تاریخ شائع کریں2017 7 November گھنٹہ 12:23
خبر کا کوڈ : 292329

سعودی عرب میں غیر معمولی فیصلوں کے پیچھے چُھپی اصل کہانی

سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں ب
سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ خطے میں اہم اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی طرف اشارہ بھی ہے
سعودی عرب میں غیر معمولی فیصلوں کے پیچھے چُھپی اصل کہانی
دنیا بھر کا میڈیا جب سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کی خوشیاں منانے میں مصروف تھا عین اُسی وقت سعودی خاندان اور ریاست کے اندر انتہائی خفیہ اور پُراسرار طور پر اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ بحیرہ احمر کے کنارے شرعی قوانین اور صنفی اختلاط کی پابندی سے مبرا ’ریزورٹ منصوبے‘ کا اعلان بھی دنیا کے لیے حیران کن خبر تھی۔

ایک اور سرپرائز سعودی خواتین کو نئے سال کے آغاز پر اسٹیڈیم میں بیٹھ کر کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کا اعلان تھا۔ اِن سب اقدامات کو سعودی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک آئی واش قرار دے رہے ہیں۔

4 نومبر کی رات، سعودی عرب میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے قائم ہونے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے شاہی خاندان کے 11 اہم ترین افراد سمیت درجنوں وزراء اور کاروباری شخصیات کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان بظاہر دنیا کے لیے ایک ’بریکنگ نیوز‘ تھی، لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ کئی شہزادے ایک سال سے زائد عرصہ سے نظربند تھے۔

سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ خطے میں اہم اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی طرف اشارہ بھی ہے۔

اِس کارروائی کو ایران اور اسامہ بن لادن کے مبینہ تعلق کے حوالے سے سی آئی اے کی جاری کردہ تازہ دستاویزات، قطر بحران، لبنان کے تازہ سیاسی دھماکے، امریکا کے سعودی عرب سے گرم جوش ہوتے تعلقات، متحدہ عرب امارات کی خطے میں مرکزی کردار کی خواہش، سعودی عرب میں مصنوعی لبرل ازم، کمزور پڑتی سعودی معیشت جیسے اہم عناصر سے الگ رکھ کر دیکھنا ایک نظری مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش اگرچہ شاہ سعود اور شاہ فیصل کے دور سے ہی جاری ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں اور سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے کئی امور پر پردہ ڈالنا بہت آسان تھا جو اب ممکن نہیں رہا۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی حالیہ کشمکش شاہ سلمان کے تخت نشین ہوتے ہی شروع ہوگئی تھی، کیونکہ جب شاہ سلمان نے جنوری 2015 میں تخت سنبھالا تو ریاست سے باہر شہزادہ محمد کو شاید ہی کوئی جانتا تھا۔

شاہ سلمان نے پہلے شاہی فرمان میں اپنے جانشینوں کا اعلان کیا۔ شہزادہ مقرن کو ہٹا کر شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد جبکہ اپنے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیا عہدہ تخلیق کیا اور اُنہیں ’نائب ولی عہد‘ بنادیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد کے علاوہ نائب وزیراعظم، وزیردفاع، دربارِ شاہی کا انچارج اور سعودی تیل کمپنی آرامکو کے بورڈ کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آرامکو کے چیئرمین کا عہدہ اِس سے پہلے شاہی خاندان سے ہٹ کر صرف ٹیکنوکریٹس کو ہی دیا جاتا تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے شراکت اقتدار پاتے ہی پاؤں پھیلائے، یمن جنگ چھیڑی، سعودی عرب کا تیل سے انحصار ختم کرکے ریاست کو صنعت و کاروبار کی طرف لانے کے اعلانات کئے اور ساتھ ہی سفارتی سطح پر رابطے بڑھائے۔

مارچ 2017 میں نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں لنچ پرملاقات کی، یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی، جس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک معتمد نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ ملاقات امریکا سعودی عرب تعلقات میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھی۔‘

اِس ملاقات کے بعد سعودی شاہی خاندان کے اندر بھی بے چینی کی ایک لہر اُٹھی اور سب کو اندازہ ہوگیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اقتدار کی کشمکش میں امریکا کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اِسی ملاقات میں ٹرمپ کا پہلا دورہِ سعودی عرب بھی طے پایا۔ پھر مارچ میں ہونے والی ملاقات کا نتیجہ 21 جون کو سامنے آیا، جب امریکا اور سابق صدر اوباما کے منظورِ نظر سمجھے جانے والے شہزادہ محمد بن نائف کو نہ صرف ولی عہد سے ہٹایا گیا بلکہ ریاست کے تمام عہدوں سے ہٹا کر محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کردیا گیا، اور نائب ولی عہد کا فرمائشی عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔

اِس بڑے اور غیر معمولی فیصلے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب اندرونی کشمکش بڑھ جائے گی جسے روکنے کے لیے سرکاری ٹی وی کو ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں محمد بن سلمان کو برطرف ولی عہد محمد بن نائف کے ہاتھوں کو چومتے دکھایا گیا جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دونوں کے درمیان کوئی چپقلش نہیں ہے۔ لیکن اِس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی یہ اطلاعات مستقل آتی رہیں کہ محمد بن نائف نظر بند ہیں اور کوئی اُن سے ملاقات نہیں کرسکتا۔

ولی عہد بنتے ہی محمد بن سلمان نے شاہ سلمان تک اہم افراد کی رسائی بھی محدود کردی اور بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک بن کر قطر کے خلاف محاذ کھولا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی اقتدار کی کشمکش پر جرمن خفیہ ادارہ بی این ڈی نے 2016 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ محمد بن سلمان کی دیگر ریاستوں میں مداخلت مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر بگاڑ کے ساتھ سعودی ریاست کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔

سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار تمام افراد اہم ہیں لیکن 2 شہزادوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ سب سے پہلے شہزادہ الولید بن طلال، جو شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ دونوں کے بڑے اور کھلے ناقد ہیں۔ شہزادہ الولید بن طلال، محمد بن سلمان کے وژن 2030 کی امریکی میڈیا میں کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں بالخصوص سعودی آرامکو کے حصص کی نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے فروخت کے عمل کی شہزادہ ولید نے کھل کر مخالفت کی۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھنے والے شہزادہ ولید نے صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کو امریکا کے لیے باعثِ شرمندگی قرار دیا تھا جس کا جواب ٹرمپ نے ٹویٹر پر دیتے ہوئے کہا کہ شہزادہ ولید باپ کی دولت کے بل پر امریکی سیاست میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مخاصمت کی تازہ مثال نیویارک کے سرمایہ کاروں کے وفد کی ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر سے ملاقات ہے، جس میں شہزادہ ولید بھی شامل تھے۔ شہزادہ ولید اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے درمیان اُس موقع پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ گرفتاریوں کے اعلان سے ایک ہفتہ ہی پہلے صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سمیت وائٹ ہاؤس کے 3 اعلیٰ عہدیداروں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔ نیویارک ٹائمز، بلومبرگ سمیت امریکی میڈیا نے اِن سب عوامل کو بھی شہزادہ ولید کی گرفتاری سے جوڑا ہے۔

اِسی طرح شہزادہ متعب کی گرفتاری بھی اقتدار کی کشمکش کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے کیونکہ شہزادہ متعب کو تخت کے جائز اُمیدواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شہزادہ متعب سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں، جنہیں شاہ عبداللہ نے خود نیشنل گارڈز کا سربراہ مقرر کیا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ شاہ عبداللہ اُنہیں مستقبل کی بڑی ذمہ داری کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ شہزادہ متعب سعود خاندان کی شمر شاخ کے بھی آخری فرد سمجھے جاتے ہیں اور آل سعود میں شمر قبیلہ حکمرانی کا سب سے پہلا حق دار ہوتا ہے۔

سعودی شہزادوں کی کرپشن کے نام پر گرفتاریوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے سعودی سرکاری علماء سے فتویٰ بھی جاری کرایا گیا لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ شاہی خاندان کی دولت اور سرکاری خزانے کے استعمال میں آج تک کوئی فروق روا نہیں رکھا گیا۔ کرپشن کی تعریف ہی متعین نہیں کہ شہزادوں پر کون سا مال حلال ہے اور کون سا حرام؟

جرمن انٹیلی جنس ایجنسی کا انتباہ اپنی جگہ، مگر مئی 2017 میں محمد بن سلمان نے العربیہ ٹی وی اور سعودی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں خطرے کی گھنٹیاں بجائیں۔ اُس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے ایران کے بارے میں فرقہ وارانہ انداز میں گفتگو کی اور کہا کہ ایران مکہ اور مدینہ پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے بعد وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر شیعہ نظریات نافذ کرکے حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے عزائم پر شہزادہ محمد بن سلمان کا دعویٰ ایک طرف لیکن سعودی عرب خود خطے میں کس طرح کے عزائم رکھتا ہے، اِس کا اندازہ امریکی صدر کے دورہ ریاض اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ہونے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکا سے ایک عشرے کے لیے 350 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ کرکے سعودی عرب نے خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی حمایت کی قیمت ادا کی۔ ٹرمپ اِس معاہدے کو اپنے بڑی سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں اور کسی قدر وہ حق بجانب بھی ہیں، کیونکہ صدر اوباما کے دور میں سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار رہے اور تناؤ کی وجہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر سمجھوتہ تھا جسے اوباما اپنی بڑی سفارتی کامیابی گردانتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کو نہ صرف ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ایران کے خلاف عسکری کارروائی کے موڈ میں بھی ہیں۔ جس کا واضح اشارہ یکم نومبر کو سی آئی اے کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات ہیں، جن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن اور ایران کے مبینہ تعلقات کا ذکر ہے۔ اِن دستاویزات کے اجراء پر امریکی کانگریس کے ارکان نے بھی ایران کے خلاف جنگی مہم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار بھی اِن دستاویزات کے اجراء کے پیچھے چھپے ارادوں پر تحفظات ظاہر کرچکے ہیں۔

ایرانی اثر و رسوخ کے توڑ کے لیے سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ عادل الجبیر سمیت اہم سعودی عہدیداروں نے عراق کے 3 دورے کئے اور اِن دوروں کے بعد عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کی جون میں ریاض جاکر سعودی شاہ سلمان سے ملاقات بھی خطے میں بنتے نئے اتحادوں کی طرف اہم اشارہ ہے۔ دو دن پہلے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کا سعودی ٹی وی کے ذریعے ویڈیو بیان میں وزارت عظمیٰ سےاستعفیٰ بھی خطے میں کشمکش کا نکتہ عروج ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاست دان اتنے بڑے منصب سے استعفیٰ کی وجوہات ہمیشہ سیاسی یا ذاتی بتاتا ہے، لیکن سعد الحریری نے لبنان میں حزب اللہ اور ایران کی سرگرمیوں، اپنے قتل کی سازش کو استعفیٰ کی بنیاد بنایا۔ سعد الحریری کا بیان بھی ایران کے لیے ایک چارج شیٹ ہے۔

سعودی شاہی خاندان کی کشمکش کے دوران اگر کوئی شہزادہ یا شہزادوں کا گروہ بغاوت پر اتر آیا تو محمد بن سلمان کے معاشی پروگرام کے تحت ملک میں بڑھتی بیروزگاری، سادگی کے نام پر مراعات کی واپسی کے اقدامات عوام میں بغاوت کی پذیرائی کا باعث بن سکتے ہیں، جن پر قابو پانا ہرگز آسان کام نہیں ہوگا۔

تحریر: ڈاکٹر آصف شاہد
بشکریہ: ڈان نیوز
https://taghribnews.com/vdcgxx9xyak9yw4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ