تاریخ شائع کریں2021 31 July گھنٹہ 17:38
خبر کا کوڈ : 513541

کیا پاکستان وَن پارٹی رُول کی طرف بڑھ رہا ہے؟

سیاست نہ تو مستقل جارحیت نہ عاجزانہ مفاہمت کا نام ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک قابلِ قبول، متوسط، متوازی، مڈل گراؤنڈ کا اشتراک برقرار رہے اور بقائے باہمی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کی جائے تو حالات بہتری کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔
کیا پاکستان وَن پارٹی رُول کی طرف بڑھ رہا ہے؟
تحریر:غریدہ فاروقی 
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو


کشمیر انتخابات میں معلوم اور واضح جیت جب کہ سیالکوٹ ضمنی الیکشن میں نامعلوم اچانک اور اچھنبے دار جیت کے بعد ایک طرف جہاں تحریکِ انصاف کے ارادے اور عزائم مضبوط ہو کر مزید بلند ہو گئے ہیں اور اب دو تہائی پاکستان پر کہیں مطلق العنان اور کہیں باشرکتِ غیرے اقتدار کا حصول ہونے کے بعد عمران خان کی اگلی نظریں سندھ کی صوبائی حکومت پر جمی ہیں۔ باخبر حلقے اب یہ سوال بھی اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں کہ کیا واقعی موجودہ منظرنامے میں عمران خان ہی واحد چوائس رہ گئے ہیں؟

کیا مرکز، تین صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر میں حکومت حاصل کر لینے کے بعد یہ دعوی بجا ہے کہ تحریکِ انصاف ہی اب واحد قومی سیاسی جماعت ہے؟ کیا نواز زرداری سیاست انتخابی عمل داری میں واقعی قرب از اختتام ہے یا محض محدود پیمانے پر ہی نافذالعمل دکھائی دی جائے گی؟

کیا پاکستان وَن پارٹی رُول کی طرف بڑھ رہا ہے؟ کیا پاکستان میں غیرمحسوس طریقے سے پلس وَن مائنس آل کا فارمولا آہستہ آہستہ لاگو ہو رہا ہے؟ کیا مسلم لیگ ن محض سینٹرل پنجاب ہی کی کارنر پارٹی بن کر رہ جائے گی؟ کیا پیپلزپارٹی محض دیہی سندھ کی جماعت کے طور پر دریائے سندھ کے اطراف اپنی سیاسی آبیاری پر قانع رہے گی؟

اگرچہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر الیکشن میں سیٹوں کے حصول کے تناسب سے پیپلز پارٹی دوسری بڑی سیاسی قوت ابھر کر سامنے آئی ہے جس کی نہ صرف توقع ہم پہلے سے ہی کر رہے تھے بلکہ کشمیر ریاستی الیکشن میں ٹرینڈ بھی پیپلزپارٹی کے حق میں قدرے مثبت دکھائی دے رہا تھا جس کی بنیادی وجہ پارٹی کا علاقے میں اچھے امیدواروں کا چُناؤ اور سب سے بڑھ کر بلاول بھٹو کی اچھی الیکشن کیپمین تھی۔

لیکن کیا 2023 میں اگلے عام انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی خود کو تگڑے امیدوار کے طور پر پیش کر سکتی ہے؟ فی الوقت تو ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی انتخابی صورت حال کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں۔

حال ہی میں آصف زرداری نے بھی پنجاب میں پارٹی کی تنطیمِ نو کی خاطر دورہ کیا تھا مگر ماسوائے ایک دو کے کوئی بھی اچھا انتخابی امیدوار حاصل کرنے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ ایسی صورت حال میں تو مشکل کیا ناممکن ہی دکھائی دیتا ہے کہ دو سال بعد ہی پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں آ سکے کہ پورے ملک سے تنِ تنہا حکومت بنانے کے لیے سیٹیں حاصل کر سکے۔

جنوبی پنجاب میں البتہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن اچھی ہے اور جماعت اگر تھوڑا زیادہ زور لگائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وسیب پیپلز پارٹی کو زیادہ نمائندگی دینے میں کنجوسی کرے۔

مسلم لیگ ن کا معاملہ ذرا وکھرا ہے۔ حالیہ دنوں میں جس طرح ن لیگ کے اندر سیاسی اور انتخابی حکمتِ عملی کے حوالے سے اختلافی نوٹ دیکھنے میں آئے ہیں اس کنفیوژن کا ن لیگ کے ووٹر پر کافی اثر پڑا ہے۔

سیالکوٹ کی حالیہ ضمنی الیکشن شکست میں لیگ کو نقصان تحریکِ انصاف کے کشمیر الیکشن جیتنے سے بھی ہوا ہے کیونکہ یہ علاقہ کشمیری ووٹر کی آبادی سے بھرا ہوا ہے۔ سیالکوٹ سے کشمیر کی دو سیٹوں پر تحریکِ انصاف کی جیت کی ہوا نے پنجاب اسمبلی ضمنی الیکشن کے لیے حلقے کے کشمیری ووٹر کو بھی متاثر کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

لیکن بہرحال ن لیگ کا سینٹرل پنجاب سے سیٹ ہارنا ایک بڑا اپ سیٹ تو ہے، یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی امیدوار اور حکومتی حامیوں نے اس سیٹ کو جیتنے کے لیے پیسے کا بھی بےدریغ استعمال کیا۔ فی الحال تو مسلم لیگ ن کشمیر اور سیالکوٹ ضمنی الیکشن کے لیے دھاندلی کا موقف اختیار کر کے پی ٹی آئی جیت کو کِرکِرا کرنا چاہتی ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ دھاندلی کا سیاسی بیانیہ ثبوت کے بِنا محض  ٹُنڈمُنڈ اور کھوکھلا ہی ہے۔

جس طرح تحریکِ انصاف حکومت گذشتہ تین سالوں میں اپوزیشن کے خلاف کرپشن کے بیانیے کے خلاف کوئی ثبوت نہیں دے سکی اور محض سیاسی بیان بازی نے حکومت کے اس بیانیے کو خود ہی نقصان پہنچایا ہے، ٹھیک اسی طرح جب تک اپوزیشن بھی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف دھاندلی کی پیداوار ہونے کا سیاسی بیانیہ متعلقہ فورمز پر ثابت نہ کر دے تب تک یہ بیانیہ آہستہ آہستہ عملی طور پر کمزور ہی پڑتا جائے گا۔

کشمیر اور سیالکوٹ میں مسلم لیگ ن کے پاس اگر منظم دھاندلی کے واقعی ثبوت ہیں تو الیکشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ فورمز پر فوراً جمع کروانے چاہیں اور عوام کے سامنے بھی لائے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ تاحال تو اپوزیشن کے طرف سے محض سیاسی بیان بازی پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔

2018 الیکشن کے بعد بھی تین سال تک اپوزیشن کی طرف سے لیگل فورمز پر دھاندلی کا مقدمہ نہیں لڑا گیا بلکہ اسے محض سیاسی فورمز تک ہی محدود رکھا گیا جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ خود اپوزیشن کے ہاتھوں عمران خان کی حکومت نہ صرف مضبوط ہوتی جا رہی ہے بلکہ اس کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ آ رہا ہے۔

اپوزیشن کی داخلی تقسیم، واضح ایجنڈے اور متحد حکمتِ عملی کے فقدان کی وجہ سے پہلے ہی پی ڈی ایم جیسی قوت پِٹ گئی اور اپوزیشن مشترکہ محاذ کی ناکامی نے عمران خان کا حوصلہ بڑھایا۔ عوامی مسائل خاص طور پر مہنگائی، بےروزگاری، غربت جیسے سنگین ایشوز پر جارحانہ اپوزیشن کے خلا نے تحریکِ انصاف کو مزید ہلّہ شیری مہیا کی ہے۔

حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ اسمبلیوں میں چند روز کےشور شرابے، چند غصّیلے سیاسی بیانات، چند جوشیلے ٹویٹس کے بعد اپوزیشن جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اسی لیے اسے احتساب کا کچھ زیادہ خوف نہیں۔ عوام بھی چند روز کے رونے دھونے اور حکومت کو کوسنے کے بعد اسی تنخواہ پر روزی روٹی کمانے اور مہنگائی جھیلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

عمران خان کو بہرحال اس بات کی تو داد دینی چاہیے کہ جب انہوں نے اپوزیشن کی تنِ تنہا دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو چنے چبوا دیے خاص کر ن لیگ کے دورِ حکومت میں تو انہوں نے اپنی جارحانہ اپوزیشن سےحکومت کی ناک میں دَم کر رکھا تھا۔

2013 الیکشن کے بعد پہلے ہی دن سے جس طرح عمران خان نے دھاندلی کا مقدمہ اٹھایا (درست ثابت ہوا یا غلط یہ الگ بحث ہے) مگر سیاسی طور پر اپنے بیانیے سے ن لیگ کے لیے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ 2013 کی اپوزیشن کا آج کی ہومیوپیتھک کاسمیٹک اپوزیشن کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو دور دور تک کوئی موازنہ نہیں۔

عمران خان نے بطور اپوزیشن فردِ واحد کے طور پر نہ صرف دھاندلی بلکہ مہنگائی، معاشی بدحالی اور بیڈگورننس کے سیاسی بیانیے کو بڑی کامیابی سے آگے بڑھایا۔ ان کے مقابلے میں آج کی فرینڈلی اپوزیشن تین سال میں بھی اور متحد ہو کر بھی عوامی مسائل پر جارحانہ اپوزیشن نہیں کر پائی۔

عمران خان آج حکومت میں ہیں تو بھی فردِ واحد کی حکومت، وَن پارٹی سسٹم، وَن پارٹی رُول کی بازگشت سنائی دیتی ہے جس کا بڑا کریڈٹ ماشا اللہ خود اپوزیشن کو جاتا ہے۔

بلاول بھٹو نے تو کل پرسوں ’الیکشن کبھی بھی ہو سکتے ہیں‘ کا نیا سیاسی ڈول ڈال کر غیرمحسوس ہلچل اور کنفیوژن تو مچا ہی دی ہے مگر ہم جیسے صحافت کے طالب علموں اور سیاست کے ادنٰی جہاں بینوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ فی الحال کسی بھی جانب نہ تو اس آپشن کی خواہش نہ ہی گنجائش نظر آتی ہے۔

مُدّعا فی الحال متفقہ علیہہ یہی ہے کہ عمران خان کو ایسا وزیر اعظم بنایا جائے جو پہلی بار ہی اپنی مدت پوری کرے اور کرم فرما اپوزیشن کے تعاون سے ایسا ممکن ہونے میں کوئی رکاوٹ حائل نظر نہیں آتی۔ آئندہ عام انتخابات جلد ہوں یا مقررہ وقت پر، ایک بات تو طے ہے۔ مسلم لیگ ن اگر آئندہ حکومت کی خواہش مند ہے تو حکمتِ عملی کی باگ دوڑ شہباز شریف کے ہاتھ دینے میں بہتری ہی نظر آتی ہے۔

سیاست نہ تو مستقل جارحیت نہ عاجزانہ مفاہمت کا نام ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک قابلِ قبول، متوسط، متوازی، مڈل گراؤنڈ کا اشتراک برقرار رہے اور بقائے باہمی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بندی کی جائے تو حالات بہتری کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ جب تک نوازشریف پاکستان سے باہر رہیں گے، مسلم لیگ ن کا حکومت کا خواب بھی خواب ہی رہے گا۔

عام انتخابات میں اب کچھ زیادہ عرصہ سیاسی اور انتخابی اعتبار سے برقرار تو رہا نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنی اپنی چالوں کو نئی سیاسی بساط کے مطابق بدلنا اور ڈھالنا ہو گا وگرنہ عمران خان کی خود کو واحد قومی لیڈر بنانے کی برق رفتاری اسی جارحانہ پیس (pace) کے ساتھ قائم رہے گی اور ن لیگ و پیپلز پارٹی کو کپتان کی دوسری اننگز بھی برداشت کرنا پڑے گی۔

نوٹ: یہ مضمون مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
https://taghribnews.com/vdci5pawzt1azw2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ