تاریخ شائع کریں2022 10 September گھنٹہ 18:50
خبر کا کوڈ : 564990

مخلوق خدا کے ہمدردی اور غمخواری شہید سید ساجد حسین رضوی

 شہید کا کہنا تھا جب ہم کسی کا نان و نمک کھاتے ہیں اس کی کچھ ذمہ داری ہم عائد ہوتی ہے ہم نے انقلاب اسلامی کا نان و نمک کھایا ہے ہم  آخری سانس تک انقلاب کے وفادار باقی رہیں گے ۔
مخلوق خدا کے ہمدردی اور غمخواری شہید سید ساجد حسین رضوی
تحریر: ہمسر  شہید قمر فاطمہ 

شہید مدافع انقلاب , مجاھد دوران دفاع مقدس , مدافع حرم , ریڈیو زاہدان , اور ریڈیو  تہران کے سابق سربراہ ,  عالمی  سحر اردو  نشریات کے روح رواں , اپنی ولولہ انگیز اور جوشیلی آواز سے ہوا کے دوش پر  جوانوں میں انقلابی روح بیدار کرنے والے ۔   پاکستان میں  عالمی یوم  علی اصغر کے بانی ,   انتہای  ملنسار  ,  مخلص ,  ہمدرد  ,  ہر دلعزیز , چپکے چپکے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے والے ,  شہید سید ساجد حسین رضوی جنہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد صرف پندرہ سال کی عمر سے ہی اپنے آپ کو انقلاب اسلامی کی خدمت کے لیے وقف کردیا اور بغیر کسی لالچ کے زندگی کی آخری سانسوں تک انقلاب اسلامی کے وفادار باقی رہے ۔

 شہید کا کہنا تھا جب ہم کسی کا نان و نمک کھاتے ہیں اس کی کچھ ذمہ داری ہم عائد ہوتی ہے ہم نے انقلاب اسلامی کا نان و نمک کھایا ہے ہم  آخری سانس تک انقلاب کے وفادار باقی رہیں گے ۔

ع۔ یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آے گا 
جاتے ہوے چراغ بجھا کر  نہیں گیا ۔  

 یوں تو ایک روز سب کو چلے جانا ہے مگر مخلوق خدا سے ہمدردی اور غمخواری کرنے والے , ملنسار  , مہمان  نواز , انسان ہمیشہ اپنے اخلاق  و  کردار  کی وجہ سے زندہ و  جاوید رہتے ہیں ۔ 

شہید ہمیشہ ہمیں یہ نصیحت  کرتے تھے ۔ 

1  کبھی کسی کا  دل نہ دکھانا 

2 برای کا  بدلہ برای سے مت دینا 

3  کوی ضرورت مند تمہارے پاس آے تو  اس  کا  شجرہ  کھنگالے  بغیر   اس  کی مدد کرنا ۔

میں نے  شہید  کی  ہم سفری میں کبھی ان  کے قول  و  فعل میں  تضاد  نہیں  پایا ۔ 
کبھی  انہیں غصہ کرتے اور  کسی کی توہین  کرتے نہیں دیکھا ۔ میں نے انہیں  لوگوں میں محبتیں  باٹتے دیکھا ۔

ہاں وہ ایک خوبصورت دل رکھنے  والا شخص جو پردیس میں میری زندگی شریک سفر   بن کر آیا ,  مگر  پھر وہ میرا سب کچھ بنتا چلا گیا اس کے پاس ہر روپ تھا ۔ ماں کی ضروت پڑی تو  ماں  جیسی ہمدردی , فکر ,  باپ  جیسی  نرمی , شفقت ,  گھنی چھاوں ,  مضبوط سایہظ دار شجر ۔  بھای  بہنوں   جیسی محبتیں ,  جیسے جیسے  زندگی کا ساتھ طولانی ہوتا  رہا میری حیرتوں میں اضافہ ہوتا رہا  اکثر کہتی  ,;  اللہ نے آپ جیسے انسان کو میرے ہمراہ کرکے اپنی نعمتیں میرے اوپر تمام کردیں ۔

شہید مسکرا  کر کہتے تو پھر ان نعمتوں  سے خود بھی بھرپور استفادہ کرو اور دوسروں کو بھی کرنے دو ۔ میں نے دیکھا  کہ کوی شخص  دنیا  مٹھی میں رکھنے اور  پوسٹ و مقام  سے استفادہ کا اختیار  رکھنے کے باوجود  کسطرح  ان  سب سے لاتعلق ہے ۔ وقت ضرورت بھی اپنے لیے  اختیارات کو استعمال  نہ کرنا  ہر  کسی کے بس کی بات نہیں ۔  ایک بار میں نے شہید سے کہا کہ میں بھی انقلاب کے لیے کچھ کرنا  چاہتی ہوں ۔ ساجد  نے میرے ہاتھ میں قلم تھمایا اور کہا شہدا کے لیے لکھنا شروع  کرو  اب تو واٹس اپ کی سہولت موجود ہے ۔ ان ہستیوں کے لکھو  آج عالم اسلام جنکا  احسان مند ہے ۔ ان واقعات کو لکھو جنکا علم کسی کو نہیں  کہ یہ اسلام کربلا  کے  بعد  دوبارہ کن کے خون  سے زندہ ہوا ہے ۔

بے شک  شہید  ہونے سے پہلے شہدای صفات  اپنے اندر لانا ضروری ہے ۔   
 آج وہ بلند شخصیت ہمارےدرمیان نہیں مگر ان کے وجود  کی خوشبو  اب تک ہمارے آس پاس پھیلی ہوی ہے ۔ گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوی 

لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آکر  نہیں گیا 
مجھ کو تو یہ گلہ ہی رہا اس کی زات سے 
جاتے ہوے وہ کوی گلہ کر نہیں گیا ۔
شاید وہ مل ہی جاے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا 
 
ہاں ان کی زبان پر کسی حوالے سے بھی کبھی کوی گلہ شکوہ میں نے نہیں سنا ۔
 مگر  ہر بار  شام سے واپسی کے سفر کے بعد میں نے ان شہادت کے لیے ان کی بے چینی  اور تڑپ کو محسوس کیا ۔ وہ اکثر کہتے شہادت اتفاقی امر نہیں ہے محنت کرنی پڑتی ہے اور ہم نے کوی محنت نہیں کی. ہر بار شام کا سفر اور مدافعن حرم کی غربت ساجد کو بے چین  رکھتی تھی  ۔  اکثر آہ بھر کر کہتے ۔  ہم شام میں اس جگہ سے جب نکل جاتے تھے تو وہاں بمباری ہوتی تھی ۔   مگر شام سے واپسی کے بعد اکثر راتوں کو کھانسی کے پھندے انہیں سونے نہیں دیتے تھے اور میں کہتی آپ شام کی سوغات اپنے ساتھ لاے  تو  ہیں ۔ 

جب ڈاکٹر کے ہاں چیک اپ کروایا تو پتا چلا کہ مسلسل پھپڑوں کا  انفیکشن ہے ۔ مگر یہ بات راز میں ہی رہی ۔  پھر 21  ستمبر  2021  کی  صبح  کا  سورج ہم سب سے   ساجدکی جدای  کی خبر  لے کر طلوع  ہوا  ۔  پندرہ  روز ہاسپٹل  میں کرونا  سے   دست  و  پنجہ  نرم کرنے کے بعد  اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ بیماری کے دوران بھی کوی چیخ  پکار  آہ  نالہ , کی آوازیں شہید کی زبان سے بلند  نہیں ہوئیں ۔ ہاں  جب  بھی  ہوش  میں آجاتے تھے مجھ  سے یہ ضرور  کہتے تھے کہ  تھوڑا  سا پانی میرے  حلق  میں ڈال  دو  پیاس  سے سے میرا میرا گلہ خشک ہے ۔ (  مجھے نہیں معلوم جب ملک الموت  آپ کو لینے آے  کیا اسوقت بھی  آپ پیاسے تھے ???)  ہماری جانیں قربان ہوجائیں اپنے مولا حسین کے خشک  لبوں اور خشک گلے پر حرف آخر اے میرے عزیز بانو زینب سلام اللہ علیہا کے قدموں میں رہ جانے کی  آپ  کی  آرزو تو پوری نہ ہوی مگر  کریمہ اہلبیت  بانو  معصومہ سلام  اللہ علیہا نے اپنے قدموں میں جگہہ دے کر آپ  کو اپنے کرم کے سایے میں لے لیا ۔ 


 خدایا  جو لوگ خاک کو  کیمیا کرگیے ایک نیم  نگاہ ہم گنہگاروں پر  بھی ڈال دیں 
https://taghribnews.com/vdcco0qpx2bqeo8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ