تاریخ شائع کریں2023 27 February گھنٹہ 20:12
خبر کا کوڈ : 585526

سوٹ کیس ہاتھوں میں تھامے مقبوضہ علاقوں سے بھاگتے صہیونی 

صہیونیوں کی ایک بڑی مقبوضہ علاقوں کی صورتحال اور وہاں رونما ہونے والے واقعات سے پریشان اور تشویش کا شکار ہے، اسی لیے دوسرے ملکوں کی شہریت کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
سوٹ کیس ہاتھوں میں تھامے مقبوضہ علاقوں سے بھاگتے صہیونی 
بشکریہ:مہر خبررساں ایجنسی

صہیونی رجیم کے شدید داخلی بحران اور اس کے وجود کو لاحق بڑھتے ہوئے سلامتی کے خطرات کی وجہ سے ان دنوں صیہونی اپنے لیے محفوظ جگہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

صہیونی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مقبوضہ علاقوں کے باشندے دیگر ملکوں کی شہریت حاصل کرنے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان ملکوں کی جانب نقل مکانی کر کے وہاں رہائش اختیار کرسکیں۔

ایک صہیونی ادارے کے سربراہ لاو بیکمین نے صہیونی چینل 12 کو بتایا کہ صہیونی ملک میں رونما ہونے والے واقعات سے خوفزدہ ہیں ، اسی لیے غیر ملکی شہریت کی درخواستوں میں تناسب میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

مذکورہ صہیونی عہدیدار نے مزید کہا کہ اسرائیلی شہری غیر ملکی پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ یہ ملک اب رہنے کے لیے موزوں جگہ نہیں رہا۔ اس صہیونی نے کہا کہ آباد کاروں کو یہ سوال درپیش ہے کہ جائیداد خریدنے کے لیے کون سی جگہ موزوں ہے اور وہ سرمایہ کاری کے لیے اپنی دولت کہاں منتقل کر سکتے ہیں؟

صہیونیوں کی ایک بڑی مقبوضہ علاقوں کی صورتحال اور وہاں رونما ہونے والے واقعات سے پریشان اور تشویش کا شکار ہے، اسی لیے دوسرے ملکوں کی شہریت کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

مقبوضہ علاقوں کی صورت حال کے بارے میں یہ انتباہات ایسے وقت میں روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں کہ جب صہیونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کے وسیع عدالتی اصلاحات کے بل کے خلاف گزشتہ آٹھ ہفتوں میں آباد کاروں کے بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہروں کے باوجود کنیسٹ نے پہلی ریڈنگ میں اس بل کی منظوری دے دی۔ نیتن یاہو جو بدعنوانی، رشوت ستانی اور امانت میں خیانت کے الزامات میں برسوں سے مقدمے کی زد میں ہیں، خود کے بقول "عدالتی اصلاحات" کے ذریعے اس کیس سے اپنی جان چھڑانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اسرائیل آئندہ چھ ماہ میں اندر سے ٹوٹ کر بکھر جائے گا

دریں اثناء حزب اختلاف کے سربراہ اور سابق صہیونی وزیراعظم یائر لپیڈ نے اس سے قبل صہیونی ریاست کے اندر سے ٹوٹ پھوٹ اور بکھرنے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق لپیڈ نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل آئندہ چھ ماہ میں اندر سے ٹوٹ کر بکھر جائے گا اور اس کا معاشرہ ایک دوسرے سے نفرت میں گرفتار ہو جائے گا۔

سابق صہیونی وزیر اعظم نے کنیسٹ میں وزیر انصاف "یاریو لیون" کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لیون تم اس صورتحال کے ذمہ دار ہو کیونکہ تم کابینہ کے حقیقی سربراہ ہو۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو۔ گفتگو (عدالتی اصلاحات کے بارے میں) کی باتیں کر کے ہمیں احمق اور بے وقوف نہ سمجھو جبکہ تم خود اس قانون کو پاس کرو گے۔ جھوٹ کافی ہے۔

صہیونی ریاست کے سابق وزیر جنگ اور بنجمن نیتن یاہو کے ایک پرانے اتحادی ایویگڈور لائبرمین نے اس سے قبل نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کو مکمل انتشار اور ہرج و مرج کی طرف لے گیا ہے۔

غاصب حکومت کے سابق وزیر جنگ بینی گانٹز نے اس حوالے سے کہا کہ اگر نیتن یاہو کی کابینہ اسی رویے کو جاری رکھتی ہے تو خانہ جنگی کی ذمہ دار ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب سڑکوں پر نکلیں اور نیتن یاہو کی نسل پرست حکومت کے خلاف مظاہرہ کریں۔

انتہائی دائیں بازو کے حکمران اتحاد نے بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں اقتدار میں آنے کے بعد سے متعدد ایسے اقدامات اور فیصلے کیے ہیں جو اپوزیشن جماعتوں اور صہیونی صدر  کے بقول اس رجیم کے داخلی بحران اور یہاں تک کہ خانہ جنگی کی طرف بڑھنے کا سبب بنیں گے۔

عدالتی نظام میں تبدیلیوں کے لیے نیتن یاہو کی کابینہ کا فیصلہ اب حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی کشیدگی اور اختلافات کا مرکز بن چکا ہے۔

گزشتہ ہفتوں میں مقبوضہ فلسطین کے شمال سے جنوب تک درجنوں شہر جن میں تل ابیب، حیفا، مقبوضہ القدس (یروشلم)، بیر شیبہ، ریشون لیٹزیون اور ہرزلیہ شامل ہیں، نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کے خلاف مظاہروں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

اگرچہ ہجرت اور امیگریشن صہیونیوں کے لیے کوئی نیا اور عجیب مسئلہ نہیں ہے تاہم اس وقت موثق اور مستند رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ صہیونیوں کی ہجرت کی نئی لہر مقبوضہ فلسطین کی طرف نہیں بلکہ مقبوضہ علاقوں کو مستقل طور پر چھوڑنے کے لیے ہے۔

موثق اور مستند رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ صہیونیوں کی ہجرت کی نئی لہر مقبوضہ فلسطین کی طرف نہیں بلکہ مقبوضہ علاقوں کو مستقل طور پر چھوڑنے کے لیے ہے۔

دنیا کے مختلف خطوں میں خانہ جنگیاں عموماً اچانک اور بغیر وجوہات کے شروع نہیں ہوتیں بلکہ عام طور پر دنیا کے کسی بھی حصے میں خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے متعدد چپقلشیں اور پس پردہ وجوہات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس دوران دنیا کے کچھ خطوں میں فرقہ وارانہ اختلافات، نسلی اور مذہبی امتیاز کے سمیت سیاسی اور پارٹی ماحول کی کثیر پولرائزیشن کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف وجوہات کی بنا پر تنازعات اور خانہ جنگی کا شکار  ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

صہیونی ریاست کے اندرونی اشاریے بتاتے ہیں کہ اسرائیلیوں کے مابین اندرونی کشیدگی ایک گہرے بحران میں بدل گئی ہے جس سے نمٹنا مشکل ہے۔ دوسرے لفظوں میں مقبوضہ فلسطین میں اندرونی کشمکش اب کوئی پارٹی یا سیاسی جدوجہد نہیں ہے بلکہ باہمی نفرت اور ایک دوسرے کو دھتکارنے پر مبنی ایک نظریاتی جنگ ہے جس نے صہیونی معاشرے میں "خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی" کی کیفیت پیدا کر دی ہے، یہ وہ مسئلہ جو مقبوضہ سرزمین سے صہیونیوں کی "ریورس ہجرت" (ناقابل واپسی سفر) کے رجحان کو تیز کرنے کے اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ صہیونی ریاست جس حقیقت کو چھپا نہیں سکتی وہ یہ ہے کہ کشیدگی اور اختلافات کے بڑھنے سے وہ اپنے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھرنے کے دھانے پر کھڑی ہے۔

یہ مسئلہ صیہونیت کے وجود کے لیے ایک بڑے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے جس نے اپنی بقا کے لیے آبادی کے عنصر اور دنیا بھر سے یہودیوں کی مقبوضہ فلسطین کی طرف ہجرت پر راغب کرنے پر امیدیں باندھی ہوئی ہیں۔ شاید صہیونیوں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ صہیونیت کا منصوبہ اپنی زندگی کے خاتمے کے قریب ہے اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ’’یہودی ریاست‘‘ کی تعمیر کی امید وہ خواب ہے جو چکناچور  ہونے کے قریب ہے۔

ایک اور حقیقت جسے صہیونی ریاست نہیں چھپا سکتی وہ یہ ہے کہ صہیونی معاشرے میں ایک دوسرے سے دوریاں، تفرقہ، بڑھتی دراڑیں اور اختلافات کی شدت بذات خود ایک کمزوری بن چکی ہے جو اسرائیل کے اندر سے ٹوٹ کر بکھرنے کے عمل کو تیز کر رہی ہے۔ گذشتہ جنوری میں کیے گئے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 40 فیصد اسرائیلی ہجرت کی خواہش رکھتے ہیں۔

صہیونی معاشرے کی اندرونی تقسیم اور اختلافات قطع نظر اس ریاست کے لیے مقاومتی محور کے خطرات بھی لاحق ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ ریاست عارضی ہے تو ایسا ان حالات کی وجہ سے ہے۔

’’یہودی ریاست‘‘ کی تعمیر کی امید وہ خواب ہے جو چکناچور  ہونے کے قریب ہے

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے کچھ عرصہ قبل کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے اور میرے پاس اس یقین اور عقیدے کے علمی دلائل بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اپنے میزائلوں سے صہیونی ریاست کے حساس مراکز اور سرحدی ساحل پر واقع اس کے ایٹمی پاور پلانٹس کو 20 کلو میٹر کی گہرائی تک نشانہ بنا سکتے ہیں۔

کیا اسرائیل میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس طرح کی ضرب برداشت کر سکے؟

ایسا لگتا ہے کہ تجزیہ کاروں کا یہ مشورہ کہ صہیونیوں کو اپنا سامان باندھ کر جلد سے جلد مقبوضہ علاقوں سے نکل جانا چاہیے، حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ ان کے پاس ایک طاقتور فوج ہے جو ان کی حفاظت کرے گی اور F15، F16، اور F35 طیارے ان کی رکھوالی کریں گے لیکن آج انہیں نظر آرہا ہے کہ یہ لڑاکا طیارے ان کے کسی کام کے نہیں ہیں اور اسرائیلی فوج بھی ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ حالات آباد کاروں کے بھاگنے کا سبب بن رہے ہیں اور صیہونیت کا خواب اپنے انجام کے قریب ہے۔

ایک مسلمہ اور اٹل اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ قبضہ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا۔ ویتنام، عراق اور افغانستان میں امریکی قبضہ قائم نہیں رہا اور نہ ہی الجزائر پر فرانس کا قبضہ یا دیگر بے شمار واقعات جو تاریخ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ یہ غاصب ریاسی عارضی ہے اور اس کی علامات بھی دن بدن مزید نمایاں ہوتی جارہی ہیں۔
https://taghribnews.com/vdcaumnmi49nam1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ