تاریخ شائع کریں2021 6 June گھنٹہ 23:01
خبر کا کوڈ : 506871

ایران و ایٹمی معاہدہ

صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ اس بات چیت میں اہم مسائل حل ہوگئے ہیں تاہم چند معمولی رکاوٹیں موجود ہیں جس پر ہم بات چیت کر کے حتمی نتائج دیں گے۔ اگر ارادہ ہو جیساکہ موجودہ انتظامیہ نے ظاہر کیا ہے تو پھر یہ کام اپنے اختتام تک ضرور پہنچے گا۔
ایران و ایٹمی معاہدہ
بشکریہ:شفقنا اردو

ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی از سر نو تجدید کے لیے ویانا میں ہونے والے بات چیت جو کہ ایرانی انتخابات سے قبل یعنی اگست میں متوقع ہے کے لیے ان کو اپنے اختیارات سے بڑھ کر قوت کی ضرورت ہے۔ صدر حسن روحانی  2015 میں ہونے والی ایران کی ایٹمی ڈیل کے خالق ہیں اور اس ڈیل کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں ختم کر دیا ہے۔  یہ ایٹمی معاہدہ ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں، امریکہ ، برطانیہ، فرانس، جرمنی ، چین اور روس کے مابین طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر پابندیوں کو نرم کر دیا گیا تھا جبہک بدلے میں ایران ایک مخصوص حد سے آگے اپنی ایٹمی صلاحیتوں کے آگے نہیں بڑھائے گا۔

ایران پوری ایمانداری سے معاہدے کو آگے بڑھا رہا تھا اور ماسوائے اسرائیل پوری دنیا اس پر مطمئن تھی۔ اس کے علاوہ دیگر طاقتیں یعنی برطانیہ، فرانس، جرمنی ، روس اور چین بھی مطمئن اور خوش تھے۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی بھی اس پر خوش تھی اور کئی مرتبہ معائنے کے باوجود ایران کی جانب سے انہیں کسی قسم کی قانون شکنی سامنے نہیں آئے۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو نے محض ایک پاور پوائنٹ پریزینٹیشن کے ذریعےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قائل کر لیا کہ وہ اس معاہدے سے ہاتھ کھینچ لیں۔ جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طور پر معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا جس پر معاہدے کے دیگر فریق خوش نہیں تھے۔ ایران نے اس پر شدید احتجاج کیا تاہم امریکہ نے اس کو مسترد کر دیا۔ اس معاہدے کے خاتمے سے ایران اور امریکہ کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوگیا جس سے پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوگیا اور نتیجتا تیل کی قیمتوں میں بے بہا اضافہ ہوگیا۔

یورپ، جاپان اور چین جو کہ مشرق وسطٰی سے تیل درآمدکرتے تھے وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تاہم کوئی بھی ملک امریکہ سے پنگا لینے پہ تیار نہیں تھا۔ ویانا میں ہونے والی حالیہ بات چیت درست سمت میں ایک مثبت قدم ہے اور اہم بات یہ ہے کہ تمام ممالک اس ڈیل کے ازسر نو احیا کے مکمل حق میں ہیں حتی کہ نئی امریکہ صدر جو بائیڈن نے بھی اس حوالے سے اپنی رضامندی کا اظہار کیاہے۔ اس حوالے سے معمولی تحفظات بھی دور ہوجائیں گے اگر ایک مرتبہ یہ عمل شروع ہوگیا تو۔ تاہم ویانا بات چیت کا حتمی فیصلہ اسلامک ری پبلک کے سپریم لیڈر آیت اللہ سیدعلی حامنائی کا ہے۔

کابینہ کی ایک میٹنگ میں صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ اس بات چیت میں اہم مسائل حل ہوگئے ہیں تاہم چند معمولی رکاوٹیں موجود ہیں جس پر ہم بات چیت کر کے حتمی نتائج دیں گے۔ اگر ارادہ ہو جیساکہ موجودہ انتظامیہ نے ظاہر کیا ہے تو پھر یہ کام اپنے اختتام تک ضرور پہنچے گا۔ ایران کے انتخابات کا آغاز 18 جون سے ہورہا ہے اور صدر حسن روحانی اپنی زیادہ سے زیادہ مدت یعنی دو لگاتار مدت صدارت پوری کر چکے ہیں۔ وہ اگست میں اقتدار منتقل کر دیں گے۔ معاہدے کے حوالے سے اپریل سے آسٹریا کے دارالحکومت میں ایران اور برطانیہ، روس، چین ، فرانس، جرمنی اور روس کے مابین بات چیت کا عمل چل رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے انتخابات سے قبل ہی طرفین کسی نہ کسی معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔ واشنگٹن اس عمل میں براہ راست شامل نہیں ہے تاہم نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے نیوکلیر ڈیل کی تجدید کا اشارہ دیا ہے۔

اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ دوبارہ معاہدے میں واپس آئے اور سابق صدر کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کریں جبکہ تہران کو واپس معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی ایٹمی سرگرمیوں کو اسی سطح پر واپس لانا ہوگا۔ ٹرمپ کی جانب سے عائد پابندیوں کے نتیجے میں ایران کے عہد شدہ معاشی فوائد سے اسے محروم کر دیا گیا تھا اور اس کی تیل کی برآمدات کو بھی روک دیا گیا تھا جبکہ دنیا میں اس کے اثاثوں کو بی منجمد کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ایران کو سخت معاشی بحران کا سامنا رہا۔ اسی اثنامیں ایران کے مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ وہ ویانا بات چیت میں 2015 کی ایٹمی ڈیل کے نکات پر واپس آنے پہ تیار ہے اور دیگر مذاکرات کاروں کا بھی کہنا ہے کہ تمام مسائل قابل حل ہیں اور ان پر کام کیا جاسکتا ہے۔

مذاکرات کے آخری راؤنڈ سے قبل بات چیت کرتے ہوئے ایرانی مذاکرات کار عباس اراکچی کاکہنا تھ کہ، غیر متفقہ چیزیں بھی ایک نکتے پر پہنچ گئی ہیں اور تمام فریقین کا خیال ہے کہ یہ چیزیں قابل ہیں اور جلد حل ہوجائیں گی۔ اراکچی جو کہ سیاسی معاملات میں ایران کے نائب وزیر خارجہ ہیں کا کہنا تھا کہ ویانا کے مذاکرات بات چیت کے کسی متوقع نتیجے پر پہنچنے کے قریب ہیں اور بہت جلد اس حوالے سے کوئی اہم اعلان متوقع ہے اور بہت سارے معاملات طے پا چکے ہیں۔ اس ڈیل سے خطے پر بہت مثبت اثرات پڑیں گے اور تیل کی قیمتوں میں بھی فرق پڑے گا۔ غیر قیام پذیری اور عدم استحکام اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔ ہم پر امید ہیں کہ تمام فریقین اس پر مطمئن ہں گے۔ تاہم اسرائیل شاید اس پر کبھی بھی خوش نہ ہو۔
 
https://taghribnews.com/vdcgu39nqak9z74.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ