تاریخ شائع کریں2022 17 May گھنٹہ 10:26
خبر کا کوڈ : 549887

حزب اللہ لبنان کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی نئی سازشیں

اسرائیلی میڈیا نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ اگر لبنان میں سکیورٹی استحکام پیدا ہو جاتا ہے تو حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے تناظر میں اسرائیل کو کیا خطرات درپیش ہوں گے؟
حزب اللہ لبنان کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی نئی سازشیں
تحریر: علی احمدی
بشکریہ:اسلامی ٹائمز

 
گذشتہ طویل عرصے سے امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کے خلاف نت نئی سازشیں کرنے میں مصروف ہے۔ کبھی لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کی ٹارگٹ کلنگ کر کے اس کا الزام حزب اللہ پر عائد کر دیا جاتا ہے جبکہ کبھی بندرگاہ پر دھماکہ کروا کر اسے حزب اللہ کے سر تھونپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مہم میں لبنان کے اندر بعض سیاسی قوتیں اور میڈیا ذرائع بھی شامل ہیں جو حزب اللہ کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کو معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ لبنان کے اندر موجود یہ سیاسی قوتیں اور میڈیا ذرائع بیرونی عناصر کے پیش کردہ نعروں کو دہراتے ہیں اور ملک کے اندر ان کے حق میں رائے عامہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
مثال کے طور پر ایک نعرہ جو ان کی جانب سے بہت زیادہ لگایا جا رہا ہے وہ "لبنان پر حزب اللہ کا قبضہ" ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور لبنان کے اندر موجود ان کے پٹھو عناصر ملک بھر میں یہ تصور پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حزب اللہ لبنان پوری طرح ملک پر قابض ہونے کے درپے ہے۔ اس بارے میں غاصب صہیونی رژیم کی آرمی انٹیلی جنس سے وابستہ تھنک ٹینک کے سربراہ عمیت ساعر نے اس تاثر کا اظہار کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ انہوں نے یہ الزام اس وقت عائد کیا جب وہ صہیونی اخبار "اسرائیل ہیوم" کو انٹرویو دے رہے تھے۔ اسرائیلی میڈیا میں ان کا یہ انٹرویو اسی عنوان یعنی "کون لبنان پر قابض ہو چکا ہے" کے تحت شائع کیا گیا ہے۔
 
اسرائیلی میڈیا نے اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ اگر لبنان میں سکیورٹی استحکام پیدا ہو جاتا ہے تو حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے تناظر میں اسرائیل کو کیا خطرات درپیش ہوں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے اپنی تمام تر جاسوسی صلاحیتیں لبنان پر مرکوز کر رکھی ہیں لہذا وہ تفصیلات سے بھی مکمل آگاہ ہے اور اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ لبنان میں کوئی ایک سیاسی جماعت بھاری اکثریت سے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس کی بنیادی وجہ لبنان میں مختلف مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی آبادی کا تناسب نیز لبنان کی بعض سیاسی جماعتوں کے امریکہ اور مغرب سے گہرے تعلقات ہیں۔
 
لیکن ان سب کے باوجود غاصب صہیونی رژیم حزب اللہ لبنان پر اس قسم کے الزامات عائد کرنے میں مصروف ہے جس کا مقصد حزب اللہ لبنان کے خلاف نفسیاتی جنگ میں شدت لانا ہے۔ صہیونی رژیم کے سابق وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سمیت کئی اعلی سطحی حکومتی عہدیدار اکتوبر 2020ء میں کینسٹ کے اجلاس سے اپنی تقریروں میں اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ "جب تک حزب اللہ لبنان طاقتور ہے اور مختلف حکومتی اداروں میں اس کا اثرورسوخ پایا جاتا ہے، تب تک اس ملک میں امن و امان بحال ہونا محال ہے۔" دوسرے الفاظ میں بنجمن نیتن یاہو اور دیگر صہیونی حکام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ لبنان میں اسلامی مزاحمت، اسرائیل اور لبنان کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار ہونے کی راہ میں اصل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح ان کی نظر میں حزب اللہ لبنان، لبنانی حکومت اور عوام کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کی ڈکٹیشن کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔
 
لبنان میں حزب اللہ کا اثرورسوخ ایسی چیز ہے جس نے صہیونی رژیم کو شدید غضبناک کر رکھا ہے۔ صہیونی حکام جانتے ہیں کہ جب تک لبنان میں حزب اللہ جیسی طاقت موجود ہے وہ لبنان کے سمندروں میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کے عظیم ذخائر پر بھی قابض نہیں ہو سکتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حزب اللہ لبنان نہ ہوتی تو انہیں ان قدرتی ذخائر سے بہرہ مند ہونے کیلئے لبنانی حکومت سے مذاکرات کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان اپنی طاقت اور اقتدار کی بدولت دشمن کی سازشوں کے ناکام ہونے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اسرائیلی حکام کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر حزب اللہ لبنان نہ ہوتی تو لبنان کی دیگر سیاسی جماعتیں اور سیاست دان بہت آسانی سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر راضی ہو جاتے۔
 
اسرائیل کی وزارت جنگ میں سیاسی و سکیورٹی شعبے کے سربراہ ڈیرو شالوم نے 2020ء میں کہا تھا کہ ہمیں قوی امید تھی کہ لبنان کے ساتھ سمندری پانیوں سے متعلق مذاکرات، اس کے ساتھ امن معاہدہ انجام پانے کا باعث بنیں گے لیکن حزب اللہ نے ہماری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ لہذا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ کو کمزور کرنے کا عہد کر رکھا ہے اور اس مقصد کیلئے نت نئی سازشیں انجام دیتی رہتی ہے۔ لبنان میں پیدا ہونے والے اقتصادی بحران کا الزام بھی اسی مقصد کیلئے حزب اللہ پر عائد کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور اسرائیل گذشتہ طویل عرصے سے لبنان میں اسلامی مزاحمت کے خلاف مختلف چالیں چلنے میں مصروف ہیں لیکن حالیہ الیکشن نے ثابت کر دیا ہے کہ حزب اللہ لبنان بدستور لبنانی عوام میں اعلی سطح کی محبوبیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔
https://taghribnews.com/vdcaaonm049nya1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ