تاریخ شائع کریں2021 6 June گھنٹہ 22:56
خبر کا کوڈ : 506869

عمران خان کے الزامات افواج یا اپوزیشن پر؟

2014 میں امپائر کی مداخلت کی امید پر اسلام آباد میں دھرنا دینے اور چار ماہ تک ایک منتخب حکومت کو ناکام بنانے کے لئے ہر غیر اخلاقی، غیر جمہوری اور غیر قانونی ہتھکنڈا اختیار کرنے والے عمران خان اب ملک میں قانون کی عمل داری کی بات کررہے ہیں۔
عمران خان کے الزامات افواج یا اپوزیشن پر؟
پاکستان میں بر سر اقتدار سیاستدانوں کا سب سے بڑا خوف یہی ہوتا ہے کہ غیر آئینی قوتیں ان کی حکومت کو نہ گرا دیں کیونکہ پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ غیر منتخب قوتوں نے جب چاہا منتحب حکومتوں کا تختہ الٹ دیا ۔ اس سارے کھیل میں دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ جو ان غیر منتخب قوتوں کے چہیتے سمجھے جاتے تھے ایک وقت میں انہی کی ٹھوکروں پر تھے اور شاید عمران خان صاحب بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا اپوزیشن والے فوج کو کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو گرا دو، مافیاز کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح حکومت گرا دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ  خود کو جمہوری کہنے والے فوج کو کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو گرا دو، مافیاز کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح حکومت گرا دی  جائے۔یقینا یہ ایک افسوس ناک بات ہے مگر خان صاحب کی یادداشت بہت ہی کمزور ہے ۔ جس وقت وہ ن لیگ کے خلاف دھرنا دے رہے تھے تو انہوں نےمقتدرہ کو یہ واضح پیغام بھیجا تھا کہ اب حکومت کو گرا دیا جائے جس کے جواب میں انہیں کہا گیا تھا کہ وہ مطلوبہ افرادلے کر نہیں آئے؟؟ کیا عمران خان صاحب کا یہ عمل جمہوری تھا؟؟یا ان کے اس عمل کو قابل مستحسن قرار دیا جائے؟

2014 میں امپائر کی مداخلت کی امید پر اسلام آباد میں دھرنا دینے اور چار ماہ تک ایک منتخب حکومت کو ناکام بنانے کے لئے ہر غیر اخلاقی، غیر جمہوری اور غیر قانونی ہتھکنڈا اختیار کرنے والے عمران خان اب ملک میں قانون کی عمل داری کی بات کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی ملک اس وقت تک کامیاب اور خوش حال نہیں ہوسکتا جب تک قانون سب کے لئے برابر نہ ہو۔ یعنی بڑا یا چھوٹا، کمزور یا طاقت ور ، کوئی بھی اگر کسی قانون کے خلاف کام کرتا ہے تو اس کی گرفت ہو اور اس کا احتساب کیا جائے۔ یہ بات اصولی طور پر ٹھیک ہے لیکن ایک درست بات کہنے کے بعد توقف کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کی بجائے وہ اس کا سرا اپنے سیاسی دشمنوں اور ان کی چوری سے جوڑنے میں دیر نہیں کرتے۔ یہ پروپیگنڈا کے ہتھکنڈے ہیں جو عمران خان سے پہلے بھی کامیابی سے استعمال کئے جاچکے ہیں لیکن سوشل میڈیا اور براہ راست مواصلت کے موجودہ دور میں عمران خان جیسے لیڈروں نے اسے ایک نئی جہت عطا کی ہے۔

عمران خان الزامات لگاتے ہوئے اقتدار میں آئے اور الزامات ہی کے زور پر وزارت عظمی کی نصف مدت پوری کرچکے ہیں۔ اب ان کی خواہش ہے کہ پرانے نعروں کو نیا روپ دے کر اور اپنی ناکامیوں کو اپوزیشن کے الزامات بتا کر وہ 2023 کا انتخاب بھی جیت لیں۔ مقصد صرف ذاتی اقتدار کی ہوس ہے۔ ان کے پاس کوئی سیاسی پروگرام نہیں ہے اور نہ ہی اقتدار میں رہتے ہوئے وہ اپنے کسی انتخابی وعدے کو پورا کرنے کے راستے پر گامزن ہوئے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی احساس پروگرام ہے جو عالمی اداروں سے ملنے والی امداد میں سے کچھ ڈالر خیراتی منصوبوں کے ذریعے عوام میں تقسیم کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اسی لئے بلاول بھٹو زرداری نے بجا طور سے عمران خان سے سوال کیا ہے کہ وہ کورونا کے سلسلہ میں آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر اداروں سے اربوں ڈالر کی امداد اور بیرون ملک پاکستانیوں سے جمع کئے گئے خطیر عطیات کا حساب دیں۔ بتایا جائے کہ یہ رقوم کہاں صرف ہوئیں اور اس میں کس حد تک شفافیت ہے۔

اپوزیشن جمہوریت کے دعوے کرتی ہے لیکن فوج سے حکومت گرانے کے لئے کہا جاتاہے۔ یہ الزام لگاتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم نے صرف سیاسی مخالفین کی ساکھ ہی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ عسکری اداروں کی شہرت اور اس عزم پر بھی شبہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی انتظام میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریں گے اور ہر صورت میں آئین کا احترام کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کو بتانا چاہئے کہ اگر کچھ لوگوں نے فوج سے منتخب حکومت گرانے کے لئے کہا ہے تو وہ کون لوگ ہیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔ وزیر اعظم کو کن لوگوں ، اداروں یا انٹیلی جنس نے یہ حساس معلومات فراہم کی ہیں۔ جس فوجی قیادت سے حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے کہا گیاہے، کیا وزیر اعظم نے اس سے بھی باز پرس کی ہے کہ انہوں نے ملک کے آئینی جمہوری نظام کو ختم کرنے کا مشورہ کیوں سنا؟ ان میں سے کسی سوال کا جواب وزیر اعظم کے پاس نہیں ہوگا کیوں کہ ان کی باتیں بے بنیاد قیاس آرائیوں پر استوار ہوتی ہیں۔ عمران خان غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے بطور وزیر اعظم اپنا اعتبار کھو رہے ہیں۔ وہ ملکی نظام کو بہتر کرنے کی بجائے رہی سہی جمہوری روایت کو بھی پامال کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

ان الزامات کا ایک مقصد ایک اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام کو یہ بتانا کہ وہ بہت نیک طنیت آدمی ہیں اور ہرگز ہرگزفوج کے احکامات پر نہیں چل رہے بلکہ فوج کے ساتھ تمام تر ساز باز تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کر رہی ہے۔ بالفاظ دیگر انہوں نے یہ بات کر کے نواز شریف کے بیانیے کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ان کے بیان سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ مقتدرہ ہی حکومتیں بناتی اور گراتی ہے۔ یعنی انہوں نے دوسرے لفظوں میں جو کام کیا ہے وہ حامد میر اپنی ید طولی کے باعث بھی نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنے بیان سے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور جمہوریت نام کی کوئی چیز پاکستان میں نہیں پائی جاتی۔ دیکھنا کہتے ہیں نادان دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہوتا ہے۔
 
 
https://taghribnews.com/vdcd990knyt0zj6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ