تاریخ شائع کریں2021 14 June گھنٹہ 22:47
خبر کا کوڈ : 507846

جو بائیڈن اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی ملاقات دوستانہ ماحول میں نہیں ہوگی

ماسکو میں واقع آر آئی اے سی تھنک ٹینک سے منسلک آندرئی کورٹونوو کہتے ہیں کہ یہ ملاقات علامتی طور پر بڑی اہم ہے۔ اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ روس اور امریکہ ہم پلہ ہیں اور صدر پوتن کے لیے علامتی چیزیں بڑی اہم ہیں۔
جو بائیڈن اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی ملاقات دوستانہ ماحول میں نہیں ہوگی
تحریر:سارہ رینسفورڈ
بشکریہ:بی بی سی نیوز، ماسکو


جون کی 16 تاریخ کو جینیوا میں امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کی ہونے والی ملاقات دوستانہ ماحول میں نہیں ہو گی۔ اس کی ایک وجہ تو روسی حکومت کا وہ حالیہ فیصلہ ہے جس کے مطابق انھوں نے امریکہ کو اپنی 'غیر دوستانہ ممالک' کی سرکاری فہرست میں شامل کر لیا ہے۔

دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کے بارے میں اعتراف کیا ہے کہ وہ انتہائی کشیدہ ہیں اور اس وقت نہ امریکہ میں کوئی روسی سفیر ہے اور نہ روس میں کوئی امریکی سفیر۔

امریکہ نے روسی حکام پر مختلف وجوہات کی بنا پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ ان وجوہات میں روس کی جانب سے یوکرین کے کریمئین خطے پر غیر قانونی قبضہ، امریکی انتخابات میں مبینہ طور پر مداخلت شامل ہیں جبکہ دوسری جانب روس نے یو ایس میرینز کے دو اہلکاروں کو جاسوسی کے الزام میں 16 سال کی قید کی سزا دی ہوئی ہے۔

اور پھر ایک اور اہم لمحہ وہ تھا جب مارچ میں ایک انٹرویو کے دوران جو بائیڈن نے اپنے میزبان کے اس نکتے سے اتفاق کیا کہ روسی صدر پوتن ’ایک قاتل‘ ہیں۔

لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اب یہ دونوں صدور ملاقات کرنے والے ہیں اور روس میں اس کو ایک پیشرفت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

یہ ایک سٹیٹس کی بات ہے

ماسکو میں واقع آر آئی اے سی تھنک ٹینک سے منسلک آندرئی کورٹونوو کہتے ہیں کہ یہ ملاقات علامتی طور پر بڑی اہم ہے۔ اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ روس اور امریکہ ہم پلہ ہیں اور صدر پوتن کے لیے علامتی چیزیں بڑی اہم ہیں۔

یہ ملاقات امریکی صدر بائیڈن کے دور صدارت شروع ہونے اور ان کے پہلے غیر ملکی دورے کے دوران ہو رہی ہے اور اس کی انھوں نے خود خواہش کی تھی۔ یہ تمام باتیں روس کے حق میں ہیں۔ اور پھر یہ ملاقات ان دونوں رہنماؤں کے مابین باضابطہ طور پر منعقد کی گئی ہے، نا کہ کسی دوسری تقریب کے دوران اسے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو۔

امریکی صدر کے اس غیر ملکی دورے میں کافی ساری مصروفیت ہیں اور اس دوران کو نیٹو کے ہیڈ کوارٹر بھی جائیں گے لیکن اس کے باوجود سب کی نگاہیں ان کی بدھ کے روز صدر پوتن کے ساتھ ہونے والی ملاقات پر مرکوز ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار لیلیا شیوٹسوا بھی کہتی کہیں کہ صدر پوتن خود کو صدر بائیڈن کے ساتھ برابری کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ انھیں اسی طرح سے عزت و احترام سے دیکھا جائے۔

اس ملاقات کے لیے جینیوا کا انتخاب سرد جنگ کے دوران 1985 میں ہونے والی ایک ملاقات کی یاد تازہ کرتا ہے جب اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن اور روسی صدر میخائل گورباچوف کے درمیان وہاں ملاقات ہوئی تھی۔

لیکن اس بات کی زیادہ توقع نہیں ہے کہ موجود صدور کی ملاقات میں کسی قسم کی اہم پیش رفت ہو۔

موجودہ وائٹ ہاؤس کا اس ملاقات پر کہنا ہے کہ ان کا مقصد ہے کہ روس کے ساتھ 'مستحکم' تعلقات ہوں، لیکن روسی صدر پوتن کا شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو ہر دم چونکا دیں۔

اس کی بڑی مثال 2014 میں روس کی جانب سے یوکرین کے کریمیا خطے کو قبضے میں لینے کے لیے فوج بھیجنے کا فیصلہ تھا جس کے بعد سے امریکہ اور روس کے تعلقات میں دراڑیں گہری ہو گئیں۔

لیلیا شیوٹسوا کہتی ہیں کہ ان دونوں کی ملاقات میں یہ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ اور روس کے درمیان 'ریڈ لائن' کیا ہے اور دوسرا یہ کہ اس بات پر اتفاق ہو کہ مذاکرات کے ذریعے ہی تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

'اگر ان دونوں نے مذاکرات نہ کیے تو روس مزید غیر متوقع اقدامات لیتا رہے گا۔‘

کیا اس ملاقات سے کچھ حاصل ہو گا؟

رواں ہفتے روسی صدر پوتن نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ 'ایسے چند معاملات ہیں جہاں ہم ساتھ کام کر سکتے ہیں' اور اس کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کرنے، علاقائی تنازعات جیسے شام اور لیبیا اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے موضوعات پر ان دونوں کے درمیان بات چیت ہو سکتی ہے۔

'اگر ہم ان معاملات پر پیشرفت کے لیے کچھ فیصلوں پر اتفاق کر لیں تو ہم یہ کہہ سکیں گے کہ یہ ملاقات بے مقصد نہیں تھی۔'

دوسری جانب روس میں چند ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری 'سفارتی جنگ' میں تعطل بھی ممکن ہے۔

امریکہ نے حال میں درجنوں روسی سفارتی عملے کو ملک بدر کر دیا ہے اور ان کے دو سفارت خانے بند کر دیے ہیں جبکہ روس میں امریکہ پر مقامی عملے کو نوکری دینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

البتہ اس ملاقات کے بعد یہ ممکن ہے کہ روس امریکہ میں اپنی سفیر دوبارہ بھیج دے۔

امریکہ روس سے اپنے قیدیوں کے بارے میں بھی بات چیت کرے گا جس میں سے ایک پال ویہلین ہیں جنھیں روس نے 2018 میں جاسوسی کے الزام میں حراست میں لیا تھا لیکن انھوں نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔

مغربی جارحیت

روسی صدر نے حالیہ عرصے میں بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ مغربی ممالک روس کے دشمن ہیں۔ اسی ماہ روس میں ہونے والے ایک معاشی فورم کے دوران خطاب کرتے ہوئے انھوں نے دعوی کیا کہ امریکہ روسی ترقی کو 'روکنا' چاہتا ہے۔

اس سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی نے روس کے خلاف جارحیت دکھائی تو وہ روس 'اس کے دانت توڑ دے گا' اور مزید کہا کہ دنیا کو روسی قوت کا ادراک ہونا چاہیے۔

ماسکو میں تجزیہ نگار آندرئی کورٹونوو کہتے ہیں کہ پوتن اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ روس کا ایک ایسا مخالف ہے جو روس کی بالکل بھلائی نہیں چاہتا اور ایسا نہیں لگتا کہ پوتن اپنے اس نکتہ نظر کو تبدیل کریں۔

لیکن ان کا پھر بھی یہ کہنا تھا کہ یہ ضرور ممکن ہے کہ روس امریکہ کے ساتھ کشیدگی کو کچھ حد تک کم کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔

تعلقات میں بہتری

آندرئی کورٹونوو کا سمجھنا ہے کہ روسی صدر پوتن ایک منطقی سیاستدان ہیں اور وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے ساتھ پیدا ہونے والے نقصانات کو سمجھتے ہیں اور کم کرنا چاہیں گے۔

اس میں ایک تو معاشی پابندیاں ہیں جس کے تحت روسی حکومت کی فنڈز حاصل کرنے کی صلاحیت پر اثر ہوا ہے اور انتخابات والے سال میں معیشت پر ایسا دباؤ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

آندرئی کورٹونوو کہتے ہیں کہ روسی عوام کو خارجہ پالیسی کے میدان میں کسی کامیابی کی زیادہ پروا نہیں ہے اور ان کے لیے اپنے ملک میں سماجی اور معاشی مسائل کا حل زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

امریکہ سے ’لیکچر‘ ملنے کا خدشہ

لیکن اس ملاقات میں ایک چیز جو صدر پوتن بالکل نہیں چاہیں گے وہ ہے صدر جو بائیڈن سے لیکچر ملنا، لیکن انھیں توقع ہے کہ انسانی حقوق کے معاملات، بالخصوص روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی نوالنی کے کیس میں صدر بائیڈن انھیں کچھ ضرور کہیں گے۔

یاد رہے کہ الیکسی نوالنی کو پہلے زہر دیا گیا اور اب وہ جیل میں ہیں۔ ان کے دفاتر اور ان کی انسداد کرپشن کے ادارے کو روسی عدالت نے 'شدت پسند' قرار دے کر پابندی عائد کر دی ہے۔

روسی عدالت اس فیصلے کو دونوں صدور کے ملاقات کے بعد بھی جاری کر سکتی تھی لیکن اس فیصلہ کا ملاقات سے پہلے آنا اس بات کا عندیہ ہے کہ روسی صدر اپنے ناقدین کی آواز بند کرتے رہیں گے اور امریکہ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

لیلیا شیوٹسوا کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن وہی کریں گے جو ان کا ارادہ ہے۔

'وہ الیکسی نوالنی اور انسانی حقوق کی بات کریں گے، اور جواب میں پوتن بھی وہیں کریں گے جو وہ کہتے رہے ہیں، کہ امریکہ بھی ویسا ہی کرتا ہے۔'

'لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود یہ ملاقات ہو رہی ہے اور انسانی حقوق کے معاملات پر بات چیت کے بات یہ متوقع ہے کہ دونوں رہنما اصل موضوع کی جانب بڑھ جائیں گے، جو کہ یہ ہے کہ آپس کی کشیدگی کو کم کیا جائے۔'
https://taghribnews.com/vdcjxaeimuqeyoz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ