تاریخ شائع کریں2017 20 July گھنٹہ 11:16
خبر کا کوڈ : 275933

ٹرمپ، پیوٹن ملاقاتوں میں کیا طے پایا؟

ٹرمپ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون سے بھی اکیلے ملاقات کرچکے ہیں، جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی سے وائٹ ہاؤس میں بھی ملاقات ون آن ون تھی
امریکی صد ڈونالڈ ٹرمپ کی روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن سے پہلی ملاقات جرمنی کے شہر ہمبرگ میں گروپ بیس یا جی ٹوینٹی کے سربراہی اجلاس کے موقع پر آٹھ جولائی بروز ہفتہ ہوئی، جس کا دورانیہ تو پینتیس منٹ طے کیا گیا تھا لیکن یہ سوا دو گھنٹے جاری رہی
ٹرمپ، پیوٹن ملاقاتوں میں کیا طے پایا؟
امریکی صد ڈونالڈ ٹرمپ کی روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن سے پہلی ملاقات جرمنی کے شہر ہمبرگ میں گروپ بیس یا جی ٹوینٹی کے سربراہی اجلاس کے موقع پر آٹھ جولائی بروز ہفتہ ہوئی، جس کا دورانیہ تو پینتیس منٹ طے کیا گیا تھا لیکن یہ سوا دو گھنٹے جاری رہی۔ 17 جولائی بروز پیر نیویارک میں قائم یوریشیا گروپ کے صدر آیان بریمر نے اپنے کلائنٹس کو بھیجے گئے نیوز لیٹر میں انکشاف کرکے پوری دنیا میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دی کہ ٹرمپ نے پیوٹن سے ایک اور ملاقات بھی کی تھی، جس کے بارے میں امریکی حکومت کی جانب سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا کہ وہاں کیا کہا سنا گیا۔ وہ ملاقات جی ٹوینٹی سربراہی اجلاس کے بعد عشائیہ کی تقریب میں ہوئی۔ اس خبر پر امریکی حکومت نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ عشائیہ کے بعد کوئی باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی تھی، البتہ مختصر بات چیت ضرور ہوئی تھی۔ امریکی حکومت کے ایک عہدیدار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ کہ ٹرمپ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون سے بھی اکیلے ملاقات کرچکے ہیں، جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی سے وائٹ ہاؤس میں بھی ملاقات ون آن ون تھی، اس لئے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس نے بریمر کی خبر کی امریکی اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے مکرر نشر و اشاعت کے ردعمل میں کہا کہ یہ جھوٹ، بدخواہانہ اور نامعقول بات ہے۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ اس عشائیہ تقریب میں سربراہان مملکت یا حکومت اور ان کی بیگمات مدعو تھیں اور بیٹھنے کا انتظام ایسا تھا کہ ہر سربراہ مملکت یا حکومت کے برابر کسی دوسرے کی بیگم براجمان تھی، جیسے کہ ٹرمپ سے اگلی نشست پر جاپان کے حکمران کی اور پیوٹن کے ساتھ ٹرمپ کی بیگم میلانیہ کی نشست تھی۔ پیوٹن کے ساتھ ان کا سرکاری مترجم تھا، جسے انگریزی آتی تھی جبکہ ٹرمپ کے ساتھ جو مترجم تھا جو جاپانی زبان بھی بولتا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ کے ایک شعبہ کے سینیئر سیاسی خبرنگار آرون بلیک نے بھی اس غیر اعلانیہ ملاقات کے بارے میں تین مفروضے پیش کئے ہیں۔ وہ بھی یہی سمجھنے پر مجبور ہیں کہ یا تو ٹرمپ دانستہ طور پر متنازعہ واقعات کو جنم دینے کے ماہر ہیں، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ملاقات میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا ہو، جسے ناقدین ان کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں، کیونکہ امریکہ میں صدارتی الیکشن 2016ء میں ہیکنگ کا اسکینڈل سامنے آیا اور الزام روس پر لگا کہ ہیلری کلنٹن کو ہیکنگ کے ذریعے ہروایا گیا اور ٹرمپ کے لئے یہ کام روس نے کیا، جبکہ ٹرمپ خاندان پر روس کے ساتھ تعلقات کا بھی الزام ہے۔ امریکہ میں اس کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے سابق سربراہ رابرٹ موئلر کو امریکی محکمہ انصاف نے مقرر کیا ہے اور جو ٹرمپ کے داماد جاریڈ کشنر کے بارے میں بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بیٹے ڈونالڈ ٹرمپ جونیئر کے روسی شخصیات کے ساتھ تعلقات بھی بے نقاب ہو رہے ہیں۔ یہ تعلقات و تحقیقات ایک الگ موضوع ہیں، جو آئندہ کبھی تحریر کئے جاسکیں گے۔ اصل موضوع یہ کہ اس نازک صورتحال کے ہوتے ہوئے صدر ٹرمپ پیوٹن سے کوئی خفیہ ملاقات کیوں کرتے اور خوامخواہ کیوں کسی نئی مصیبت کو جنم دیتے۔ ٹرمپ کا ہیکنگ کے مسئلے پر جواب یہ ہے کہ وہ یہ تو نہیں کہتے کہ روس ملوث نہیں ہوسکتا، لیکن کوئی اور ملک بھی تو ہوسکتا ہے، چین اور شمالی کوریا بھی تو اس کام میں مہارت رکھتے ہیں، وہ بھی تو ہوسکتے ہیں۔ البتہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن نے سوا دو گھنٹے پر محیط ٹرمپ پیوٹن ملاقات کے بارے میں بتایا کہ ٹرمپ نے دو مرتبہ ہیکنگ میں روسی کردار کے بارے میں سوال کیا اور دونوں مرتبہ پیوٹن نے تردید کی، جبکہ لاروف نے کہا کہ ٹرمپ نے روسی صدر کی تردید کو قبول بھی کرلیا۔ یاد رہے کہ سوا دو گھنٹے والی اعلانیہ ملاقات میں ٹلرسن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف بھی موجود تھے۔

روسی حکومت سے قریبی تصور کئے جانے والے سیاسی مبصر سرگئی مارکوف نے فیس بک پر پوسٹ کے ذریعے تبصرہ کیا کہ امریکہ کی جانب سے یہ نارمل رابطے  کی جانب واپسی ہے، جو سابق صدر اوبامہ نے منقطع کر دیئے تھے، کیونکہ وہ 2014ء میں کرائمیا واقعہ کے بعد سے روس کو بین الاقوامی سیاست میں تنہا کرنا چاہتے تھے۔ ان کے مطابق ٹرمپ پیوٹن ملاقات نے دوسری، تیسری، چوتھی ملاقات کا در کھول دیا ہے اور اب ان ملاقاتوں میں ٹھوس فیصلے ہوا کریں گے۔ روسی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سابق چیئرمین ایلکزئی کے پشکوف نے ٹویٹ کے ذریعے تبصرہ کیا ہے کہ امریکی نیو کونز اس ملاقات پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ امریکہ میں روس مخالف ہسٹریائی کیفیت کا خاتمہ چاہتے ہیں، روس کے خانہ صدارت کریملن میں باقاعدہ کوریج کرنے والے صحافیوں کے گروپ یا کریملن پریس پول نے بھی ٹویٹ میں لکھا کہ جب پیوٹن سے ملاقات کی تصویر بنانے پریس کے نمائندے آگے آئے تو ٹرمپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ اس سے آپ کی بے عزتی ہوتی ہے! یہ نکات لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ اور پیوٹن دونوں کے حامی امریکہ اور روس میں اپنے اپنے زاویوں سے ملاقات کی رپورٹنگ اور تبصرے میں مصروف ہیں۔ پیوٹن نے صحافیوں کو بتایا کہ آگے کی سمت ایک بڑا قدم شام میں de-escalating zones (یعنی ایسے مخصوص علاقے کہ جہاں تنازعے کی شدت نہ ہو) کے قیام کے لئے دونوں ملکوں کا مل جل کر کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کا شام کے بارے میں موقف بھی زیادہ حقیقت پسندانہ ہو رہا ہے اور اسے یہ احساس ہو رہا ہے کہ مشترکہ کوششیں بہتر ثابت ہوسکیں گی۔

روسی تجزیہ نگاروں میں سے بعض کا موقف یہ ہے کہ امریکہ کو اپنی ساکھ کے لئے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسے شام کے مسئلے میں زیادہ سنجیدگی دکھانی ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ روس شام میں ایران کے کردار کو پسند کرتا ہے جبکہ امریکہ مخالفت کرتا ہے، ادھر یوکرین اور شام کے مسئلے پر امریکی وزیر دفاع کے بیانات روس کے خلاف ہوتے ہیں۔ روسی خبر رساں ادارے انٹر فیکس کے مطابق سابق سوویت یونین کے آخری حکمران گورباچوف نے بھی ملاقات کو سراہا ہے، لیکن ٹرمپ کو ناقابل پیشن گوئی قرار دیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اب امریکہ ٹھوس اقدامات کرکے معاملات پر پیش رفت کرے۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ ذاتی سطح پر دونوں کے مابین تعلق قائم ہوچکا ہے۔ ان کی نظر میں ٹرمپ حقیقت میں ویسے نہیں جیسے ٹی وی پر نظر آتے ہیں، بلکہ وہ اسٹریٹ فارورڈ یعنی سیدھی اور براہ راست صاف بات کرنے والے ہیں۔ پولینڈ میں ٹرمپ نے روس پر یوکرین اور دیگر جگہوں پر عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگایا تھا، اس پر پیوٹن سے ہمبرگ میں دو مرتبہ سوال کیا گیا اور دونوں مرتبہ انہوں نے نظر انداز کر دیا۔ پولینڈ کو گیس کی فروخت پر امریکہ سے مسابقت پر پیوٹن پریشان نہیں ہیں۔ یہ چند اہم نکات تھے جو اعلانیہ ملاقات کے حوالے سے بیان ہوئے، جبکہ ایک گھنٹے پر محیط دوسری ملاقات میں کس موضوع پر گفتگو ہوئی، یہ راز ہی ہے، لیکن اس پر مفروضے پیش کئے گئے ہیں اور مزید بھی کئے جاسکتے ہیں۔

اصل میں امریکی صدر نے جو ٹیم جمع کی ہے، اس میں صہیونی و صلیبی ذہنیت کے لوگ بھی شامل ہیں۔ انکا داماد جاریڈ کشنر ایسا یہودی ہے، جو اسرائیل کا حامی ہے اور وہ ٹرمپ کا سینیئر مشیر بھی ہے۔ جعلی ریاست اسرائیل سے متعلق امور کا بھی براہ راست نگران وہ ہے اور اس کے تحت دو دیگر اسرائیل نواز یہودی اسرائیل اور مشرق وسطٰی سے متعلق امور پر ٹرمپ کے مشیر ہیں۔ قطر کے تنازعے کی ایک وجہ جاریڈ کشنر کا کاروباری مفاد اور قطر کے شاہی خاندان کے اہم فرد سے ذاتی تنازعہ بھی ہے۔ اسٹیفن کیوین بینن عرف اسٹیو بینن ٹرمپ کے چیف اسٹراٹیجسٹ ہیں، جو ماضی میں بیئر باٹ نیوز نیٹ ورک کے سربراہ بھی رہے اور بانی رکن بھی تھے۔ یہ وہاں ریڈیو پروگرام کیا کرتے تھے، جس میں ان کے مدعو شدہ مہمان ریڈیکل اسلام کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ یہ شخص یا اس جیسے دیگر حکومتی عہدیدار روس کو ایک مسیحی مملکت اور پیوٹن کو اپنا اتحادی سمجھتے ہیں، نہ کہ نظریاتی دشمن۔ ان جیسے افراد کا کہنا ہے کہ روس کی مدد سے ہی ہٹلر کو امریکہ و یورپی اتحادیوں نے شکست دی تھی اور آج بھی ریڈیکل اسلام کے خلاف امریکہ روس کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ امریکی ہیئت مقتدرہ یا سپر اسٹیٹ کی ریڈیکل اسلام سے مراد سیاسی اسلام ہے، جس میں اسلامی جمہوریہ ایران، حزب اللہ، حزب جہاد اسلامی، حرکت انصار اللہ، حزب جہاد اسلامی فلسطین اور حماس بھی شامل ہیں، جبکہ موجودہ روس تکفیری دہشت گردوں کے خلاف لڑائی تک محدود ہے اور فی الحال اس کے ایران سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔

روس نے شام کے مسئلے پر ایک اچھی پالیسی ضرور بنائی ہے، لیکن اسی روس نے دیگر محاذوں پر کبھی اچھی پالیسی نہیں بنائی، جیسے کہ ایران کے پرامن نیوکلیئر پروگرام کے خلاف امریکی سازشوں میں روس اور چین دونوں شامل رہے ہیں اور دونوں نے ایران پر اقتصادی پابندیوں کی حمایت کی، جو کہ امریکی ایجنڈا تھا۔ لٰہذا یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ روس کس حد تک شام کی پالیسی پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف پالیسی پر قائم رہے گا؟ فی الحال ایران سے بھی روس کے تعلقات اچھے ہوچکے ہیں، لیکن اگر یوکرین کے مسئلے پر امریکہ روسی مفادات کو ایڈجسٹ کرلے تو پھر کیا ہوگا؟ کیا روس اپنے خطے میں مفادات کو بچانے کے لئے شام پالیسی کو قربان کر دے گا یا نہیں؟ امریکہ انہی خطوط پر سوچ کر روس سے تعلق قائم کر رہا ہے؟ کیا پھر صہیونی صلیبی اتحاد کی سمت سفر شروع کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب روس کی مشرق وسطٰی پالیسی میں چھپا ہوا ہے، جس پر مستقبل میں کبھی بات ہوسکے گی۔ ٹرمپ اور پیوٹن شام کے جنوب یعنی اردن، فلسطین اور جعلی ریاست اسرائیل کی قبضہ کردہ سرحدوں سے متصل شامی علاقوں میں سیز فائر پر متفق ہوئے ہیں۔ اس پر ایک طویل مدت سے اردن میں روس اور امریکہ کے مذاکرات کار خفیہ مذاکرات میں مصروف تھے۔ اس کا ایک پہلو تو سیز فائر ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان علاقوں میں شام کے اتحادی ایران اور حزب اللہ کی موجودگی تھی، کیا یہ سیز فائر معاہدہ ایران و حزب اللہ کو یہاں سے ہٹانے کے لئے ہوا ہے؟ ایران کا موقف ہے کہ روس، امریکہ اور اردن پر جنوب مغربی شام میں سیز فائر کا جو معاہدہ ہوا ہے، یہ اس صورت میں فائدہ مند ہوسکتا ہے، جب اس کو پورے شام پر لاگو کر دیا جائے اور اس کا اطلاق de-escalated zones پر بھی ہو، جس کے بارے میں آستانہ مذاکرات میں بات ہوئی تھی۔ یہ بیان ایرانی دفتر خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے دیا۔ جنوبی شام کے اس سیز فائر سے اندازہ لگالیں کہ امریکہ روس سے کیا چاہتا ہے۔؟ البتہ روس کی نئی مشرق وسطٰی پالیسی ابھی آہستہ آہستہ واضح ہوتی چلی جائے گی تو پتہ چل جائے گا کہ روس اور امریکہ دونوں دنیا کے بڑے بھائی بننا چاہتے ہیں یا روس کا جھکاؤ بدستور شام اور شام پالیسی کی وجہ سے ایران کی طرف ہی رہے گا یا نہیں۔؟

ریفرنس:
1.Trump and Putin to hold first meeting as hopes for cooperation grow dimmer The Guardian July 6, 2017
2.Trump had undisclosed hour-long meeting with Putin at G-20 summit July 18, 2017 Washington Post
3.Special counsel is investigating Jared Kushner's business dealing June 15, 2017 Washington Post
4.Robert Mueller, Former F.B.I. Director, Is Named Special Counsel for Russia Investigation New York Times MAY 17, 2017
Russia Crows Over Putin's Meeting With Trump, New Yor Times July 8, 2017
5.The Coming War on 'Radical Islam' The Atlantic URI FRIEDMAN NOV 29, 2016
6.Why Trump's Republican Party Is Embracing Russia The Atlantic PETER BEINART DEC 12, 2016
7.The Latest: Trump says Syria truce opportunity with Russia By Associated Press July 9, 2017
Washington Post
8.US, Russia-brokered ceasefire will be 145fruitful146 if expanded to whole of Syria 150 Iran.... Russia TV
Published time: 10 Jul, 2017 10:39
https://taghribnews.com/vdcipwarpt1ay32.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ