تاریخ شائع کریں2017 6 August گھنٹہ 16:14
خبر کا کوڈ : 278353

شہید راہ حق علامہ سید عارف حسین الحسینی

شہید قائد نے پاکستان میں مسلمانوں کے درمیان یک جہتی اور اتحاد کے عملی اظہار کی ضرورت پر زور دیا
شہید راہ حق علامہ سید عارف حسین الحسینی
راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو
کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں

تاریخ اپنے زمانے کی روح پرور اور بلند ہمت ہستیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ 25 نومبر 1948ء کے روز اذان صبح کے وقت لا الہ الا اللہ کا حقیقی عارف اپنی ماں کی گود میں جلوہ گر ہوا۔ شہید قائد ابھی بچے ہی تھے لیکن ان کی فکر اور سوچ ہر وقت اس خالق سے مربوط ہوتی کہ میں خالق حقیقی کے قرب اور بلند مقامات کو کیسے حاصل کروں۔ اسی مقصد کو لے کر دینی علوم حاصل کرنے میں محو ہوئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عارف صرف طالب علم ہی نہیں تھے بلکہ وہ معنوی طور پر ایک بلند مقام پر فائز ہوچکے تھے۔

علوم دینی کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے اور مختلف بزرگ اساتذہ سے کسب فیض حاصل کرنے کی غرض سے نجف اشرف اور قم المقدسہ کا انتخاب کیا۔ وہاں علمی و عرفانی معرفت کے اعلٰی مراتب طے کرنے کے بعد وطن عزیز کی محبت انہیں ایک دفعہ پھر پاکستان کھینچ لائی۔ پاکستان میں اس مرد قلندر نے ترویج اسلام کا ایک نیا باب کھول دیا۔ ان کا موضوع سخن اتحاد بین المسلمین ہوا کرتا تھا۔

زندگی بھر مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دیا، وہی درس جو آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کو دیا کرتے تھے، اسی درس کو شہید قائد نے اپنا موضوع سخن بنا لیا اور عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ شہید قائد نے پاکستان میں مسلمانوں کے درمیان یک جہتی اور اتحاد کے عملی اظہار کی ضرورت پر زور دیا۔ جب مسلمانوں کے درمیان اختلافات ختم ہونے لگے تو وقت کے شیطان صفت، ملک دشمن عناصر اور باطل قوتوں کو مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجتی گوارا نہ ہوئی۔

یوں سازشیں شروع ہوگئیں، لیکن شہید قائد نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور ظالم حکومت کے خلاف بھی آواز بلند کرنا شروع کیا۔ وقت کے شیاطین، اتحاد بین المسلمین کے داعی کے چراغ کو خاموش کرنے کے لئے کمربستہ ہوگئے، لیکن شہید قائد کے لئے راہ اسلام میں جان قربان کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ اپنے جد امجد امام حسین علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے جان دینے کو وہ آسان سمجھتے تھے۔

شہید قائد بھی اپنے دور کے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ شہادت ہماری میراث ہے جو ہماری ماوں نے ہمیں دودھ میں پلائی ہے۔ کس قدر عظیم ہستیاں ہیں وہ مائیں جن کی گود اور آغوش میں ایسی ہستیاں جنم لیتی ہیں، جو اسلام پر قربان ہو جاتی ہیں۔

5 اگست 1988ء کی منحوس صبح طلوع ہوئی۔ ظلمت پرست یزیدی و شیطانی ہاتھوں نے اپنے چمگاڈر صفت کارندوں کو ہدایت کے اس روشن چراغ کو خاموش کرنے پر مامور کر رکھا تھا۔ شہید قائد آدھی رات سے اپنے معشوق حقیقی سے راز و نیاز میں مصروف تھے۔ نماز صبح کے بعد ایمان و عمل کی روشنی پھیلانے کے لئے معاشرے کے افق پر طلوع ہو ہی رہا تھا کہ شقی القلب اور وقت کے ابن ملجم کا نشانہ بن  گئے۔ وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے زمین پر گر گئے۔

ارض پاک سے ایک دفعہ پھر ہدایت اور اتحاد بین المسلمین کے ایک روشن چراغ کو بجھا دیا گیا، وہ بھی صرف اس لئے کہ اس نے افتراق پرور، باطل پرست اور ظالم حکومت کے ہاتھوں بیعت نہیں کیں۔ یہ جابر و ظالم افراد اتنا بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ شہید قائد کی جسمانی موت سے ان کے بلند افکار و کردار کو ختم نہیں کرسکتے۔

چھری کی دار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو
بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکتا

ایک دفعہ شہید قائد کسی سفر پر جا رہے تھے، اہل سنت کے ایک عالم دین بھی گاڑی میں آپ کے ساتھ اور دروازے کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ شہید قائد نے کہا خدا نخواستہ اگر ہم پر حملہ ہوا تو گولی سب سے پہلے آپ کو لگی گی، اس لئے آپ درمیان میں تشریف لائیں اور میں دروازے کی طرف بیٹھتا ہوں۔

شہید قائد اس عالم کے احترام میں خود دروازے کی طرف بیٹھ گئے، یہ شہید قائد کا کردار تھا۔ آپ ظاہری کردار کے ساتھ ساتھ کشف و کرامات کے مالک بھی تھے۔ جب حساس مواقع آتے تو یہی مرد بزرگوار آسانی سے ہر مشکل معمے کو حل فرماتا تھا۔

رہبر کبیر امام خمینی قدس سرہ کی عارفانہ نگاہوں نے ان کہ ہمہ گیر شخصیت کو خوب سمجھ لیا تھا۔ جب آپ کی شہادت کی خبر امام خمینی قدس سرہ نے سنی تو فرمایا: "میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہوا ہوں۔ عارف حسین الحسینی ایک پاکیزہ عاشق خدا تھے، جو صبح و شام بغیر کسی رکاوٹ کے کفر و شرک کے خلاف راہ خدا میں سراپا مبارزہ و قیام بنے ہوئے تھے۔

اس شخصیت (عارف حسینی) کی فکر کو زندہ رکھو! شیطان کے چیلوں کو اسلام ناب محمدی کی راہ میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہ دو۔" پاکستان میں آج پھر ایک عارف الحسینی کی ضرورت ہے، جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارگی کو فروغ دے کر نفرتوں کو مٹا دے اور مسلمانوں کے دلوں کو نزدیک کرکے اپنے اصلی دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرے۔

آج عالمی استعماری طاقتیں پاکستانی مسلمانوں کو ان کی اسلام دوستی کی سزا دینے پر تلی ہوئی ہیں، جن کے لئے وہ طرح طرح کی سازشیں کر رہی ہیں۔ آج استعماری طاقتیں تکفیری گروہ اور داعش جیسے درندہ صفت انسانوں کی تربیت کرکے مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کو ختم کرا رہی ہیں۔ اگر ہم آج بھی بیدار نہ ہوئے تو ملک عزیز پاکستان کی حالت بھی عراق اور شام جیسے ملکوں کی طرح ہوگی، جہاں امریکہ و اسرائیل اور کچھ عرب ممالک نے درندہ صفت تکفیری گروہ اور داعش جیسی شیطان صفت تنظیموں کو وجود میں لا کر ہزاروں مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطان کر دیا ہے اور ہزاروں بے گناہ معصوم بچوں اور عورتوں کو نہایت سفاکیت اور بربریت کے ساتھ ابدی نیند سلا دیا۔

شہید راہ حق علامہ سید عارف حسین الحسینی ہمیشہ پاکستان میں استعماری سازشوں کو بے نقاب کرتے رہتے تھے۔ ہم یہاں آپ کے  بعض تاریخی کلمات نقل کرتے ہیں:

1۔ اگر آپ دل سے اللہ اکبر کہتے ہیں، تو پھر جب اللہ آپ کے ساتھ ہے تو کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جب اکبر، اللہ ہے جب وہ بڑا ہے تو جو بھی اس بڑے کے مقابلے میں آئے گا، وہ انسان کو چھوٹا اور حقیر نظر آئے گا، پھر ان کی نظر میں امریکہ اور روس و اسرائیل کیوں اتنے بڑے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر کوئی بات ہو جائے تو یہ اپنے لحاف کے نیچے بھی امریکہ کہ خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے۔

2۔ جس کا ارتباط خدا تعالٰی سے ہوتا ہے، وہ امریکہ کو ایک چوہے کی مانند سمجھتا ہے، جیسے ایک چوہا اپنے سوراخ سے نکل کر آپ کو دھمکی دے تو کیا آپ اس چوہے کی پرواہ کریں گے؟ نہیں!! اس لئے کہ آپ چوہے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، لہٰذا وہ لوگ جن کا رابطہ خدا سے ہوتا ہے، وہ امریکہ جیسی طاغوتی طاقتوں کو چوہا بھی نہیں سمجھتے۔

3۔ جو چیز ہمارے لئے بہت ضروری ہے، وہ مسلمانوں کا آپس کا اتحاد ہے، کیونکہ ہمارے دشمن امریکہ اور اسرائیل ہیں، جو ہر جگہ مختلف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں کو سرکوب کرنا چاہتے ہیں۔

4۔ میں (عارف حسین الحسینی) اپنا گھر بار سب کچھ حتٰی کہ جان تک قربان کرسکتا ہوں، لیکن اسلام ناب محمدی و نظریہ ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔

5۔ عزاداری سیدالشہداء ہماری شہہ رگ حیات ہے، اس مین رکاوٹیں اور اس کے عوض ہمارے نوجوانوں پر حکومتی مظالم ناقابل برداشت ہیں۔ یہ ظلم، یہ جبر ہماری جدوجہد کا راستہ نہیں روک سکتے۔ ہم اتحاد بین المسلمین کا علم لے کر اٹھے ہیں اور اپنا پیغام اخوت پہنچا کر رہیں  گے۔ ہمارے خلاف پروپیگنڈا سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کی طرف سے ہے، جو مسلمانوں کے اتحاد سے خائف ہے۔

6۔ ہم سیاست میں عملی کردار اختیار کرنے سے قبل اپنی قوم کو منظم کریں گے اور اسے سیاسی شعور دین گے، تاکہ ہماری قوم سیاست کے ہر پہلو میں ہمارا ساتھ دے، تاکہ کوئی سیاسی موڑ مڑنے پر ہماری قوم ہم سے پیچھے نہ رہ جائے۔

روشنی تیرے سفیروں کا نشان باقی ہے
دامن شب میں چراغوں کا دھواں باقی ہے
مسکرائیں بھی کسی رات میں تو کیسے عارف
آنکھ میں تیری جدائی کا سماں باقی ہے

آخر میں اس عظیم ہستی کی برسی کی مناسبت سے تمام عاشقان ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی خدمت میں تسلیت و تعزیت عرض کرتا ہوں۔

موت آئے بھلا تجھ کو کیسے
تو، تو زندہ ہے تا صبح محشر
اے مفکر، اے معلم، اے مجاہد
حشر تک تجھ کو ہم بھولیں نہ شاید 
والسلام علیہ یوم یموت و یوم یبعث حیا۔۔۔۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
 
https://taghribnews.com/vdchm6nix23nqxd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ