تاریخ شائع کریں2021 26 November گھنٹہ 22:51
خبر کا کوڈ : 528331

کیا نواز شریف کو بے گناہ ہے؟

وطن عزیز کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے غالب امکان یہ نظر آتا ہے کہ ثاقب نثار صاحب قانون کی عدالت سے بچ جائیں گے۔ کاش انہیں احساس ہو جائے کہ ان الزامات کے بعد وہ عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور عوامی عدالت بھی ان کا موقف سننا چاہتی ہے۔
کیا نواز شریف کو بے گناہ ہے؟
تحریر:شفقنا اردو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی۔ ہائی کورٹ میں عدلیہ کو اسکینڈلائز کرنے کے الزام میں مریم نواز اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کیخلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ثاقب نثار کے خلاف جو باتیں پریس کانفرنس میں ہوئیں وہ توہین عدالت ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار وکیل کے دلائل کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو خود متاثرہ ہے وہ بھی ہتک عزت کا دعویٰ کر سکتا ہے ، ریٹائرڈ آدمی کی توہین نہیں ہوتی، چاہے ریٹائر ہونے والا چیف جسٹس ہی کیوں نا ہو۔

یاد رہے کہ آڈیو ٹیپ آنے کے دو روز بعد مریم نواز نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ بازی پلٹنا شاید اسی کو کہتے ہیں، اور یہ بازی تو تھی ہی پلٹنے کے انتظار میں۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنے عدالتی عہدے اور قیمتی وقت کو ایک ڈیم بنانے کی خواہش کی نذر کر دیا، اس کے خلاف الزامات کا ایک ڈیم ابل کر باہر آ رہا ہے۔ وہ خواہش تو اب دم توڑ چکی لیکن سالوں پرانے الزامات جان نہیں چھوڑ رہے۔ استعارے میں بات کی جائے تو دوڑیں اب ثاقب نثار کی لگی ہوئی ہیں۔بدھ کی دوپہر مریم کے الفاظ آتشیں تھے لیکن وہ آگ بگولہ نظر نہیں آ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی آواز اونچی نہیں کی، لیکن انہوں نے ملک میں سیاسی اور عدالتی درجۂ حرارت کافی بلند کر دیا۔
سیاسی جماعتوں کے باہمی لڑائی جھگڑے ایک طرف، تمام جوانب سے اب یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ گذشتہ پانچ سال کے واقعات شفافیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ اس دوران تمام محاذوں پر ایسا بہت کچھ ہوا ہے جو تفتیش کے دباؤ کو سہار نہیں پائے گا۔ تاریخ ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گی جنہوں نے یہ فیصلے کیے۔ لیکن جہاں ہمیں تاریخ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا، دیگر مزید اہم واقعات نے اداروں، افراد اور ان کی ساکھ کو کچوکے لگانا شروع کر دیے ہیں۔ اور جیسا کہ ان معاملات میں ہوتا ہے، اصل چیز ٹائمنگ ہے۔جج اب ایک ایسی عدالت میں کھڑا ہے جہاں ثبوت وہی ہوتا ہے جسے ثبوت مان لیا جائے۔ جب عوامی رائے خود ہی جج، عدالت اور جلاد بننے کا فیصلہ کر لے تو یہ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔

یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ماضی میں ثاقب نثار پر بھی سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام لگتا رہا ہے۔ تین سال قبل ویمن ایکشن فورم نامی ایک تنظیم نے اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس شکایت میں 25 ایسے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جب ثاقب نثار نے اصولوں سے انحراف کیا۔ لیکن یہ شکایت ان کی ریٹائرمنٹ کے چند ہی ہفتوں بعد رد کر دی گئی۔ اب، اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد، ثاقب نثار خود پر ایک مختلف لیکن بہت واضح الزام کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ الزام صرف ایک شخص سے متعلق نہیں بلکہ ایک ادارے سے متعلق ہے۔ آئین و قانون سے مکمل نا بلد شخص بھی جان سکتا ہے کہ ثاقب نثار کے دور میں سنے گئے سیاسی مقدمات پر بہت سے شکوک و شبہات ہیں۔ اس تمام عمل کو متنازعہ بنانے کی پہلی بنیاد تو یہ ہے کہ نواز شریف کو سنائی گئی سزا کی وجہ، مقدمے کی بنیاد سے یکسر مختلف تھی۔ اور شاید عدالتی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ بھی تھا، جس میں سزا سنانے کے بعد جرم کے ثبوت ڈھونڈنے کا آغاز ہوا۔

وطن عزیز کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے غالب امکان یہ نظر آتا ہے کہ ثاقب نثار صاحب قانون کی عدالت سے بچ جائیں گے۔ کاش انہیں احساس ہو جائے کہ ان الزامات کے بعد وہ عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور عوامی عدالت بھی ان کا موقف سننا چاہتی ہے۔ عوامی عدالت میں ان کی خاموشی کو اقرار سمجھا جائے گا اس لیے انہیں اس عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوگی ۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو یہ ماننے بھی پھر کسی کو عار نہیں ہونی چاہیے کہ نواز شریف بےگناہ تھے۔
https://taghribnews.com/vdcbfwbs8rhb5fp.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ