انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال فوری طور پر عالمی توجہ اور کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے، افسوس ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اب ایک نیا معمول بن چکا ہے جس پر کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔
متحدہ عرب امارات نے بھی اس بندرگاہ کی تعمیر میں تعاون کا اعلان کیا ہے جس کے باعث اس راہداری اور بندرگاہ کے منحوس اہداف کے بارے میں مزید شکوک و شبہات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بائیڈن کا مقصد امریکی – صیہونی فوجی اتحاد کے ذریعے غزہ کی پٹی پر مارشل لاء کا نفاذ ہے۔
اسلامی جمہوریہ کی میزائل کامیابیاں صرف بیلسٹک اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ فضائی دفاع کے میدان میں دفاعی میزائلوں کی تیاری کی وجہ سے ملک کے آسمانوں کو محفوظ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔
انہوں نے غزہ کی جنگ کے بارے میں کہا کہ کئی مہینے حملوں کے باوجود اب تک اسرائیل کو قابل ذکر کامیابی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ درحقیقت یہ صورتحال اسرائیل کی شکست کے مترادف ہے ۔
مذکورہ امریکی تھنک ٹینک نے ایران، روس اور چین کی نئی مشقوں اور دنیا کے ممالک بالخصوص مغرب کے لیے اس کے پیغامات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ فوجی مشقیں تینوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کو ظاہر کرتی ہیں۔
روس کے مرکزی الیکشن کمیشن کے سربراہ الا پامفیلوا نے پیر 18 مارچ 2024 کو روس کے 3 روزہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے بارے میں کہا کہ 87,100,000 سے زیادہ روسیوں نے پولنگ میں شرکت کی۔
پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو نے اپنے آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر تہران چیمبر آف کامرس، انڈسٹریز، مائنز اینڈ ایگریکلچر کے سربراہ محمود نجفی عرب کے ساتھ اپنی ملاقات کی تصویر شیئر کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے جرم کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات اٹھانے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کی تعمیل نہ کرنے پر صیہونی حکومت کے خلاف پابندیاں لگائیں۔
سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی زیادہ تر افغان سرزمین سے ہمارے خلاف ہو رہی ہے، جو دہشت گرد اففانستان سے پاکستان آرہے ہیں یہ ہی لوگ ان کو پناہ دیتے ہیں۔
یہ انکشاف ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اسرائیل کے ساتھ اتحاد کے سکینڈلز کے سلسلے کی ایک اضافی کڑی ہے، جس میں فلسطینیوں کے خلاف ہر طرح کی جنگ میں اس کی خفیہ حمایت بھی شامل ہے، ایسے وقت میں جب صرف میڈیا جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
اس وقت یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ اسرائیل نے اس علاقے کو مرکزی غزہ کے داخلی مقام کے لیے منتخب کیا ہے، خاص طور پر اپنی علیحدگی کی لکیر قائم کرنے کے لیے، جو شمال کو مرکز سے تقسیم کرتی ہے۔