تاریخ شائع کریں2021 6 June گھنٹہ 22:58
خبر کا کوڈ : 506870

بشا راالاسد کا انتخاب امریکہ کے لیے خارجہ پالیسی کا ایک اہ  سبق ہے

اس فتح سے بشار الاسد کو مزید پانچ سال اقتدار میں مزید مل گئے ہیں جب کہ اسد فیملی کو اس کے ساتھ ہی اقتدار میں چھ دہائیاں مکمل ہو جائیں گی۔ ان کے والد حافظ الاسد نے تین دہائیاں اقتدار میں گزاریں اور 2000 کو وفات پا گئے تھے۔
بشا راالاسد کا انتخاب امریکہ کے لیے خارجہ پالیسی کا ایک اہ  سبق ہے
بشار الاسد 95 فیصدووٹوں  ساتھ ایک مرتبہ پھر سات سال کے لیےشام کے صدر  منتخب ہو گئے ہیں۔2014 کے انتخابات میں بشارالاسد نے 89 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ بدھ کے روز ہونے والے صدارتی انتخابات شام کی ایک دہائی سے جاری جنگ کے دوران ہونے والے دوسرے عامانتخابات تھے۔ شام کی جنگ میں ہزاروں افراد جاں بحق اور لاتعداد زخمی ہو گئے تھے جبکہ لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑ گئے تھے۔ 2012 میں متعارف ہونے والے نئےدستور میں 1960 کے بعد پہلی مرتبہ مخالف جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی اور جنگ کے بعد یہ دوسرا انتخاب تھا اور دونوں انتخابات میں بشار الاسد کو ہی فتح نصیب ہوئی۔

اس فتح سے بشار الاسد کو مزید پانچ سال اقتدار میں مزید مل گئے ہیں جب کہ اسد فیملی کو اس کے ساتھ ہی اقتدار میں چھ دہائیاں مکمل ہو جائیں گی۔ ان کے والد حافظ الاسد نے تین دہائیاں اقتدار میں گزاریں اور 2000 کو وفات پا گئے تھے۔ شامی افراد کو امید ہے کہ اسد کی فتح سے بین الاقوامی امداد اور تمیر نو کے لیے فنڈز کے دروازے کھل جائیں گے۔یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ ان عرب ممالک نے جنہوں نے اسد حکومت کے ساتھ تعلقات ممقطع کر لیے تھے۔ دمشق میں ایک تاجر نے میڈہا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شام کے لوگ اب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل بشار الاسد ہی ہیں۔ شام میں آہستہ آہستہ حالات نارمل ہو رہے ہیں۔بہت سارے پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں  اور ملک کے بیشتر حصوں کی تعمیر نو بھی ہوچکی ہے تاہم ابھی بھی بہت کام باقی ہے۔

اسد کا دوبارہ انتخاب امریکہ کے لیے خارجہ پالیسی کا ایک بڑا سبق

شام کے انتخابات اور بشا راالاسد کا انتخاب امریکہ کے لیے خارجہ پالیسی کا ایک اہ  سبق ہے کیونکہ امریکہ کے تین صدور نے نہ صرف شام پر مسلسل حملے کیے ہیں بلکہ بشار الاسد کو ہٹانے کے لیے ہر حربہ آزمایا ہے۔ امریکہ کو شام سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتا۔

بونی کرسٹین جو کہ دی ویک میں ایڈیٹر اور دفاعی امور کے ماہر ہیں کا کہنا ہے کہ امریکہ بیک وقت گلوبل پولیسنگ اور سوشل ورکر کا کردار کس طرح ادا کر سکتا ہےاور پھر اس پر کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک کے بعد ایک حملہ اور پھر حکومتوں کے تخت الٹ دینا کیا مسائل کا حل ہے؟-گزشتہ بیس برسوں سے امریکہ کا حکومتیں بدلنے کے پروجیکٹس ناکامی کا شکار ہیں۔ بونی کرسٹین کا کہنا تھا کہ وہ کامیاب ہوکر بھی ناکام رہتے ہیں جیسا کہ ہم نے عراق اور لیبیا میں دیکھا۔ اور جب وہ ناکام ہوتے ہیں تو پھر ناکام ہوتے ہیں جیسا کہ شام میں، جہاں بشار الاسد اب بھی اقتدار میں ہیں۔ شام میں جب 2011 میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو روبرٹ فورڈ جو کہ شام میں امریکی سفیر تھے ، کا کہنا تھا کہ عظیم طاقتیں مثلا امریکہ بشار الاسد کو اقتدار سے بے دخل نہیں کر سکتیں۔

امریکہ کی جمہوریت مخالف قوتوں کی حمایت اور پابندیاں

امریکہ اور یورپی ممالک نے شامی حکومت کے خلاف مسلح دہشت گردوں کی مسلسل حمایت کی بشمول ان انتہا پسندوں کے جنہیں وہ ہمیشہ دہشت گرد کہتے تھے۔ اب دیشت گردوں کے لیے معتدل باغیوں کی اصطلاح استعمال کی گئی باجود اس کے کہ ان دہشت گردوں کے اقدامات کے خلاف ٹھوس ثبوت بھی دستیاب تھے کہ وہ صریحا دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکہ نے ان جمہوریت مخالف قوتوں کو دمشق کے مقابلے میں زیادہ جمہوری قرار دیا حالانکہ اسد کے خلاف لڑنے والے سارے دہشت گردہ گروہ تھے اور مغربی میڈیا اس بات سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ کی یکطرفہ پابندیوں کی وجہ سے نہ صرف شام میں بین الاقوامی سرمایہ کاری رک گئی بلکہ ملک کی تعمیر نو کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا۔ جنگ کی وجہ سے تباہ حال ملک پر ان پابندیوں نے شام کو مزید مشکلات کا شکار کر دیا۔

اب شامی صدر کی انتخابات میں فتح یہ ظاہر کرتی ہے کہ بین لاقوامی طاقتوں کی پشت پناہی سے لڑنے والے دہشت گرد اور ہائبرڈ وار ہمیشہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ تاہم اس طرح کی جنگ کے نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں اس میں کئی بےگناہ جانیں ضائع ہوتی ہیں جیسا کہ شام کی جنگ میں دنیا نے دیکھا ہے۔
 
 
https://taghribnews.com/vdcfevdtxw6dxca.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ