یحیی سریع نے مزید کہا: یمنی مسلح افواج اسرائیلی دشمن کے تمام بحری جہازوں یا اس کے ساتھ تعامل کرنے والے جہازوں کو خبردار کرتی ہے کہ وہ ہماری مسلح افواج کا جائز ہدف بن جائیں گے۔
کل بروز سوموار 20 نومبر جسے "بچوں کا عالمی دن" کہا جاتا ہے، اس وقت پہنچے گا جب دنیا کی فکرمند نظریں غزہ پر جمی ہوئی ہیں۔ وہ تنگ پٹی جہاں انسانی حقوق کا دنیا کا سب سے بڑا سانحہ رونما ہو رہا ہے۔
صیہونی حکومت کے قیام سے قبل ایلات کا نام ام الرعش تھا۔ یہ علاقہ مقبوضہ فلسطین کا سب سے جنوبی نقطہ ہے اور شمالی محاذ (حزب اللہ لبنان) میں مزاحمتی محور کے اطراف سے سب سے دور ہے۔
"خلیج آن لائن" نیوز سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، امریکی وال سٹریٹ جرنل نے اس صہیونی افسر کا حوالہ دیا، جس نے اپنا نام نہیں بتایا، اور مزید کہا: "امریکی خفیہ ایجنسی کو بھی حماس تحریک کو تباہ کرنے کی اسرائیل کی صلاحیت پر شک ہے۔"
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے تین نومبر کو اپنے خطاب میں کہا کہ حزب اللہ طوفان الاقصی کے شروع ہونے کے فورا بعد ہی جنگ میں داخل ہوچکی ہے۔ تنظیم صہیونی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر کاروائی کررہی ہے اس کے باوجود انہوں نے غزہ میں جنگ بندی پر بھی زور دیا۔
ان وحشت ناک جرائم نے بین الاقوامی سطح پر عوامی غم و غصہ کو ہوا دی ہے۔ لندن، نیویارک، پیرس اور دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں زبردست مظاہرے کئے گئے ہیں۔ مظاہروں کا دائرہ امریکی کانگریس کی عمارت اور کینیڈا میں حکومتی مراکز تک پھیل گیا ہے۔
آج (اتوار) المسیرہ کے حوالے سے لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے رکن "حسن فضل اللہ" نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لبنان کی جنوبی سرحدوں میں مزاحمتی قوتیں مصروف عمل ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے غزہ پر بمباری کے تسلسل کے ساتھ صیہونی حکومت کی جارحیت کے نتیجے میں شہداء کی تعداد 4 ہزار 137 ہو گئی، 13 ہزار سے زائد زخمی ہو گئے۔ 1,000 لاپتہ ہیں جن میں زیادہ تر بچے ہیں۔
مصری تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے بھی موجودہ پیش رفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: ایسا لگتا ہے کہ عظیم جنگ قریب ہے۔ اسرائیل زمینی راستے سے غزہ میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا ہے، مزاحمتی محاذ سید حسن نصر اللہ کے حکم کا انتظار کر رہا ہے۔ اگلے چند گھنٹے بہت اہم ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ انصاراللہ صیہونیت مخالف خیالات رکھتی ہے اور اس جماعت کے پرانے نعرے کچھ یوں ہیں: اسرائیل مردہ باد، اللہ اکبر، امریکہ مردہ باد، صیہونیوں پر لعنت ہو، اسلام کے لئے فتح و نصرت ہو "
بائیں بازو کے جریدے ہارٹز نے لکھا ہے کہ نتن یاہو کی ایران کے ایٹمی پروگرام سمیت دیگر منصوبے تباہ ہوگئے ہیں۔ امریکہ سے تعلقات بھی انتہائی نچلی سطح پر آگئے ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے۔ امریکی حمایت اور امداد کے بغیر صہیونی حکومت زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ سکتی ہے۔
صیہونی رجیم کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے تیاری اور سکیورٹی انتباہ کی ناکامی کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ایک ہزار سے زائد صیہونی ہلاک اور تقریباً 150 کو مزاحمتی قوتوں نے گرفتار کر لیا۔
جب کہ سچائی یہ ہے کہ اس تمام معاہدے کا تعلق کسی تیسرے سے نہیں بلکہ دو موضوعات سے ہے، پہلا حکمران خاندان کی حکمرانی اور تخت کا تحفظ اور دوسرا خطے میں خاص طور پر امریکی مفادات کا حصول ہے۔
آج 9 ربیع الاول ہے، جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہلِ بیت (ع) نے سانحہ کربلا کے بعد اپنا سوگ ختم کیا تھا۔ اسے عیدِ زہراء سلام اللہ علیہا بھی کہتے ہیں اور عیدِ شجاع بھی، تمام مسلمانوں کو یہ عید بہت بہت مبارک ہو۔
عزاداران امام حسن عسکریؑ آشنا ہیں کہ خالق کائنات اپنے نمائندوں کو نورٍ علم و صداقت سے نوازتا ہے۔ اسی طرح ہر امام اپنے دور کا علمی مرکز اور مرجع ہوتا ہے۔ اسی لیے آج بھی مکتب اہلبیت علیہم السلام دیگر مکاتب فکر سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
یمن میں جنگ کے خاتمے کے لیے اب تک سعودی عرب اور یمن کے حکام کے درمیان عمانی حکومت کی ثالثی اور رابطہ کاری سے متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں، جن میں سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا، لیکن حالیہ ملاقات اور اس کے سائیڈ لائنز سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالات اچھے راستے پر ہیں اور جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کا امکان ہے۔
اس امریکی میڈیا کے مطابق اس معاہدے کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب خطے میں کسی دوسرے ملک یا سعودی سرزمین پر حملے کی صورت میں ایک دوسرے کو فوجی مدد فراہم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
گروپ کی میٹنگوں کا مقصد عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کرنا ہے اور اس کی پہلی میٹنگ دسمبر 1999 میں برلن میں ہوئی تھی جس کی مشترکہ میزبانی جرمنی اور کینیڈا کے وزرائے خزانہ نے کی تھی۔
2014 سے اب تک بحیرہ روم کے پانیوں میں 27,800 سے زیادہ افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ یورپ جاتے ہوئے 2000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ انسانی حقوق، اخلاقیات اور اس سے بھی اہم عالمی عدم مساوات کا بحران ہے۔