تاریخ شائع کریں2017 27 July گھنٹہ 14:55
خبر کا کوڈ : 276978

میڈیا کی زبان تقریب کے اہداف میں رکاوٹ ہے،داعش کی فکر بھی باقی ہے:سید حامد علم الہدیٰ

میڈیا کی زبان تقریب کے اہداف میں رکاوٹ ہے،داعش کی فکر بھی باقی ہے:سید حامد علم الہدیٰ
ایران میں عالمی مجلس تقریب مذاھب کے معاون نے تقریب  کے اہداف کی پیشرفت میں میڈیا کی اہمیت پر زور دیا اور بتایا کہ باوجود یکہ ہم نے اس سلسلے میں بہت سے پروگرام مرتب کئے ہیں ، ہمیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں
   
ایران میں عالمی مجلس تقریب مذاھب کے معاون حجت الاسلام سید حامد علم الہدیٰ نے اپنی ایک گفتگو میں اپنی کار گذاری کے بارے میں بتا یا اور کہا کہ ” ہمارا کام دو حصوں پر مشتمل ہے ،انھوں نے بتایاکہ روزانہ کی بنیا د پر ہمارا کام تقسیم ہوتا ہے اور کہا کہ روزآنہ کی بنیاد پر مراجعات اہل سنت کی رسیدگی ہوتی ہے ،انھوں نے کہا ہے کہ، ثقافتی سیر و تفریح ، مبلغین کاارسال، ملی اور مذہبی ایام کی مناسبت سے اصلاحی پروگرام ،ملک کے بعض علاقوں میں سنی قبائل میں صلح کا قیام ،ہمارے شعبے کے اہم ترین کاموں میں سے ہے“۔

انھوں نے کہا ہے کہ”ہمارا تجربہ ہمیں اس بات کو روشن کرتا ہے کہ اہل سنت حضرات ہمار احترام کرتے ہیں ایران میں تقریب کی خوش نامی ان کی مرہون منت ہے “انھوں نے ملک میں شیعہ سنی دوری کے بارے میں کہا ہے کہ”اندرون ملک تقریب کا مسئلے میں عوام ہم سے آگے ہیں ، انکا آپس میں گھل مل کر رہنا، شادیاں ،کاروبار کرنا ،شیعہ سنی علما کا آپس میں مل کر رہنابہت زیادہ ہے ، حتیٰ آپس میں مذہبی مراسم جیسے شیعوں کی مانند محرم کے عشرے میں ایک دوسرے کے ہاں شریک ہونا،یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں “۔

انھوں نے شیعہ سنی میں اختلاف کے لئے خارجی دشمن  کی فعالیت کے بارے میں بتایا ،”دشمن نے بہت کو شش کی ہے کہ سنیوں کو ایران میں ایک اقلیت ظاہر کریں،ان کو مظلوم ظاہر کریں،مگر یہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ سنی ایران کے مختلف نکات میں مذہبی ، سیاسی اور دیگر امور میں اپنی فعالیت دیکھا رہے ہیں “۔

انھوں نے ثقافتی سیرو تفریح کے بارے میں بتایا کہ اس طرح کے پروگرام وحدت اور تقریب کے ایجاد میں  کانفرنسوں سے زیادہ اثر گذار ہیں انھوں نے کہا ہے کہ”اتنے خرچے کے بعد منعقد ہونے والی کانفرنسیں کہ جنکا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بھی نہیں ہوتا ہے جبکہ ثقافتی سرگرمیاں اور اس طرح کے کیپمس کہ جن میں خرچہ بھی کم ہوتا ہے اور نتائج بھی اچھے حاصل ہوتے ہیں“۔

تقریب کے کون سے ایسے عوامل ہیں جن کا اثر سب زیادہ ہے ؟

انھوں نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ”تقریب کا مسئلہ در اصل ایک ثقافتی جنگ ہے کہ جس میں ہم نے پیشروی کی ہے اور بعض جگہ پر دشمن نے داعشیوں اور تکفیریوں کے ذریعے سے اسلام پر کاری ضرب ماری ہے  باوجود یکہ اسلام دین رحمت و محبت ہے اسلام کا چہرہ بہت بھیانک دیکھایا گیا ہے“۔

انھوں مزید کہاہے کہ”باوجودیکہ شام اور عراق میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور داعش اور تکفیریوں کے ہاتھ تنگ ہو ئے ہیں لیکن داعش کا تفکر ابھی باقی ہے “۔

انھوں نے کہا ہے کہ”میڈیا کی زبان ابھی تقریب کے اہداف سے دور ہے ،ابھی تک ہمارے پاس کوئی اپنا چینل نہیں ہے لیکن ہم نے اب تک ملک کے مختلف چینلوں پر اچھے پروگرام دئیے ہیں اور انھوں نے بھی ہم سے تعاون کیا ہے مگر اب تک ہمیں ہمارا مطلوب حاصل نہیں ہو سکا، سال میں ایک کانفرنس ہمارے اہداف کے حصول میں کافی نہیں ہے،

انھوں نے آیت اللہ اراکی ،کی گفتگو کہ ” اب تقریب کو لوگوں کے درمیان لےجانے کا وقت ہے   “ کی جانب اشارہ کیا کہ” ہماری زیادہ تر فعالیت شیعہ سنی علما ء کے درمیان تھی جبکہ دوسرے مرحلے میں شیعہ اساتید اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے لیکن اگر ہم اپنے اہداف تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ملک کے تمام شعبوں میں اس کو پھیلانا ہو گا“۔

انھوں نے شام و عراق میں تکفیریوں کی شکست کے ملک میں اثرات پر کہا کہ”داعشیوں اور تکفیریوں نے عراق اور شام میں مسلمانوں پر شدید ضرب لگائی ہے لیکن ان کی وہاں شکست نے معاشرے کےتما م شعبوں کو جس میں سنی وشیعہ دونوں شامل ہیں خوش حال کیا ہے ،کیونکہ یہ جیت ہماری بھی جیت ہے اسی طرح یہ تکفیری حرکات سنیوں کی بیداری کا سبب بھی بنی ہے انھوں نے بھی داعشیوں کی مخالفت کی ہے “۔

انھوں نے کہاہے کہ” حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیز میں اہل سنت کی اہم شخصیات کا اچھا استقبال ہوا ہے اور اگر قم اور الازہر  کا رابطہ  برقرار ہو جا ئے ،تو اس رابطے کی بہت زیادہ ارزش ہوگی اور تقریب کے سلسلے میں ایک بہت بڑا قدم ہوگا“۔
https://taghribnews.com/vdciyqarvt1ay32.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ