے دریائے گنگا کے کنارے کئی ہفتوں کے لیے جمع ہوئے۔ اس دوران زائرین پانی میں پاکی حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت دریا کے پانی میں رہتے ہیں۔

وزیر اعظم مودی مغربی بنگال میں انتخابات کے لیے اصرار کرتے رہے اور بغیر ماسک کے ہی اپنی مہم چلائی اور بڑی عوامی ریلیوں میں شرکت کی، جہاں ہر طرف انسانی سر ہی نظر آتے تھے۔

انڈیا میں دی اکانومسٹ کے نمائندے ایلکس ٹریولی کا کہنا ہے کہ ایک ایسے ملک کی طرف سے اس طرح کی لاپرواہی کو دیکھنا جو حال ہی میں لاک ڈاؤن جیسی صورتحال سے بھی گزرا ہو بہت افسوسناک ہے۔

یہ سب چیزیں مودی برینڈ کی حقیقت کو آشکارا کرتی ہیں جیسے اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت مضبوط اور ایک ہندو اکثریتی ملک کے مقبول رہنما ہیں اور رواں برس جنوری میں انھوں نے دنیا کو انڈیا کے خاص مقام کے بارے میں باور کرایا تھا۔

سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر کرسٹوفر کلیری کا کہنا ہے کہ غیر ملکی مبصرین نریندر مودی کی قومیت پرستانہ مزاج کو ان کے ٹیکنوکریٹک قابلیت سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ مگر کورونا وبا کے دوران یہ ٹیکنوکریٹک قابلیت غائب ہے۔

نریندر مودی کی مقبول عوامی رہنما اور ایک چاک و چوبند ایڈ منسٹریٹر کی شہرت کا زوال 2017 سے شروع ہو گیا جب انڈیا میں کرنسی بحران نے جنم لیا کیونکہ مودی حکومت نے پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد سے ملک میں کرنسی کا بحران پیدا ہو گیا تھا۔

گذشتہ برس نریندر مودی نے کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے راتوں رات پورے انڈیا کو بند کر دیا مگر اس کے باوجود لاکھوں لوگوں نے اپنی ملازمت اور جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ان سب فیصلوں کی وجہ سے انڈیا کی معیشت پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اس سارے معاملے پر وزیر اعظم مودی کا جواب یہی تھا کہ عوامی کی بہتری کا سوال تھا چاہے یہ غیر قانونی کرنسی نوٹوں کا خاتمہ ہو یا کورونا کو شسکت دینی ہو۔ تاہم فارن پالیسی کے ایڈیٹر ان چیف راوی اگروال کا کہنا ہے کہ یہ تازہ غلط اقدامات کی وضاحت اتنی آسان نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ جی ڈی پی کے اعداوشمار کی وضاحت تو کر سکتے ہیں مگر آپ کسی بھائی کی موت کو وضاحت نہیں کر سکتے۔ انڈیا کے شہری ہمیشہ سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگرچہ نریندر مودی غلطیاں کرتے ہیں مگر وہ اب بھی ان کے لیے لڑ رہے ہیں اور وہ ان پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں۔

مگر اب کی بار انڈی شہری بھی نریندر مودی کے نیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اب مودی کی شہرت کو بڑا واضح دھچکا لگا ہے اور اس شہرت کے تسلسل میں ایک دراڑ آئی ہے۔

برینڈ کی تیاری

سنہ 2012 میں ایک ٹائم میگزین نے یہ کہا تھا کہ ’مودی کا مطلب بزنس‘ ہے۔

سنہ 2012 میں ہی ٹرین میں آگ لگنے سے 60 ہندو ہلاک ہوئے جس کے بعد گجرات میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے جن میں ہزار سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے۔

اس وقت نریندر مودی پر یہ الزام لگا تھا کہ انھوں نے اس ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ان فسادات کی حوصلہ افزائی کی۔ نریندر مودی نے ان الزامات کی تردید کی اور اس بحران سے بھی باہر نکل آئے۔

اپنے حامیوں کے لیے سنہ 2012 میں نریندر مودی گڈ گورننس اور مؤثر ایڈمنسٹریشن کی علامت بن چکے تھے۔ کہیں کہیں انھیں مطلق العنان رہنما اور غریبوں کا نمائندہ کہا گیا تاہم ان کے دور میں گجرات میں خوب ترقی ہوئی اور کاروباری سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔

نریندر مودی کے 13 برس تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد ان کے وزیر اعظم بننے کو انڈیا کی معیشت میں ایک نئی روح پھونکنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا گیا۔ بی جے پی مودی پر انحصار کر کے بڑا رسک مول لے رہی تھی مگر ایک سمجھدار ایڈمنسٹریٹر کے طور پر ان کا تعارف ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔

نریندر مودی کے سوانح نگار صحافی نیلنجن مکوپاڈیے کا کہنا ہے کہ ہم دھوکے میں آ گئے کیونکہ گجرات پر حکمرانی کرنا نسبتاً آسان کام ہے۔

بالکل نئی سڑکیں، بجلی کی لائنیں، سفارش اور رشوت ستانی میں کمی اور گجرات میں نجی سرمایہ کاری میں اضافے نے متوسط طبقے اور امیر ووٹرز کو بہت متاثر کیا۔

تاہم نریندر مودی کے سوانح نگار کے مطابق ایک کم آبادی والی خوشحال ریاست پر حکمرانی کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں تھا۔ ان کے مطابق مودی کے دور میں گجرات میں سماجی اشاریوں میں زیادہ بہتری دیکھنے کو نہیں آئی ہے۔

ان کے مطابق ’ہم مودی کے اس دور کے دھوکے میں آ گئے۔ مجھ سے بھی یہی غلطی سرزد ہوئی۔ ایک بار تو انھوں نے یہ تک بھی کہہ دیا تھا کہ ہمارے پاس ریڈ کارپٹ تو ہے مگر ریڈ ٹیپ نہیں ہے یعنی باہر سے سرمایہ کاری آ رہی مگر سفارش اور رشوت کا دور ختم ہو چکا ہے۔ جو باہر سے امداد آرہی ہے اس کے لیے اب سرخ قالین کہاں ہے؟‘

کورونا کے موجودہ بحران نریندر مودی کی اصل حقیقت سامنے لے آئے۔

ان کے مطابق گذشتہ برس ان کی مرکزی لیڈرشپ والا کردار تھا مگر اس بار وہ دعوے بھی ادھورے رہ گئے اور انھوں نے سب ملبہ ریاستوں پر گرا دیا۔

ویکسین کی سخاوت پر مبنی حکمت عملی، جس نے انھیں دیگر ممالک کو خوراکیں عطیہ کرتے ہوئے دیکھا تھا، اب یہ لاپرواہ بزرگوں کی طرح دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ انڈیا نے اپنی سب سے بڑی ویکسین مارکر کو بین الاقوامی وعدوں پر تجدید کرنے پر مجبور کیا، جس کی وجہ سے اس کو مالی اعانت ملی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی سخت استبداد پسندی، جس کی بہت ساری ووٹرز نے اس کی تعریف کی، انھیں کسی حل تک پہنچنے سے روکتا ہے۔

اگروال کا کہنا ہے کہ نریندر مودی نے ہر چیز پر اپنا نام اور مہر ثبت کر رکھی ہے۔ لہٰذا جب کبھی کچھ غلط تو پھر اس کا سہرا بھی انھیں ہی لینا ہو گا۔ آپ ہر صورت کامیابی کا کریڈٹ ہی گلے نہیں لگا سکتے۔

ایک اخبار کے مطابق باہر ایک متاثر کن برینڈ کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ وہ انڈیا کے باہر بہت ہی زیادہ مقبول ہیں۔ امریکہ کے دورے کے دوران میڈیسن اسکوائر گارڈنز میں وہ ایک اتنا بہت بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئے کہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی امریکہ میں وہ بڑے رہنما لگ رہے تھے۔۔ ٹیکساس میں یہ ’ہوڈی، مودی!‘ اجتماع کے عنوان سے تھا۔

اگروال کے مطابق نریندر مودی نے اپنے تاثر کو اس انداز میں پیش کرنے میں بہت جارحانہ انداز اختیار کیا۔ یہاں تک کہ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کئی برس بعد انڈیا کے جسمانی طور پر بہت مضبوط رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

نریندر مودی کی قوم پرستی انڈیا میں اور تاریک وطن کے لیے ایک بہت بڑی کشش تھی اور انھوں نے انڈیا کو ایک عظیم طاقت بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اگروال کا کہنا ہے اب انڈیا کے لیے یہ دیکھنے کے لیے ’حیرت زدہ‘ حیرت کا مقام ہے کہ تھائی لینڈ، ویتنام، بنگلہ دیش نے کورونا وائرس کے خلاف کس طرح بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

یہ بیرون ملک رہنے والے انڈین کے لیے ایک شرمندگی کا مقام ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو یہ کہتے رہے کہ انڈیا ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور اب انھیں یہ سب دیکھنے کو مل رہا ہے۔

کیا مودی کا تاثر پھر سے بحال ہو سکتا ہے؟

ویشنو کے مطابق نریندر مودی نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک غیر معمولی مقابلہ کرنے والے سیاستدان اور سیاسی رہنما ہیں۔

ٹریولی کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے بھی بحرانوں سے باہر نکلے ہیں مگر وہ اس بار ایسا ہوتا نہیں دیکھ رہے ہیں۔

انڈیا کی حکومت پہلے ہی ساکھ بچانے کے مشن پر ہے۔ حکومت نے ایسے میڈیا ہاؤسز پر سخت نالاں ہے جنھوں نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے بیانات کو کوریج دی، جس کے جواب میں حکومت پر ٹوئٹر پر بھی سخت تنقید ہوئی۔

ان کے خیال میں یہ غیر ملکی سازش ہے اور اس کا مقصد انڈیا کو بدنام کرنا ہے۔ انھوں نے پہلے ٹوئٹر سے کہا کہ وہ ناپسندیدہ مواد کو ہٹائے اور پھر اس کے بعد وہ نریندر مودی کی قیادت کا شکریہ ادا کرنے اور ان کا دفاع کرنے کے لیے ٹوئٹر پر آ گئے۔

تاہم نریندر مودی خود 20 اپریل کے خطاب کے بعد سے غائب ہیں۔

ٹریولی کا کہنا ہے کہ وبا کے آغاز میں نریندر مودی یہ جانتے تھے کہ وہ کیسے انڈیا اور دنیا کو دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایسے دیکھتے تھے جیسے کوئی جنرل لوگوں پر حکمرانی کر رہا ہو۔ تاہم ابھی ان کے مقابلے میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کی مثال پیش کی جا سکے۔ انھیں معافی مانگ لینے یا مدد مانگنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

نریندر مودی جب سے وزیر اعظم بنے ہیں ان کے بہت کم ہی انٹرویوز دیکھنے کو ملے۔ انھوں نے کورونا وبا کے دوران کبھی کسی پریس کانفرنس سے بھی خطاب نہیں کیا۔

ان کے سوانح نگار کے مطابق وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ ان پر کوئی سوال اٹھائے۔

لیکن وہ تمام سوالات جو کوئی پوچھنا چاہتا ہے جو غریب، صدمے سے دوچار متوسط ​​طبقے والا اور دولت مند انڈین شہری بھی جو ہیلتھ کیئر نظام سے متاثر ہو رہے ہیں اور یہاں تک کہ پارٹی کے وفادار کارکن بھی نہیں جان سکتے کہ وزیر اعظم نے ایسا سب کیوں ہونے دیا۔
https://taghribnews.com/vdcf1mdt1w6dxxa.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ