تاریخ شائع کریں2013 29 October گھنٹہ 10:27
خبر کا کوڈ : 144194
سنی علمائے دین کے بیانات :

حضرت علی (ع) خلیفہ برحق/ رسول اسلام (ص)کے حقیقی مطیع/ اسلام کے پہلے فدائی

تنا (TNA) برصغیر بیورو
بیشک علی ابن ابی طالب خلیفہ برحق اور جانشین رسول خدا(ص) ہیں/حضرت علی کی پوری زندگی رسول اسلام(ص) کی مکمل اطاعت میں گزری/حضرت علی نے کبھی کسی بت کے آگے سجدہ نہیں کیا۔
حضرت علی (ع) خلیفہ برحق/ رسول اسلام (ص)کے حقیقی مطیع/ اسلام کے پہلے فدائی
تقریب نیوز (تنا): الحاج ابوبکر خوجملی نے فضائل امیر المومنین علی (ع) کے بارے میں ریڈیو معارف پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ بزرگ صحابہ میں سے ہیں اور رسول اسلام (ص) کے نزدیک خاص طور پر مورد توجہ واقع رہے ہیں۔ آپ بہت عظیم فضائل کے مالک ہیں جن میں سے بعض کی طرف یہاں پر اشارہ کرتے ہیں:

حوزہ علمیہ محمدیہ کے پرنسیپل نے واضح طور پر بیان کیا: حضرت علی کی سب سے واضح خصوصیت یہ ہے کہ آپ اہلبیت(ع) اور خاندان نبی اکرم (ص) میں شامل ہیں اور خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ’’ اے پیغمبر اپنی امت سے کہو کہ میں اپنے قرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا‘‘۔

انہوں نے کہا: حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت رسول خدا (ص) کے نزدیک ترین رشتہ داروں میں سے ہیں کہ جن کی محبت تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور اہلسنت بھی آپ کی محبت کو اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اہلبیت سے محبت اور دوستی کشتی نوح اور کشتی نجات کے مانند ہے لہذا جس نے ان سے محبت رکھی خداوند عالم اس کو روز محشر نجات عطا کرے گا۔

نگین شہر کے برادارن اہلسنت کے امام جمعہ نے مزید کہا: حضرت علی ابن ابی طالب کے فضائل کو بیان کرتے ہوئے رسول خدا(ص) کی اس حدیث کی طرف بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’انا دارالحکمه و علی بابها‘‘ میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں نیز آپ پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے رسول اسلام (ص) پر ایمان لایا اور حضرت علی کی ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ کو جنت کی بشارت دی گئی تھی۔

جناب خوجملی نے حضرت علی (ع) کے خلیفہ برحق اور جانشین رسول (ص) ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حضرت علی (ع) کے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ فاتح خیبر ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ فتح خیبر مسلمانوں کے لیے ایک معضل بن گیا تھا رسول خدا(ص) نے کئی مسلمانوں کو سردار لشکر بنا کر بھیجا اور پرچم ان کے ہاتھ میں دیا لیکن ان میں سے کوئی خیبر کو فتح نہ کر پایا۔ بالآخرہ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ میں کل یہ پرچم اس کے ہاتھوں میں دوں گا جس کے ہاتھوں کے ذریعے خدا قلعہ خیبر کو فتح کرے گا اور خدا اس کو دوست رکھتا ہو گا۔ اس رات سب اس سوچ بچار میں تھے کہ آخر وہ کون ہو گا جسے کل رسول خدا (ص) پرچم دیں گے؟ دوسرے دن رسول خدا(ص) نے حضرت علی (ع) کو بلوایا کہا گیا کہ آپ آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ رسول خدا (ص) نے کسی کو بھیج کر حضرت علی کو بلوایا اس کے بعد رسول اسلام(ص) نے اپنے مبارک وجود اور مستجاب الدعوہ زبان سے حضرت علی کی آنکھوں کے لیے دعا کی تو ان کی آنکھیں شفایاب ہو گئیں اس کے بعد پرچم آپ کے ہاتھ میں دیا اور آخر کار خیبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں فتح ہوا۔

اہلسنت کے عالم دین نے آخر میں کہا: حضرت علی کے فضائل بے شمار ہیں کہ ہم اس مختصر فرصت میں انہیں نہیں گنوا سکتے۔ لیکن آپ کی ایک آشکار فضیلت یہ ہے کہ آپ کو ماہ مبارک رمضان میں شہادت نصیب ہوئی لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام نیکیاں آپ کے وجود میں جمع ہیں اور مجھے امید ہے کہ ہم اہل سنت اور اہل تشیع سب آپ کو اسوہ حسنہ قرار دے کر آپ کے طریقہ کار پر چلیں اور اپنی زندگی میں آپ کے اخلاقی فضائل، سادہ زیستی اور عفو و درگذر کو مد نظر رکھیں اور انہیں اپنی عملی زندگی میں جگہ دیں۔

حضرت علی (ع) کی پوری زندگی رسول اسلام(ص) کی مکمل اطاعت میں گزری : شیراز کے سنی عالم دین

شیراز کے اہلسنت کے امام جمعہ عبد الواحد خواجوی نے ریڈیو معارف سے امیر المومنین حضرت (ع) کے مقام و منزلت کے بارے میں دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا: حضرت علی پیغمبر اسلام کے چچازاد بھائی تھے جو بچپن سے ہی آپ اور ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے زیر تربیت رہے اور بڑے ہو کر رسول خدا (ص) کی بہترین اور محبوب ترین اولاد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔

انہوں نے کہا: آپ نے بچپن میں ہی اسلام قبول کر لیا اور صدر اسلام سے ہی رسول خدا(ص) کے حامی اور مددگار رہے اور رسول اسلام کی رحلت کے بعد اپنی شہادت کے وقت تک آپ کی زندگی مکمل طور پر اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کی پیروی میں گزری۔

عبد الواحد خواجوی نے واضح کیا: رسول خدا(ص) اپنے تمام کاموں میں حضرت علی کے ساتھ مشورہ کرتے تھے جب آنحضرت مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا چاہتے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت کے بستر پر سوئے تاکہ دشمنان اسلام آنحضرت کو کوئی صدمہ نہ پہنچا سکیں، آپ کا یہ عمل انتہائی شجاعت، بہادری اور ایثار و قربانی کو بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد آپ اہلبیت پیغمبر (ص) کو مکہ سے مدینہ لے کر گئے۔

شیراز کے اہلسنت کے امام جمعہ نے بیان کیا: حضرت علی(ع)کا ایک لقب حیدر کرار ہے اور اہلسنت کے نزدیک ’’ اسد اللہ الغالب‘‘ کے لقب سے معروف ہیں یعنی ایسا شیر جو ہمیشہ کامیاب ہے یہ لقب صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخصوص ہے۔ خلاصہ یہ کہ آپ کے فضائل بے شمار ہیں اور سب کی طرف یہاں اشارہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

حضرت علی نے کبھی کسی بت کے آگے سجدہ نہیں کیا: شیخ بہجت

محمد صدیق بہجت نے ریڈیو معارف کے ساتھ گفتگو میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اہلسنت کے نظریے کو بیان کرتے ہوئے کہا: علی بن ابی طالب ایسی بے مثال شخصیت ہیں کہ جن کے فضائل و مناقب کسی پر پنہاں نہیں ہیں؛ بعثت سے پہلے آپ کی تربیت رسول خدا(ص) نے کی۔

ضلع بندر لنگہ کے سنی علماء کونسل کے سربراہ نے مزید کہا: علی ابن ابی طالب ان افراد میں سے تھے جو سب سے پہلے رسول اسلام (ص) پر ایمان لائے اور تمام صحابہ میں سے صرف حضرت علی تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی کبھی بت کے آگے سجدہ نہیں کیا لہذا اسی وجہ سے اہلسنت دیگر تمام صحابہ کو ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کہتے ہیں لیکن حضرت علی کو ’’کّرم اللہ وجہہ‘‘ کہتے ہیں۔

بندر لنگہ کے اہلسنت و الجماعت کے امام جمعہ نے مزید کہا: آپ اسلام کے سب سے پہلے فدائی ہیں اس لیے کہ اس رات جب رسول اسلام نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو آپ رسول کے بستر پر سوئے اور قبا کے مقام پر رسول خدا(ص) آپ کے منتظر رہے تاکہ آپ کو ساتھ لے کر مدینہ میں داخل ہوں۔

شیخ بہجت نے واضح کیا: آپ تمام غزوات میں پیغمبر گرامی اسلام کے ساتھ ساتھ رہے جنگ بدر، احد، خندق اور خیبر میں آپ کی شجاعت کے کرشمے کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں۔ جنگ خیبر تھی جس میں پیغمبر اسلام نے فرمایا: کل میں ایسے شخص کو پرچم دوں گا جسے خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے اس کے بعد دوسرے دن پرچم آپ کو دیا اور قلعہ خیبر آپ کے ہاتھوں فتح ہوا صرف ایک غزوہ میں آپ پیغمبر کے ہمراہ نہیں تھے اور آپ نے دکھ کا اظہار کیا تو رسول خدا نے آپ سے فرمایا کہ آپ میرے نزدیک ایسے ہی ہیں جیسے ہارون موسی کے نزدیک تھے صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اگر علمی اعتبار سے آپ (ع) کی شخصیت پر نگاہ کریں تو ابن عباس آپ کے سلسلے میں کہتے ہیں: اگر علم کے ۱۰ درجے ہوں تو ۹ درجے علی بن ابی طالب کے پاس ہیں اور دسویں مرتبے میں بھی آپ سب کے ساتھ شریک ہیں۔ اسی طرح سعید بن مسیب کا کہنا ہے علی بن ابی طالب کے علاوہ کوئی نہیں کہتا تھا کہ مجھ سے پوچھ لو جو پوچھنا ہے۔

بندر لنگہ کے سنی امام جمعہ نے آخر میں کہا: پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد اگر خلفائے راشدین نے مقام حاصل کیا تو آپ کے مشورے سے حاصل کیا اور آپ اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ خلفائے راشدین کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔
https://taghribnews.com/vdcco0qs02bq0s8.c7a2.html
منبع : ابنا
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ