تاریخ شائع کریں2021 2 May گھنٹہ 18:23
خبر کا کوڈ : 502231

دو مئی 2011 کا آپریشن ،اسامہ بن لادن کے پڑوسی کی زبانی

اسامہ بن لادن کے مکان کے سب سے قریب رہنے والے پڑوسی زین بابا کا گھر اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے گیٹ کے سامنے واقع ہے جس کے درمیان میں صرف سات فٹ کی ایک سڑک ہے۔
دو مئی 2011 کا آپریشن ،اسامہ بن لادن کے پڑوسی کی زبانی
جب دو مئی 2011 کو امریکی خصوصی افواج کے ایک دستے نے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں دنیا کے سب سے مطلوب شخص اسامہ بن لادن، ان کے قریبی ساتھی ابو احمد الکویتی اور دیگر تین افراد کے خلاف رات گئے کارروائی کی تو اس وقت زین بابا اپنے گھر کے برآمدے میں سو رہے تھے۔

نوے سال سے زیادہ عمر والے محمد زین ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاؤن میں گذشتہ چھ دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں اور زین بابا کے نام سے معروف ہیں۔

اسامہ بن لادن کے مکان کے سب سے قریب رہنے والے پڑوسی زین بابا کا گھر اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے گیٹ کے سامنے واقع ہے جس کے درمیان میں صرف سات فٹ کی ایک سڑک ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زین بابا نے بتایا کہ ان کی یاداشت اب کمزور ہوچکی ہے، قوت سماعت بھی اچھی نہیں ہے لیکن بہت کچھ بھول جانے کے باوجود بھی انھیں دو مئی 2011 کی رات کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔

وہ بتاتے ہیں: 'میں اس رات معمول کی طرح اپنے گھر کے بر آمدے میں سویا ہوا تھا۔ یہ ایک گرم اور اندھیری رات تھی۔ بجلی غائب تھی کہ یک دم کوئی رات بارہ، ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہیلی کاپٹر کی آوازیں سنیں۔ وہ بالکل میرے گھر کی چھت پر پرواز کر رہے تھے جس سے میری چادریں بھی اڑ کر پتا نہیں کہاں گئیں۔'

انھوں نے کہا کہ یہ کوئی تین ہیلی کاپٹر تھے جن میں ایک ڈبل پروں والا تھا جبکہ باقی دو دوسرے تھے۔

'اس دوران پرواز کرتے ہوئے ایک کوٹھی کی چھت پر رکا تھا جس میں سے وہاں فوجی اترے، دوسرے نے ان کھیتوں میں جہاں میں نے آلو کاشت کر رکھے تھے وہاں پر کچھ فوجی اتارے اور تیسرا ہیلی کاپٹر میرے گھر کے قریب خالی پلاٹ پر رکا۔

اسی دوران ایک ہیلی کاپٹر صحن کے اوپر آیا تو پتا نہیں کیا ہوا، وہ ایک دم تیزی سے درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے کوٹھی کی دیوار کے پاس جا کر ٹکرا گیا تھا۔ یہ نہیں پتا چل سکا کہ اس میں پائلٹ بچ گیا تھا یا مر گیا تھا۔'

زین بابا بتاتے ہیں کہ بعد میں انھوں نے سڑک پر دوڑنے کی آوازیں سنیں۔

اس دوران دو مرتبہ ان فوجیوں نے میرے گھر کے گیٹ کو بھی کھولنا چاہا تھا جبکہ چھت پر سے بھی بوٹوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس دوران بقیہ فوجیوں نے کوٹھی کا گیٹ کھولنا اور توڑنا چاہا مگر وہ اس میں ناکام رہے تو انھوں نے ہینڈ گرنیڈ پھینک کر گیٹ کو توڑا جس کا ایک ٹکڑا میرے گھر کے برآمدے میں بھی گرا تھا جو میں نے صبح پاکستانی حکام کے حوالے کیا تھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ کچھ فوجی اندر چلے گئے اور کچھ باہر رہے۔

'اندھیرے کی وجہ سے میں دیکھ نہیں سکا کہ وہاں کیا ہو رہا تھا مگر بوٹوں کی آوازوں سے پتا چلتا تھا کہ وہ تیسری منزل پر پہنچ گئے تھے جہاں پر دو کمرے تھے۔ ان کمروں میں خواتین اور بچے ہوتے تھے۔ میں نے عورتوں اور بچوں کے چیخنے کی آوازیں اس طرح سنی جس طرح مرغی اور اس کے بچوں کو چھیڑا جائے تو وہ چیختے ہیں۔ ان چیخوں کی آوازیں سن کر میں ہل گیا تھا مگر چند ہی لمحوں کے بعد وہ آوازیں آہستہ آہستہ بند ہوگئیں تھیں۔'

زین بابا بتاتے ہیں کہ اس کے بعد دوبارہ بوٹوں کی آوازیں شروع ہو گئیں۔

'فوجیوں نے ہیلی کاپٹر میں بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ مجھے کسی بندوق کی گولی کی کوئی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ ہاں جب وہ جارہے تھے تو ہیلی کاپٹر تباہ کرنے کا زوردار دھماکہ ضرور ہوا تھا۔ وہ ابھی اڑے ہی ہوں گے کہ پولیس موقع پر پہنچ گئی جس نے علاقے کے چاروں طرف کھڑے لوگوں کو ہٹانا شروع کردیا تھا۔ اس کے بعد فوج بھی پہنچ گئی جس نے لاشوں کو نکالا۔ عورتوں اور بچوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور پھر وہاں چوکیاں قائم کر کے ایک سال تک موجود رہے۔'


'یہ مکان میرے سامنے ہی تعمیر ہوا تھا'

مئی 2011 میں بلال ٹاؤن کا علاقہ قدرے ویران تھا اور زین بابا اُس وقت چوکیداری کے فرائض انجام دیتے تھے۔ جس زمین پر کمپاؤنڈ تعمیر کیا گیا تھا وہاں پر انھوں نے کھیتی باڑی بھی کی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ علاقے میں سارے مکانات ان کے سامنے تعمیر ہوئے اور کمپاؤنڈ بھی ان کے سامنے ہی تعمیر ہوا۔

’یہاں تو بڑا خان اور چھوٹا خان رہتے تھے‘

زین بابا کا دعویٰ ہے کہ اِس مکان میں دو چچا زاد بھائی اپنے خاندان کے ہمراہ رہائش پذیر تھے اور حملے میں وہ ہلاک ہوئے تھے۔

زین بابا نے بتایا کہ اس مکان میں رہنے والے مرد، ارشد خان جسے وہ بڑا خان کہتے تھے اور طارق حسن خان جسے وہ چھوٹا خان کہتے تھے، دونوں سے ہی ان کے قریبی تعلقات تھے۔

آٹھ سال بعد بلال ٹاؤن کا نقشہ کافی حد تک بدل گیا ہے۔ اس علاقے میں اب مشکل سے ایک آدھ رہائشی پلاٹ ہی خالی نظر آتا ہے۔ جو گھر 2011 میں زیر تعمیر تھے وہ اب آباد ہوچکے ہیں جبکہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے قریب بھی مکان تعمیر ہو چکے ہیں۔

'یہاں کے مکین اچھے تھے'

زین بابا بڑے خان اور چھوٹے خان کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ اس گھر میں کوئی آٹھ بچے، دونوں کی بیویاں اور ایک بہن تھی۔

'بچوں کو کبھی بھی باہر نکلتے نہیں دیکھا۔ حیرت ہوتی تھی کہ یہ کیسے بچے ہیں جو خود بھی باہر نکلنے اور کھیلنے کودنے کی ضد نہیں کرتے تھے۔ گھر سے کبھی بھی کسی قسم کے شور شرابے کی آوازیں نہیں سنی تھیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹا خان اور بڑا خان باہر آتے جاتے تھے اور ان کے پاس ایک جیپ اور ایک پرانی سی کار تھی۔

'وہ دونوں لوگوں سے میل ملاپ بھی کرتے تھے مگر ایک حد تک۔ وہ کبھی کسی کے گھر نہیں گئے تھے اور نہ ہی کسی کو ان کے گھر میں جاتے دیکھا تھا۔'

کمپاؤنڈ کی تعمیر اور مسماری

زین بابا بتاتے ہیں کہ کمپاؤنڈ والی زمین ارشد خان نے تین مختلف مراحل میں خریدی تھی۔ پہلے تین کنال، پھر تیرہ مرلے اور پھر تین کنال زمین خریدی گئی تھی۔ کمپاؤنڈ کا مجموعی حجم چھ کنال تیرہ مرلے کا ہے جس میں زیادہ تر علاقہ خالی تھا اور صرف پانچ مرلے سے کچھ زیادہ رقبے میں تعمیراتی کام کیا گیا تھا۔

زین بابا کا کہنا تھا کہ یہ دس کنال زمین کا ٹکڑا تھا جہاں پر وہ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔

ان کے مطابق سنہ 2002 اور 2003 میں زمین کے اصل مالکان نے یہ زمین پراپرٹی ڈیلر کو تین لاکھ پچھتر ہزار روپے فی کنال میں فروخت کی تھی۔

'زمین حاصل کرنے کے بعد پراپرٹی ڈیلر میرے پاس آیا اور کہا کہ وہ اس پر پلاٹنگ کرنا چاہتا ہے تو میں نے اس کو بتایا کہ ہم نے ابھی آلو لگا رکھے ہیں، جب وہ تیار ہوجائیں تو پھر آنا۔ ابھی میں یہ زمین تمھارے حوالے نہیں کرسکتا۔ اس کے تین ماہ بعد وہ پراپرٹی ڈیلر دوبارہ آیا اور اس نے زمین کی فروخت کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔'

زین بابا کہتے ہیں بڑے خان نے زمین حاصل کرنے کے بعد فی الفور تعمیراتی کام کا آغاز کردیا تھا۔

'دیواریں ابھی چار فٹ تک ہی ہوئیں تھیں تو ایک روز ٹھیکیدار، مستری اور میری موجودگی میں بڑے خان نے کہا کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو چکی ہے۔ ٹھیکیدار کے سوال پر انہوں نے کہا کہ حجرہ بھی بنانا ہے جس کے بعد بڑے خان نے دوبارہ پراپرٹی ڈیلر سے رابطہ کیا اور اس سے مزید تیرہ مرلے زمین سات لاکھ روپیہ فی کنال کے حساب سے حاصل کی حلانکہ اس سے قبل انھوں نے تین کنال زمین پانچ لاکھ روپیہ فی کنال میں حاصل کی تھی۔'

زین بابا کے مطابق ابھی تعمیراتی کام جاری ہی تھا کہ بڑے خان نے مزید زمین حاصل کرنے کا پروگرام بنا لیا اور اس مرتبہ انھوں نے صوابی کے ڈاکٹر کے ساتھ رابطہ قائم کیا جس نے ان کی زمین کے ساتھ ہی ملحقہ تین کنال زمین خریدی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس ڈاکٹر نے بھی بڑے خان کو یہ زمین سات لاکھ روپیہ فی کنال کے حساب سے فروخت کرنے کی حامی بھر لی تھی اور اگلے ڈیرھ سال تک لگاتار کام کرنے کے بعد یہ کوٹھی مکمل ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک تعمیراتی کام جاری رہا بڑے خان اور چھوٹے خان نے اپنے بال بچوں کو منتقل نہیں کیا تھا۔

'جب تک خاندان والے نہیں آئے تھے تو اس وقت تک میرا وہاں آنا جانا تھا مگر جب بال بچے منتقل ہوگئے تو بڑے خان نے ہمیں منع کردیا تھا، کہا کہ پردے کی وجہ سے ہم کسی کو گھر کے اندر نہیں چھوڑ سکتے۔'

زین بابا کے مطابق بڑے خان نے یہ بھی کہا کہ ان کے بہت سے دشمن ہیں اور اس وجہ سے انھوں نے کوٹھی کی چار دیواری بارہ فٹ اونچی بنوائی اور اس پر کانٹے دار تار نصب کی جس میں رات کو کرنٹ چھوڑ دیا جاتا تھا۔

مسمار کی گئی کوٹھی کے پلاٹ پر مختلف مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زین بابا نے بتایا کہ وہاں پر کون کون سے کمرے تھے اور کہا کہ ایک طرف حجرہ، مال مویشیوں کے لیے باڑہ تھا اور بتایا کہ پوری کوٹھی میں سے آنے جانے کے لیے راستے بنائے گئے تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ وہاں بڑے خان اور چھوٹے خان نے باہر سے منگوائے ہوئے عمدہ نسل کے درخت لگائے ہوئے تھے اور اس کے علاوہ سبزیاں بھی خود لگاتے تھے لیکن اس کام کے لیے کوئی ملازم نہیں بلکہ سارے کام خود کرتے تھے۔

'ٹھیکیدار نے ایک دفعہ کہا تھا کہ خان گھر میں اتنے زیادہ نلکے لگانے کی کیا ضرورت ہے تو بڑے خان نے جواب دیا کہ ہم یہاں پر درخت لگائیں گے، سبزیاں اگائیں گے، مال مویشی رکھیں گے تو ان کو سہولت کے ساتھ پانی فراہم کریں گے۔ جس کے بعد ٹھیکدار خاموش ہوگیا تھا۔'

ان کا کہنا تھا کہ بڑے خان نے کوٹھی کا ہر کام بڑے اچھے طریقے سے کروایا تھا۔ ہر چیز کی کوالٹی کا بہت خیال رکھا تھا اور ٹھیکیدار موجود ہونے کے باوجود سب کچھ اپنی نگرانی میں کروایا تھا۔

'اس کوٹھی پر اتنا زبردست کام ہوا تھا کہ جب اس کوٹھی کو گرایا جارہا تھا تو پہلے روز دو بڑی مشینیں آئی تھیں جنھوں نے اس کو گرانا چاہا تو وہ ناکام ہوئیں۔ اس کے بعد وہاں نصب کیے گئے ستونوں کو کاٹا گیا اور پھر مشینیں گرانے کے لیے دوبارہ آئیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ جب کوٹھی کو گرایا گیا تو پہلے ٹھیکیدار یہاں سے کئی دن تک یہ ملبہ اٹھاتا رہا اور ایک دن اس نے باقی بچ جانے والا ملبہ چھوڑ دیا اور کہا کہ اب میں تھک چکا ہوں۔ اس کے بعد لوگوں نے اینٹیں اور دیگر ملبہ اٹھانا شروع کردیا اور وہ اپنے ساتھ کوٹھی کے قیمتی درخت بھی اکھاڑ کر لے گئے تھے۔

زین بابا نے ہنستے ہوئے بتایا کہ 'جب سارا ملبہ لوگ اٹھا کر لے گئے تو ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ علاقے ہی کا ایک نوجوان آری وغیرہ لے کر آیا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ ان درختوں کو کاٹتا ہوں اور ساتھ لے جاؤں گا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے مگر ویسے ہی اس کو ڈرانے کے لیے کہا کہ مجھے جرنیل صاحب نے کہا تھا کہ یہ درخت تمھاری ذمہ داری ہے، ان کو جو کاٹے ان کا نام اور پتہ مجھے بتا دینا باقی میں خود دیکھ لوں گا۔ یہ سنتے ہی وہ نوجوان اتنی تیزی سے واپس مڑا کہ میں بتا نہیں سکتا۔ اب دیکھیں نا یہ درخت اب ہمارے کام آرہے ہیں۔ ہم یہاں پر بیٹھے ہیں اور یہ درخت گرمی، سردی میں کام آتے ہیں۔'

آپریشن کے باعث ہونے والا نقصان

زین بابا بتاتے ہیں کہ دو مئی 2011 کے واقعات کے اگلے کچھ دن وہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ بالکل محصور ہو گئے تھے مگر اس کے بعد حالات معمول پر آ گئے۔

'ہمیں تو کوئی آنے جانے سے نہیں روکتا تھا مگر باہر کے کسی اور آدمی کو اس علاقے میں آنے جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اگلے ایک سال جب تک کوٹھی گرائی نہیں گئی تھی ہم نے بہت مشکل سے وقت گزارا۔'

زین بابا کہتے ہیں کہ ہیلی کاپٹروں نے ان کا بہت نقصان کیا تھا۔

'اُس سال ہم نے ساڑھے چھ ہزار روپے کے عوض آلو کے بیج خرید کر کاشت کیے تھے، وہ سب تباہ ہوگئے تھے۔ ایک روز سکیورٹی اہلکار آئے، انھوں نے کہا کہ ہمارے افسر آ رہے ہیں ان کو چائے پلانی ہے، کرسیاں دیں اور ان کو سات کرسیاں نکال کر دی تھیں۔ ان کا بھی ابھی تک کچھ اتا پتا نہیں ہے۔'

ان کا دعویٰ ہے کہ نہ صرف انھیں کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا بلکہ ان سے روزانہ کی بنیاد پر پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔

میڈیا کے سوال جواب اور سرکاری اہلکاروں کی پوچھ گچھ
زین بابا کہتے ہیں کہ شروع میں روزانہ کوئی نہ کوئی آتا اور سوال جواب شروع کردیتا۔ جب ان سے جان چھوٹتی تو پھر میڈیا والے شروع ہو جاتے تھے۔

'ایک سال تک تو میڈیا والوں سے پابندی کی وجہ سے کم ہی ملاقات ہوتی تھیں مگر جب کوٹھی گرا کر چوکیاں ختم ہوئیں تو پھر اس کے بعد کوئی ایسا علاقہ اور ملک نہیں بچا جہاں سے میڈیا والا نہ آیا ہو۔ دنیا کے ہر ملک، رنگ، نسل، قوم کا میڈیا والا یہاں پر ضرور آیا تھا۔'

انھیں نے بتایا کہ پہلے وہ مقامی اور غیرملکی صحافیوں کو بیان دیتے تھے مگر بار بار کے سوالات سے وہ تنگ آ گئے تھے۔

'خود سوچیں، صبح، دوپہر، شام بس ایک ہی بات، ایک ہی بیان۔ انھوں نے تو میرا دماغ ہی خراب کردیا تھا۔ پھر مجھے کسی نے سمجھایا کہ اگر میں ان کو بیان نہ بھی دوں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بس پھر مجھے سمجھ میں آگیا اور میں نے ان کو بیان دینا چھوڑ دیا تھا اور اب کسی سے بات نہیں کرتا۔'

'صرف تمھیں بیان دیا ہے لیکن اور میڈیا والے بھی آنا شروع ہو جائیں گے۔ میں کسی اور کو بیان دینے کے موڈ میں نہیں ہوں۔'

زین بابا کے دعوے کے مطابق وہاں کئی مرتبہ پولیس والوں نے مقامی اور غیر ملکیوں کو پکڑا بھی ہے اور جن لوگوں نے غیر ملکیوں سے بات چیت کی ہوتی ہے ان کو بیان لینے کے لیے طلب کرلیا جاتا ہے۔

زین بابا کے بقول آپریشن کے دوران ان کا بھی مالی نقصان ہوا
'مجھ سے بیان دینے کے بعد کئی مرتبہ پوچھ گچھ ہوئی تھی بلکہ مجھے اور میرے بچوں کو تو جیل بھی لے گئے تھے۔'

کافی دیر تک گفتگو کرتے کرتے زین بابا تھک گئے اور کہا کہ بس اتنا بہت ہے۔

'اب میری عمر 92 برس سے زیادہ ہونے لگی ہے۔ تھک بھی جاتا ہوں اور اب تنگ بھی ہوگیا ہوں، یاد بھی کم آرہا ہے دو دن سے تمھارے ساتھ بات کررہا ہوں اب کچھ دنوں بعد آنا تو کچھ اور بتاؤں گا۔'

یہ کہہ کر وہ اٹھ گئے اور اپنے گھر کی طرف چل پڑے مگر جاتے جاتے وہ یہ کہنا نہیں بھولے کہ ’اب وہی رات دوبارہ آنے والی ہے۔‘
 
https://taghribnews.com/vdcc1iqps2bqxi8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ