تاریخ شائع کریں2017 12 July گھنٹہ 18:25
خبر کا کوڈ : 274980
تقریب نیوز ایجنسی کے نمائندے سے خصوصی بات چیت

امریکا اور اس کے اتحادیوں نےداعش کو مالی اور جنگی اعتبار سے سہارا دیا

موصل میں داعش کی شکست عراقی حکومت اور اس کے اتحادی خصوصا ایران کی عظیم کامیابی ہے، صوبائی صدر جمعیت علمائے پاکستان
داعش کے مقابلے میں عراقی اتحاد ایک موثر ہتھیار ہے، جو بلاشبہ باطل اور دہشت گردی کے خلاف ہے، اس کا مقابلہ کسی صورت سعودی اتحاد سے نہیں کیا جاسکتا
امریکا اور اس کے اتحادیوں نےداعش کو مالی اور جنگی اعتبار سے سہارا دیا
جمعیت علمائے پاکستان صوبہ سندھ کے صدر مولانا سید عقیل انجم قادری نے کراچی میں ہمارے نمائندے سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ "موصل کی آزادی عالم اسلام کی شاندار فتح ہے، موصل میں دہشت گرد تنظیم کی شکست اور انخلا بلاشبہ عراقی حکومت کے ساتھ اس کے اتحادی خصوصا ایران کی عظیم کامیابی ہے، عراق بالخصوص موصل میں ایک طویل عرصے سے خارجی فتنہ پروان چڑھ رہا تھا، جس نے ہزاروں معصوم بچوں  سمیت لاکھوں عراقیوں کو قتل کیا، اب اس کی شکست یقینا بہت بڑی کامیابی اور فتح ہے۔"

عراقی حکومت کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مولانا عقیل انجم قادری نے کہا کہ "اس سارے معاملے میں اسلامی اتحاد کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جب کسی کے پاس قوت ایمانی، جزبہ جہاد، حکمت عملی اور اتحاد ہو تو کامیابی اس کا مقدر ضرور بنتی ہے، اور موصل کی لڑائی میں بھی یہی چیزیں سرفہرست رہیں، جس کے نتیجے میں زلت و شکست داعش کا مقدر ٹہری۔" 

ہمارے نمائندے کے سوال داعش کیسے مضبوط ہوئی کے جواب میں مولانا عقیل انجم قادری نے کہا کہ "دہشت گرد تنظیم نے پہلے عراق اور پھر شام کے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا، اس نے خاص کر ایسے علاقوں کا انتخاب کیا، جو تیل کی دولت سے مالا مال تھے اور وہاں تیل کے کنوئیں تھے، اسی قبضے کے نتیجے میں داعش نے تیل کی فروخت شروع کی، جس کے خریدار امریکا اور یورپی ممالک تھے، اس طرح تیل کی فروخت سے داعش کافی مضطوب ہوئی، جبکہ پس پردہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس تنظیم کو جدید اسلحہ بھی فراہم کیا، جبکہ مالی معاونت بھی کی، جس سے یہ تنظیم اس قدر مضبوط ہوگئی کہ خود امریکا اور اس کے اتحادیوں کے گلے کی ہڈی بن گئی۔"

بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم کے سربراہ ابوبکر بغدادی کی ہلاکت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ "ابوبکر بغدادی کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی ہے، جو کافی خوش آئند ہے، لیکن اس کی ہلاکت کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شکست خوردہ تنظیم خاموش نہیں بیٹھے گی، بلکہ اپنی روایت کے مطابق زیادہ شدت سے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گی، یہ ضرور ہے کہ ابوبکر بغدادی کی ہلاکت بلکہ واصل جہنم ہونے سے داعش کمزور ضرور ہوگی، لیکن اندرونی کمزوری کو چھپانے یا انتشار سے بچنے کے لئے جلد ہی کسی نئے سربراہ کے نام کا اعلان کردیا جائے گا۔" ان کا کہنا تھا کہ " بعض خبریں ایسی بھی آئی ہیں کہ شدت پسند تنظیم نے اپنے جنگجووں کو عراق اور شام سے بھگا کر افغانستان کے علاقے تورا بورا میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے، جنھیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں پہنچایا جائے گا۔" مولانا عقیل انجم قادری نے کہا کہ "چونکہ افغنستان خود گذشتہ چالیس سال سے خانہ جنگی کا شکار ہے، دہشت گردوں کے لئے ایک سافٹ مقام ہے، اس لئے وہاں ہر قسم کے فتنے باآسانی پرورش پاتے ہیں، اس لئے داعش کی اگلی منزل بھی بظاہر افغانستان ہی محسوس ہوتی ہے۔"

داعش کے خلاف عراقی اتحاد کے مقابلے میں سعودی اتحاد پر بات کرتے ہوئے مولانا عقیل انجم قادری نے کہا کہ " داعش کے مقابلے میں عراقی اتحاد ایک موثر ہتھیار ہے، جو بلاشبہ باطل اور دہشت گردی کے خلاف ہے، اس کا مقابلہ کسی صورت سعودی اتحاد سے نہیں کیا جاسکتا۔" انھوں نے مزید کہا کہ "سعودی اتحاد دنیا بالخصوص اسلامی امت کو تقسیم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، جس کا مقصد دنیا میں شیعہ سنی کے درمیان خلیج بڑھانا ہے، سعودی عر باور اس کے حریف ملکوں کا اتحاد فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے قائم ہوا ہے، اس کا مقصد امت کی تقسیم ہے، اس سے باہمی اختلافات میں مزید اضافہ ہوگا، سعودی اتحاد اگر امت کی بہتری اور ترقی کے لئے ہوتا تو بہتر ہوتا، انفرادی کے بجائے مسلمانوں کے اجتماعی مسائل یعنی غربت، صحت اور تعلیم پر توجہ دی جاتی تو اچھا ہوتا، لیکن افسوس اس اتحاد میں ایسی کوئی بات نہیں، اس لئے بہتر ہے کہ فرقہ واریت کو ایک جگہ رکھ کر صرف ترقی اور فلاح کے لئے اتحاد کیا جائے تو مسائل حل ہوسکیں گے۔"

داعش کے قیام کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا عقیل انجم قادری نے کہا کہ "یہ تو سب جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے طالبان بنائی، جنھوں نے القاعدہ کے لئے مواقع فراہم کئے، وہی لوگ داعش کے بھی بانی ہیں، سب کو معلوم ہے کہ امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور سعودی عرب داعش کی سرپرستی کر رہے ہیں، انھی ملکوں نے اسے مضبوط کیا، مدد فراہم کی اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔" انھوں نے مزید کہا کہ "کچھ اسلام دشمن ملک نہیں چاہتے کہ اسلام فروغ پائے، مسلمان منظم ہوں، اس لئے ان لوگوں نے اسلام کی شکست و ریخت کے لئے داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں قائم کیں، اور ان کے ساتھ ایسے کم علم لوگ بھی شامل ہوگئے، جو اسلام کے غلبے کا خواب تو دیکھ رہے ہیں، لیکن لاعلم ہیں کہ انھیں کس طرح مذموم عزائم کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، افغانستان کے اندرونی حالات سے فائدہ اٹھاکر جنگجووں کو تربیت دی جارہی ہے، اور پھر لیبیا، عراق، بحرین، یمن، شام اور دیگر ملکوں میں انارکی اور عدم استحکام کے لئے روانہ کیا جا رہا ہے۔"

شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں مولانا عقیل انجم قادری نے کہا کہ "شام کے موجودہ حالات کافی سنگین اور تشویش ناک ہیں، ایسی صورتحال میں شام کے صدر بشار الاسد کو چاہیئے کہ وہ دیگر عرب ملکوں کی طرح آئینی اصلاحات کریں، موصل کی فتح کی طرح شام میں بھی تقریبا تین سال سے حالات کشیدہ ہیں، ایسے میں موصل میں عراقی فوج کی استقامت اور اتحادیوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر شام کی بدامنی کا حل نکالا جائے، داعش کو وہاں سے بھی بھاگنے پر مجبور کیا جائے، تاکہ عراق کی طرح شامی بھی مکمل آزادانہ ذندگی گزار سکیں۔"    
https://taghribnews.com/vdcjoxe8yuqeahz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ