تاریخ شائع کریں2021 11 June گھنٹہ 16:50
خبر کا کوڈ : 507402

امریکہ جنگ زدہ افغانستان کو چھوڑنے اور طالبان قبصہ کو تیار

اس امن معاہدے میں طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ افغانستان کے اندر اور باہر دہشت گردی کو ختم کر دیں گے ، سول اور انسانی حقوق کی تعظیم کریں گے بشمول عورتوں کے حقوق اور ایک جمہوری نظام کی بنیاد رکھیں گے ۔
امریکہ جنگ زدہ افغانستان کو چھوڑنے اور طالبان قبصہ کو تیار
بشکریہ:شفقنا اردو

افغانستان میں داخلے کے بیس برس بعد، امریکہ جنگ زدہ افغانستان کو چھوڑنے پر تیار ہے۔ ان دو دہائیوں میں امریکہ افغانستان مین قریبا 2 ٹریلین روپے تین مقاصد کے لیے خرچ کیے، ان مقاصد میں فوج کے موجودگی، افغان فوج اور پولیس کی تربیت اور جمہوری اداروں کا قیام شامل تھے۔ اس عمل میں 2000 کے قریب امریکی فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد 775000تھی۔ ان میں سے تیس ہزار نے پانچ سال سے زائد افغانستان میں خدمات سر انجام دیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر فوجی دستوں کی تعیناتی سے نہ صرف ان کی اپنی ذات بلکہ پیچھے ان کے خاندانوں کو بھی شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسری جانب اس جنگ میں کئی ہزار افغان فوجی بھی اپی جانتیں گنوا بیٹھے جبکہ سویلینز کی بھی ایک بہت بڑی تعداد اس جنگ کا ایندھن بن گئی اور جو لوگ زخمی یا معذور ہوئے ان کا کوئی شمار ہی نہیں۔  اس سے قبل ہم اس بات پر بحث کریں کہ گیارہ ستمبر میں امریکہ کی اس خطے سے رخصتی کے بعد کیا ہوگا ہمیں ایک دفعہ ماضی میں ضرور جانا چاہیے۔ دسمبر 1979 میں کرسمس کے موقع پر سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور دعوٰی کیا کہ اس نے افغانستان کو فتح کر لیا ہے۔ اس جنگ میں امریکہ نے براہ راست روس سے پنگا نہیں لیا کیونکہ دنوں ایٹمی قوتیں تھیں۔

امریکہ نے اس جنگ میں پاکستان اور سعودی عرب کو بطور پراکسی استعمال کیا ۔ پاکستان نے اس جنگ میں مجاہدین بھرتی کیے اور ان کی جنگی طرز کی گوریلا تربیت کر کے انہیں میدان جنگ میں دھکیل دیا۔ اس عمل میں سعودی عرب نے مکمل مالی معاونت کی ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا روسی دستوں کی حالت خراب ہوتی گئی اور ایک دہائی بعد روس نے واپسی کی راہ لے لی۔ 1989 میں روس کی واپسی کے بعد کیا ہوا؟ کیا افغانستان میں امن ہوگیا؟ نہں بلکہ ملک میں مجاہدین کے مابین ایک سول جنگ پھوٹ پڑی  اور روسی شکست کی خوشی تادیر نہ منائی جاسکی۔ 1996 میں ایک جنگجو گروپ طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پاکستان ان کی حمایت کر رہا تھا۔ پاکستان درحقیقت بھارت کے حملے کی صورت میں تذویراتی گہرائی کی تلاش میں تھا جو اسے افغانستان کی صورت میں نظر آئی۔ اس سارے عمل میں اہم بات یہ تھی کہ طالبان افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بزور قوت شریعہ قوانین کے نفاذ میں بھی کامیاب رہے۔

گیار ستمبر 2001 کے حملوں کے جواب میں اکتوبر 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا کیونکہ طالبان نے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ تاہم اس دوران طالبان نے امریکہ سے بات چیت کا عمل جاری رکا ۔ یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں تھی کہ صرف دو ماہ میں طالبان کو اس جنگ میں شکست ہوگئی ۔ تاہم طالبان مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے اور وہ الگ الگ ہوکر پہاڑوں اور مختلف علاقوں میں بکھر گئے۔ 15 سال بعد طالبان دوبارہ منظر عام پر آگئے۔ ایک امریکی جنرل نے ایک میگزین کو انٹرویو میں بتایا کہ جب بھی ہم نے ایک بے گناہ افغانی کو قتل کیا اس کے جواب میں ہمارے دس دشمن پیدا ہوئے۔ انہوں کہا کہ امریکہ لوگوں کو قتل کر کے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نہیں جت سکتا کیونکہ روس دس لاکھ افراد کو ہلاک کر کے بھی یہ جنگ ہار گیا تھا۔

اپنی کتاب ” ٹائم ٹو اینڈ افغان وار” میں سکاٹ ہارٹن نے لکھا ہے کہ امریکہ افغانستان کی تاریخ، اس کی ثقافت اور اس کے خط وخال کو سمجھنے میں مکمل ناکام رہا ہے ۔ امریکہ صرف افغان سیاسی رہنماؤں کو ہی سمجھ سکا ہے جو مغربی طرز کی جمہوریت کی حمایت کا بہانہ کر کے رقم بٹورتے ہیں۔ ہورٹن کے مطابق جیسے ہی امریکہ افغانستان سے نکلے امریکہ کی بنائی ہوئی یہ جمہوری حکومت ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔ انہوں نے مزید  کہا کہ امریکہ کی جنگ درحقیقیت ایک پھندہ تھی ، امریکہ نے نہ صرف اس جنگ میں اپنے دشمنوں کوشکست دی بلکہ خود کو بھی تباہ کر لیا اوریہی کچھ اسامہ بن لادن اور القاعدہ چاہتی تھی۔ یہ تلخ حقیقت اس وقت سامنے آگئی جب امریکہ اس بدترین جنگ میں پھنس گیا۔ اور اس جنگ سے نکلنے کے لیے بالاخر اسے طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا پڑا۔

اس امن معاہدے میں طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ افغانستان کے اندر اور باہر دہشت گردی کو ختم کر دیں گے ، سول اور انسانی حقوق کی تعظیم کریں گے بشمول عورتوں کے حقوق اور ایک جمہوری نظام کی بنیاد رکھیں گے ۔ دوسرے الفاظ میں انہوں اپنے ہی بنیادی اصولں کو اپنانے سے انکار کردیا۔ ایک بے وقوف مشاہد کار ہی اس طرح کے مثالی نتائج کو تسلیم کر سکتا ہے۔ مغربی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک طالبان کمانڈر نے کہا کہ امن تبھی قائم ہوسکتا ہے جب شریعہ قوانین نافذ ہوجائیں۔ ایک ایسا فریق جو جنگ جیت چکا ہو وہ اپن بنیادوں پر سمجھوتہ کیوں کرے گا؟
اسی خوف کی بناء پر بعض فریقین چاہتے ہیں کہ امریکہ ابھی افغانستان میں مزید کچھ عرصے کے لیے رہے۔ اگر افغانی امریکہ کے زیر سایہ گزشتہ بیس برسوں میں جمہوری ادارے نہیں بنا سکے تو چند مزید سالوں میں یہ کام کیسے کریں گے؟ افغانی کب تک امریکہ کے سر پر جیتے رہیں گے اور بالاخر ایک دن انہیں اپنے ہی قدموں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس بات کے بہت سارے اور ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ طالبان ایک ضلع کے بعد دوسرے پر قبضہ کرتے جار ہے ہیں حتی کہ سی آئی کا یہ تک کہنا ہے کہ بہت جلد کابل بھی طالبان کے قبضے میں ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان کے پڑوسی اس قبضے پر کیا رد عمل دیں گے؟ پاکستان ، جس کا طالبان کی پیدائش میں اہم ہاتھ ہے ، وہ بھی پاکستان میں طالبان کے احیاء کو ہرگز نہیں چاہتا۔ پاکستان نے تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے۔ چین جو کہ اس کو سنہری موقع کے طور پر دیکھ رہا وہ کابل تک بیلٹ اور روڈ منصوبے کو پھیلا دے گا۔ بھارت بھی طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کی کوشش کرے گا۔ اور یہی صورتحال روس کی ہوگی۔ جبکہ امریکہ انسانی امداد کی مدد کے وعدے کرے گا۔ بیرونی دنیا میں ہونے والی ہی تبدیلیاں طالبان کو یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ دنیا بہت بدل چکی ہے اور افغانستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتی ہے۔ اگر افغانستان یہ ہاتھ نہیں تھامتا تو افغانستان، ثقافتی، سماجی اور معاشی ترقی میں کہیں پیچھے رہ جائے گا۔
 
https://taghribnews.com/vdchvqnmi23nvkd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ