تاریخ شائع کریں2021 8 May گھنٹہ 20:14
خبر کا کوڈ : 503090

پاکستانی وزیر اعظم کا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر دورہ

پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اس اعلیٰ سطحی دورے سے قبل ریاض پہنچے تاکہ اس بات کی بنیاد رکھی جا سکے جسے میڈیا پاک سعودی تعلقات خاص طور پر اقتصادی، تجارتی اور ماحولیاتی تعاون کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہا ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم کا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر دورہ
تحریر: ڈاکٹر علی عواد العسیری
بشکریہ:انڈپینڈنٹ اردو



پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ذاتی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں۔

پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اس اعلیٰ سطحی دورے سے قبل ریاض پہنچے تاکہ اس بات کی بنیاد رکھی جا سکے جسے میڈیا پاک سعودی تعلقات خاص طور پر اقتصادی، تجارتی اور ماحولیاتی تعاون کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہا ہے۔

یہ دونوں برادرانہ ممالک کے لیے اچھا ہے کیونکہ ان کی تاریخی دوستی کو بدقسمتی سے گذشتہ سال جھٹکا لگا تھا۔

خوش قسمتی سے دونوں اطراف کی قیادت اتنی مدبر تھی کہ وہ اس چیلنج کو دیکھ سکتی تھی اور سعودی پاکستان تعلقات کو دوبارہ پٹری پر لا سکتی تھی۔

یقینی طور پر یہ لچک اور تدبر عوامی تعلقات سے جڑا ہوا ہے جس سے بالآخر انہیں عارضی خرابیوں پر قابو پانے اور باہمی تشویش اور دلچسپی کے معاملات پر تعاون برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اب حالات مختلف نہیں – اور اس کی وجہ یہ ہے۔

اگست 2018 میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے فورا بعد عمران خان ولی عہد کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرنے میں کامیاب رہے۔

انہوں نے اگلے دو ماہ میں دو بار سعودی عرب کا سفر کیا، دوسری بار وہ ولی عہد کی ذاتی دعوت پر سعودی وژن 2030 کے تحت فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کانفرنس میں شرکت کے لیے یہاں آئے۔

عمران خان کو ادائیگیوں کے توازن کا سنگین بحران ورثے میں ملا تھا۔ چنانچہ سعودی عرب نے 6.2 ارب ڈالر کی مالی امدادی پیکج کی پیشکش میں کی جس میں 3 ارب ڈالر کے قرضے اور 3.2 ارب ڈالر کی موخر تیل کی ادائیگی کی سہولت شامل تھی۔

ریاض کے بعد متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کی اضافی امداد کی پیشکش کی۔

فروری 2019 میں جب سعودی ولی عہد نے پاکستان کا دورہ کیا تو انہیں عمران خان ذاتی طور پر اسلام آباد میں ایک پہاڑی پر واقعے وزیر اعظم کی رہائش گاہ لے گئے۔

ایک اور مثال جو دونوں رہنماؤں کے درمیان ذاتی کیمسٹری کی علامت ہے، وہ ولی عہد کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم سے کہنا تھا کہ ’میں سعودی عرب میں آپ کا سفیر ہوں۔‘ (سال کے آخر میں ولی عہد نے عمران خان کو اقوام متحدہ کے سربراہ اجلاس کے لیے نیویارک جانے کے لیے اپنا ذاتی طیارہ پیش کیا۔ اگرچہ 2020 میں سعودی پاکستان تعلقات میں مختصر طور پر خرابی آئی تھی، لیکن عمران خان نے اعلان کیا کہ ’پاکستان اور سعودی عرب ہمیشہ قریبی دوست رہیں گے۔‘

2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے تاریخی دورے میں اقتصادی شعبے میں سعودی پاکستان سٹریٹجک تعلقات میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی تھی جب سعودی عرب نے پاکستان میں 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جس میں سٹریٹجک بندرگاہ شہر گوادر میں 10 ارب ڈالر مالیت کی آرامکو آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بھی شامل تھا۔

باقی سرمایہ کاری کان کنی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں تھی۔

یہ سرمایہ کاری دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کے لیے آزاد تجارتی معاہدے پر جس کی مالیت 2 ارب ڈالر تھی دستخط کرنے کی کوششوں کے علاوہ تھی۔

ماضی میں دونوں ممالک نے سلامتی اور جیوپولیٹیکل معاملات میں قریبی تعاون کیا اور سعودی اقتصادی مدد صرف تیل کی رعایتوں تک محدود رہی۔ اب پہلی بار سعودی عرب پاکستان کی طویل مدتی معاشی ترقی میں دلچسپی لے رہی ہے۔

سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کا یہ امید افزا لمحہ علاقائی جغرافیائی سیاست میں موافق تبدیلی کے درمیان پیش آ رہا ہے جس میں مختلف محاذوں پر کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔

خاص طور پر اس طرح کی سرمایہ کاری کے لیے گوادر کے انتخاب نے وسیع تر علاقائی نیٹ ورک یعنی چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں سعودی دلچسپی کا اشارہ دیا ہے۔

فطری ترتیب میں اگلا منطقی قدم یہ ہوتا کہ پاکستان میں مجوزہ سعودی اقتصادی منصوبوں کے کے لیے مشترکہ طور پر کام کیا جاتا۔

بدقسمتی سے مسلم دنیا میں سعودی عرب کی غیر معمولی پوزیشن اور تاریخی سعودی پاکستان اتحاد کی مخالف بین الاقوامی قوتیں اس حقیقت کو ہضم نہیں کر سکیں کہ دونوں برادر ممالک اپنے تعلقات کو ایک مختلف سطح پر لے جا رہے ہیں جہاں مستقبل میں ان کے مفادات جغرافیائی اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری موجودہ تاریخ کا ایک افسوسناک حصہ ہے جسے یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

تاہم جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے مسلمانوں کے لیے اسلام کا مرکز ہے اور رہے گا اور کوئی دوسرا ملک اس طرح کے حق کا دعویٰ نہیں کر سکتا: کہ اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) 57 مسلم ممالک کا واحد نمائندہ ادارہ ہے اور متبادل مسلم بلاک بنانے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی؛ اور یقینا یہ حقیقت ہے کہ سعودی پاکستان تعلقات کی جڑیں اس محبت اور شفقت میں ہیں جو ان کے عوام ایک دوسرے کے لیے رکھتے ہیں اور اس لیے کوئی سازش تاریخی شراکت دار کی حیثیت سے ان کے قدرتی ارتقا میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں او آئی سی کے کردار کے حوالے سے جھوٹا بیانیہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے لیے سعودی اقتصادی حمایت کی مایوس کن تصویر کشی بالآخر وقت کی آزمائش میں ناکام رہی۔

خوش قسمتی سے دونوں ممالک کے پاس اپنے تعلقات پر اثر انداز ہونے والی سنگین غلط فہمی یا جان بوجھ کر غلط معلومات پر قابو پانے کے لیے مواصلات کے باضابطہ اور غیر رسمی ذرائع موجود ہیں۔ ان کا رشتہ اٹوٹ ہے کیونکہ اس کی بنیاد دونوں اقوام کی مرضی پر رکھی گئی ہے۔

لہٰذا دونوں برادرانہ قومیں ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہی ہیں۔ دونوں مقدس مساجد کے تقدس کا دفاع کرنے سے لے کر دہشت گردی کے ناسور کو شکست دینے تک پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کا اہم شراکت دار رہا ہے۔

اسی طرح سعودی عرب نے پاکستان کو جب بھی اسے مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا کبھی مایوس نہیں کیا، چاہے وہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی لہر ہو یا 2005 کا تباہ کن زلزلہ۔

دونوں ممالک افغانستان میں امن و استحکام کے حصول کے لیے تعاون بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں موجود یا ابھرتی ہوئی سعودی دلچسپی اسلامی تشخص کے ساتھ دوستی کے اسی جذبے کی عکاسی کرتی ہے۔

پس منظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم خان کے جدہ کے دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات اس سطح پر واپس آ گئے ہیں جس سطح پر دو سال سے زائد عرصہ قبل ولی عہد کے اسلام آباد کے دورے کی موقع پر تھے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے 2 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے کی واپسی میں توسیع کے فیصلے کا مطلب ان کے مالی امدادی پیکجز کی بحالی ہے جس سے پاکستان کو کرونا (کورونا) وائرس (کوویڈ-19) وبا کی تیسری لہر کے تباہ کن اثرات سے بچنے کی اشد ضرورت ہے۔

توقع ہے کہ اس دورے سے پاکستان میں 20 ارب ڈالر کے سعودی ترقیاتی منصوبوں خصوصا گوادر میں آرامکو آئل ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس پر کام شروع ہو جائے گا۔

دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع کسٹمز کے شعبے میں تعاون پر مبنی معاہدہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔

مزید برآں جنرل باجوہ کی اپنے سعودی ہم منصبوں کے ساتھ تقریبا ہفتہ بھر کی بات چیت اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر کے طور پر حالیہ تقرری سے دفاع میں تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مضبوطی یقینی ہوگی۔

درحقیقت اس بار توقع کی جا رہی ہے کہ دفاع اور معیشت سے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی جیسے معاملات پر تعاون کو فروغ دیں گے۔

عمران خان حال ہی میں اعلان کردہ سعودی گرین اور گرین مڈل ایسٹ انیشیٹو میں طے شدہ ولی عہد کی سوچ کو سمجھتے ہیں۔ یہ ان کی حکومت کے کلین اینڈ گرین پاکستان منصوبے سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔

خوش قسمتی سے سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کا یہ امید افزا لمحہ علاقائی جغرافیائی سیاست میں موافق تبدیلی کے درمیان رونما ہو رہا ہے جس میں ایران کے لیے سعودی قیام امن کی کوشش، قطر بحران کا خاتمہ اور کشمیر میں بھارت کے ساتھ پاکستان کی جنگ بندی شامل ہیں۔

اس پیش رفت سے یقینی طور پر سعودی عرب اور پاکستان کے لیے اقتصادی ترقی اور علاقائی استحکام کے لیے اپنی مشترکہ کوششوں پر توجہ مرکوز کرنے کی سفارتی گنجائش بڑھ جائے گی۔

ڈاکٹر علی عواد العسیری نے 2001 سے 2009 تک پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور سعودی پاکستان تعلقات کو فروغ دینے میں ان کی خدمات پر پاکستان کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ ہلال پاکستان حاصل کیا۔

انہوں نے بیروت عرب یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ہے اور 'دہشت گردی کا مقابلہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا کردار' (آکسفورڈ، 2009) نامی کتاب لکھ چکے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdcgyw9nzak9zz4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ