تاریخ شائع کریں2013 16 September گھنٹہ 15:02
خبر کا کوڈ : 140826
مولانا صفدر علی شاہ نجفی :

ہمارا اصل دشمن امریکہ اور اسرائیل ہے

تنا (TNA) برصغیر بیورو
گفتگو کے دوران مجلس علمائے اہلبیت کے نومنتخب صدر مولانا صفدر علی شاہ نجفی نے کہا کہ ہمارا اصل دشمن امریکہ اور اسرائیل ہے۔ جبکہ روس کی جانب سے سعودی عرب پر حملوں کی دھمکی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جب تک اصل دشمن موجود ہے، سعودی عرب ہو یا کوئی دوسرا وہ ختم ہو گا تو امریکہ اسکی جگہ کسی اور کو بٹھا دے گا۔
ہمارا اصل دشمن امریکہ اور اسرائیل ہے
تقریب نیوز (تنا): حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید صفدر علی شاہ نجفی کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے مہورہ سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاوں مہورہ سے حاصل کی، 1965ء میں مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں داخلہ لیا۔ 1969ء تک یہاں مرحوم مولانا غلام حسین افغانی اور مرحوم استاد مولانا سید محمد بشیر نجفی سے لمعتین پڑھیں۔ 1969ء میں نجف اشرف چلے گئے اور وہاں نامور شخصیات جیسے امام خمینی (رہ)، شہید محراب، سید اسد اللہ مدنی اور حجۃ الاسلام آقائے اشرفی سے کسب فیض کیا۔ 1975ء میں پاکستان واپس آ کر اقتصادی مسائل کی وجہ سے سرکاری نوکری اختیار کرکے ہائی سکول میں بحیثیت عریبک ٹیچر تعینات ہوئے۔ 1980ء میں نوکری کو خیرباد کہہ کر دینی علوم کو جاری رکھنے کی غرض سے دوبارہ ایران چلے گئے، جہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ سیاسی امور کا بھی مطالعہ کیا۔ 1984ء میں واپس آکر 1991ء تک مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور 1991ء سے آج تک مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای پاراچنار میں درس و تدریس کررہے ہیں۔ مولانا صاحب تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل مجلس علمائے اہلبیت کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ پاراچنار کی موجودہ صورتحال، مسائل اور اس سلسلے میں انکی تنظیم کی پالیسی کے متعلق گفتگو کی ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

مولانا صاحب! مجلس علمائے اہلبیت کے صدر کی حیثیت سے پاراچنار کی در بدر عوام کی مدد کس طرح کرنا چاہیں گے؟

سب سے پہلے تو میرا ارادہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاؤں، انکے درمیان موجود نفرتوں کو ختم کرکے اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کروں، کیونکہ عوام میں جب تک اتفاق و اتحاد نہیں ہے تو انکی بری حالت کبھی اچھی حالت میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ بعض عناصر ایسے ہیں جو ایجنسیوں کے ذریعے پاراچنار کے غیور عوام کو اتفاق و اتحاد سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم ہم کوشش کریں گے کہ ایسے مضر اور خطرناک عناصر سے عوام کو آگاہ کریں۔

مجلس علمائے اہلبیت میں صرف علمائے کرام ہی نظر آتے ہیں۔ جبکہ کسی بھی تنظیم کی کامیابی میں جوانوں کا رول نہایت کلیدی ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنے دور صدارت میں تنظیم کا دائرہ کار عوام خصوصا جوانوں تک بڑھانے پر مبنی کوئی منصیوبہ جناب عالی کے زیرغور ہے؟

مجلس علمائے اہلبیت اگرچہ علماء کی تنظیم ہے لیکن میں نے پہلے صدارتی خطاب میں کہا تھا کہ میں اسکا دائرہ وسیع کرکے، گاؤں گاؤں تک پھیلاؤں گا، نوجوانوں کی تربیت کیلئے کام کروں گا کیونکہ نوجوانوں کی تربیت کے بغیر ہم مذہبی کارواں آگے نہیں لے جا سکتے۔

تنظیم کے لئے مزید یونٹ سازی یا لائبریوں کے قیام کا کوئی پروگرام زیر غور ہے؟

میرے انتخاب کو ابھی ڈیڑھ ماہ ہو چکے ہیں، اس دوران اپنی پالیسی کو حتمی شکل دینے کے لئے اجلاس بلائے، تنظیمی فارمیلٹیز پوری کرنے اور کابینہ سازی وغیرہ کے بعد اپنی طرف سے پوری کوشش کرونگا، اور دوستوں کے تعاون سے تنظیم کا دائرہ بڑھا کر گاؤں گاؤں میں تنظیم سازی کرکے یونٹس بنائیں گے۔ اور پھر انہی یونٹس کے توسط اور تعاون سے لائبریریاں اور قرآن سنٹرز بھی قائم کریں گے۔

پاراچنار کے گوناگوں مسائل میں سے آپکے خیال میں سرفہرست کونسا مسئلہ یا مسائل ہیں۔ جو سب سے زیادہ توجہ طلب ہے؟

میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ سب سے پہلا اور توجہ طلب مسئلہ یہاں کی عوام کے درمیان اتفاق و اتحاد کے فقدان کا ہے۔ دنیا شاہد ہے، کہ 2007ء میں پیش آنے والے واقعات کے دوران اس غیور قوم نے جو کارکردگی دکھائی، اور جس طرح ایک متکبر دشمن کے دانت کھٹے کئے، وہ صرف اور صرف اتفاق و اتحاد کی وجہ سے ممکن ہوا، اور جس کا دشمن کو بھی بخوبی علم ہے، چنانچہ اب دشمن کی طرف سے بھرپور کوشش ہے کہ انکے درمیان نفاق کا بیج بو کر ان پر غلبہ حاصل کر سکیں۔ چنانچہ میری اولین کوشش یہی ہوگی کہ عوام میں شعور بیدار کرکے انہیں ایسی زہریلی باتوں سے آگاہ کروں اور انہیں اتحاد کی لڑی میں دوبارہ پرو لوں۔

مجلس علمائے اہلبیت کے پلیٹ فارم سے کیا آپ یہاں کی عوام کے سیاسی مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کریں گےَ؟

اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہم نے دیگر اضلاع میں موجود نامور اور جید علماء کے پاس اپنا ایک نمائندہ بھیجدیا ہے، جو ان سے پاراچنار کی موجودہ صورتحال کا تذکرہ کرکے انکے مشورے اور تجاویز نوٹ کریں گے، اور پھر ملکر اس صورتحال کا کوئی مناسب حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔

پاراچنار کے مسلمان آج کل اختلافات کے شکار ہیں، ان اختلافات کو ختم کروانے کے سلسلے میں جناب عالی کے پاس کوئی حل یا منصوبہ ہے؟

عرض یہ ہے کہ پاراچنار کی غیور عوام کے خلاف دشمن کے کارندے اور مختلف ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ اگر ہم ان ایجنسیوں اور دشمن کے کارندوں کو پہچانیں اور انکے ہاتھ کاٹ دیں، تو پھر یہ اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔ اس سے پہلے ایسے اختلافات نہیں تھے، لیکن جب پاراچنار کے غیور جوانوں نے اپنے بلکہ پوری انسانیت کے دشمن کو شکست سے دوچار کر دیا تو اسکے بعد دشمن نے مومنین کو ذلیل کرنے کیلئے ایسے مذموم حربے شروع کئے۔

مولانا صاحب! آپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ تنظیموں کے قریب آنے سے کتراتے ہیں، بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جناب عالی تنظیموں کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایک تنظیم کی سرپرستی قبول کرنے کا فیصلہ کیسے کیا؟

یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے جنکا یہ خیال ہے کہ میں تنظیموں کا مخالف ہوں یا دور رہتا ہوں۔ میں پہلے بھی تنظیموں کا قائل ہوں۔ حتی کہ 1984ء سے مختلف تنظیموں سے وابستہ رہا ہوں، تنظیموں سے دلی وابستگی ہے اور رہے گی۔ جبکہ آج کل تو میں دو عہدوں پر فائز ہوں جن میں سے ایک مجلس علمائے اہلبیت کی صدارت ہے۔

شام کے بحران کے متعلق امریکہ، یورپ خصوصا عرب ممالک کے کردار کے حوالے سے کچھ کہنا پسند کریں گے؟

ہمارا اصل دشمن امریکہ اور اسرائیل ہے۔ جبکہ عرب ممالک تو کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ روس نے جو کہا ہے کہ اگر شام پر حملہ ہوا تو میں سعودی عرب پر حملہ کروں گا وغیرہ جیسی دھمکیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ جب تک اصل دشمن موجود ہے، سعودی عرب ہو یا کوئی دوسرا وہ ختم ہو، امریکہ اسکی جگہ کسی اور کو بٹھا دے گا۔ چنانچہ میرے خیال میں تو ہمارا اصل دشمن امریکہ اور اسکی ناجائز اولاد اسرائیل ہے، یہی ہمارا ہدف ہونا چاہیئے، جبکہ طالبان، سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک وغیرہ یہ سب تو امریکہ اور اسرائیل ہی کے اشارے پر ہمیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ اور یہ سب ظاہری دشمن ہیں، جبکہ اصل دشمن جو کبھی پس پردہ ہوا کرتا تھا اور اب تو کھل کر سامنے آ گیا ہے، یعنی امریکہ اور اسرائیل، ہماری توجہ کبھی ان سے نہیں ہٹنی چاہیئے۔ اور امام خمینی (رح)  کے حکم کے مطابق ہمیں ہمیشہ امریکہ مردہ باد کا نعرہ نہیں بھولنا چاہئے۔

پاراچنار شہر میں متعدد بم دھماکے ہوئے، اور آئے دن مزید دھماکوں کی افواہیں بھی گردش کرتی ہیں۔ پاراچنار کی سکیورٹی کے لئے آپ کے ہاں کوئی تجویز ہے کہ کسی زمانے میں امن کے نمونے اس شہر کو دھماکوں سے کیسے محفوٖظ رکھا جائے؟

دھماکوں کا جو سلسلہ ہے، صرف ہم نہیں بلکہ ہر مذہبی اور سیاسی ادارے نے انکے تدارک کیلئے منصوبے تیار کئے، کام کیا۔ لیکن سکیورٹی انتظامات میں سستی آ جائے تو پھر منصوبوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سکیورٹی کا موجودہ نظام ناقص ہے اسے ٹھیک کرنا چاہیئے۔ اسکے علاوہ عوام کو خود بھی بیدار ہونا چاہیئے۔ ہم نے بار بار منبر سے بھی لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ اپنی خفاظت خود کریں، کسی سکیورٹی ادارے پر کوئی اعتماد نہ کریں۔ اسکے علاوہ یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں، پورا ملک اسی بحران سے دوچار ہے بلکہ تمام مسلم ممالک کا یہی حال ہے۔ صرف ایران ہے جہاں عوام دہشتگردی سے محفوظ ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے اصلی دشمن کو پہچان کر اسکے ہاتھ کاٹ دیئے ہیں۔

جوانوں کو کیا پیغام دینا چاہینگے؟

جوانوں سے میری یہ گزارش ہے کہ وہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کرنے پر پوری توجہ دیں۔ لیکن ایسی تعلیم کا انتخاب ہرگز نہ کریں جو انہیں دینی معاملات سے دور رکھے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیں۔ اسکے علاوہ مذہبی اور قومی خدمت کیلئے بھی کچھ وقت نکالیں۔ کیونکہ معاشرے کی تشکیل اور تعمیر میں جوان ہی سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdcauwn6i49nya1.zlk4.html
منبع : اسلام ٹائمز
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ