تاریخ شائع کریں2017 3 July گھنٹہ 12:17
خبر کا کوڈ : 273727

بقیع کا قبرستان اسلام کا اثاثہ اور مسلمانوں کا مشترک ورثہ ہے

ہر جگہ مٹی، پتھروں، اینٹوں، لکڑیوں، اور تختوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ مدینہ زلزلہ زدہ شہر سے شباہت رکھتا ہے جہاں عمارتیں زمین بوس ہیں
یہ نکتہ زہنوں میں رہے کہ جنت البقیع اور اس جیسی وہ مقامات کہ جو ختمی المرتبت ﷺ اور اسلامی یادگاریں ہیں کسی خاص مکتب سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ سب کی سب تمام تر مسلمانوں کے لئے ایک خاص اہیمت کا حامل ہے
بقیع کا قبرستان اسلام کا اثاثہ اور مسلمانوں کا مشترک ورثہ ہے
بقیع کا قبرستان: 
صدر اسلام میں نبی اکرم ﷺ نے  اپنے ایک  عظیم صحابی جناب عثمان بن مظعونؓ کے دفن کے ساتھ اس کی ابتداء کی۔  صحیح مسلم میں اس واقعے کو اس طرح بیان کیا گیاہے ،مطلبؓ بن ابی وداعۃ کا بیان ہے کہ عثمان بن مظعونؓ کی وفات ہوئی۔ ان کا جنازہ لے جا کر دفنایا گیا تو نبی ﷺ نے ایک آدمی کو ایک پتھر لانے کا حکم دیا۔ اس آدمی سے وہ پتھر نہ اُٹھایا جاسکا تو رسول اللہ ﷺ نے جاکر اپنے بازوؤں سے آستین اوپر کی طرف اٹھائے۔ مطلبؓ کہتے ہیں کہ بیان کرنے والے نے بیان کیا کہ میں گویا اس وقت بھی آپ کے بازوؤں کی سفیدی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ آپؐ پتھر اُٹھا کر لائے اور ان کی قبر کے سرہانے کی طرف رکھ دیا اور فرمایا میں اس پتھر کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر پر نشانی رکھ رہا ہوں۔ میرے اہل خاندان میں سے جو کوئی فوت ہوا ،میں اسے اس کے قریب دفن کروں گا[1]۔کہا جاتا ہے کہ اس قبرستان میں  دفن ہونے والے آخری صحابی جناب  سہل بن سعد ساعدی ؓ تھے۔

زیارت قبور سیرت ہے: 
اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کا  طریقہ ہی یہ بن گیا کہ آپ وہاں تشریف لے جاتے اور ان سے کلام کرتے اور ان کو مخاطب  کرکے فرماتے ’’ السلام علیکم دار قوم مؤمنین وأتاکم ما توعدون،غدا مؤجلون وإنا إن شاء الله بکم لاحقون، اللهم اغفر لأهل بقیع الغرقد[2]‘‘ ، سلامتی ہو تم پر اے مومنین! تمہارے پاس وہ چیز آئی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی ثواب و عذاب کل کو یعنی قیامت کے دن کو تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دی گئی ہے اور یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو بخش دے۔

جنت البقیع کو بقیع غرقد بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں غرقد کے درخت ہوا کرتے تھے ۔ سیرہ حلبی کے مطابق ختمی المرتبت ﷺ اپنےآخری ایام میں بقیع تشریف لاتے اور یہاں پر دفن ہونے والوں کے لئے استغفار کرتے [3]اور یہی وجہ  ہے کہ اس عظیم قبرستان کی زیارت،  بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لئے سنت نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ  ان کے ایمان اور تقوے کی زیادتی کا سبب بن  گئی۔

عظیم ہستیوں کا مدفن:
اس طرح اس قبرستان میں مسلمانوں کی عظیم ہستیاں دفن ہونا شروع ہو ئیں اور اس میں دفن ہونا یا دفن کرنا ایک اعزاز سمجھا جانے لگا۔

اس عظیم قبرستان میں تاریخ اسلام کی عظیم ہستیاں اور شخصیات مدفون ہیں کہ اگر صرف ان کے نام فہرست کو بیان کیا جا ئے تو ایک کتابچہ درکار ہے ، بس یہ جاننا کافی ہے کہ اس عظیم قبرستان میں ، اہل بیت علیہم السلام ، ازواج مطہرات ،صحابہ  کرام ، تابیعین ذی الاحترام ، علمائے اعلام اور صالحین و منتجبین و شہدا ئے اسلام رضوان اللہ تعلیٰ اجمعین مدفون ہیں اس لحاظ سے یہ قبرستان اسلام کا اثاثہ اور مسلمانوں کو مشترک ورثہ ہے۔


انہدام سے پہلے بقیع:
بزرگوں کی قبروں پر گنبد و بارگاہ کی تعمیر کی گئی جیسے امام حسن علیہ السلام اور عباس بن عبدالمطلب کا مقبرہ، جو ابن جبیر کے مطابق بہت بلند تھا۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ [4]نے آٹھویں صدی ہجری کے وسط میں جو کچھ دیکھا وہ یوں تھا:

"مالک بن انس کی قبر پر چھوٹا سا گنبد تھا، ابراہیم بن محمد(ص) پر سفید رنگ کا گنبد تھا، ازواج رسول(ص) اور امام حسن(ع) اور عباس بن عبدالمطلب کے مقبروں پر اونچا اور نہایت مستحکم گنبد تعمیر ہوا تھا، خلیفۂ ثالث کی قبر پھر اونچا گنبد تھا اور ان کے قریب ہی [[فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا{فاطمہ بنت اسد] کی قبر پر بھی گنبد تھا۔ صفَدی [5]نے بھی اشارہ کیا ہے کہ چار ائمہ شیعہ اور رسول خدا(ص) کی قبروں پر گنبد تعمیر کیا گیا تھا۔

خاندان قاجار کے شہزادے فرہاد میرزا نے سنہ 1914191111914۱۹۱۴عیسوی میں اور محمدحسین خان فراہانی نے1۱۹۲۴ 1924عیسوی میں بقیع میں اپنے مشاہدات یوں بیان کرتے ہیں: ایک بقعہ چار ائمہ(ع) اور عباس کی قبروں موجود تھا اور ریشمی کپڑے کی چادر، جس پر سونے اور چاندی کی زرتاروں سے برجستہ پھولوں کے نقش بنے ہوئے تھے، حضرت فاطمہ(س) سے منسوب قبر پر چڑھی ہوئی تھی۔ یہ چادر عثمان بادشاہ سلطان احمد عثمانی نے سنہ    ۱۱۳۱ ہجری میں بطور ہدیہ بھجوائی تھی؛ ایک بقعہ رسول اللہ(ص) کی بیٹیوں کی قبروں پر بنا ہوا تھا، ایک بقعہ ازواج رسول(ص) کی قبروں پر اور کئی دوسرے بقعے[6]/[7]۔

تاہم مغربی مستشرق جان لوئیس برکھاٹ [8]جنہوں نے وہابیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد حجاز کا سفر کیا ہے، بقیع کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: بقیع مشرقی دنیا کے حقیر ترین قبرستان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یہ قبرستان احد میں مقبرہ حمزہ یا قبا کے مقام پر اسلام کی پہلی مسجد مسجد قبا کی طرح مقدس ہے اور ان مقامات مقدسہ میں شمار ہوتا ہے جن کی زیارت کو حجاج اپنے عبادی اعمال میں شمار کرتے ہیں[9]۔

تخریب کاری:
اکیس اپریل انیس سو چھبیس ۱۹۲۶ عیسوی 1926بمطابق ۸ شوال المکرم  ۱۳۴۴ ھجری قمری میں  یہ  قبرستان وھابی  شدت کا نشانہ بنا اور آل سعود کی حکومت نے اس تاریخی اور اسلامی و مذھبی ورثے کو بنام توحید حقیقی منہدم کر دیا۔

مسٹر روٹر جنہوں نے 1926 میں ہی وہابیوں کے غلبے اور بقیع کی مسمارہونے  کے بعد حجاز کا سفر کیا اور بقیع کو قریب سے دیکھا، مدینہ کو زلزلہ زدہ شہر سے تشبیہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں:’’ہر جگہ مٹی، پتھروں، اینٹوں، لکڑیوں، اور تختوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ مدینہ زلزلہ زدہ شہر سے شباہت رکھتا ہے جہاں عمارتیں زمین بوس ہیں، مٹی، لکڑیوں اور اینٹوں اور دیگر عمارتی اشیاء کا ملبہ دکھائی دے رہا ہے[10]۔25

سنہ ۱۹۵۴ عیسوی کو دینی مراجع اور علماء کے دباؤ اور سیاسی اقدامات کے نتیجے میں سعودی بادشاہ سعود بن عبدالعزیز نے بقیع میں سیمنٹ کے راستے بنائے تاکہ زائرین کو آنے جانے میں دشواری نہ ہو۔فیصل بن عبدالعزیز کے زمانے میں ایک بڑا دروازہ تیار کیا گیا اور کئی سال بعد مغربی جانب ایک سائبان بنایا گیا۔

وہابیوں اور آل سعود نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ  حجاز کےدوسرے شہروں میں موجود اسلامی تاریخ کے عظیم ورثے کو منھدم کیا ،ان کی اس فکر سے اسلامی مساجد اور ختمی المرتبت ﷺ کی یاد دلانے والی چیزیں بھی نا بچ سکیں ، حجاز سے باہر نکل کر اپنے افراطی پن کا مظاہرہ کیا  اور کربلا و نجف کو بھی مسمار کرنے اور منہدم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے لیکن وہاں موجود نایاب اور نادر اشیاء اور سونا چاندی لوٹ کر لے گئے اور جاتے جاتے ۲۰۰۰ ہزار افراد کو قتل کر ڈالا ، اسلام کے نام پر قتل و غارتگری اور دیگر مسلمانوں کی تکفیر کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے ۔


احتجاج:
وہابیت کے اس اقدام کے خلاف  جہان اسلام میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی اور جہان اسلام بالخصوص ایران و برصغیر میں آل سعود  کے اس اقدام پر احتجاجی جلوس نکالے گئے علماء کے وفود بھیجے گئے اور ان سے  اس احمقانہ حرکت کی وجہ پوچھی گئی ، انھوں نے اپنی سفیہانہ توضیحات اور توجیہات کو ان کے سامنےرکھا اور علماء کے احتجاج اور امت کے غم و غصے کی کو ئی پروا نہیں کی ، لیکن اس کےبعد سے اب تک جہان اسلام میں وہابیت کی اس فکر کی تکذب کیجاتی ہے اور  ان کے اس غیراسلامی و شنیع حرکت کی رد میں سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہے ۔

لیکن اگر اس وقت امت اسلام اس مسئلے میں زرا سنجیدہ ہو کر بھر پور اقدام کرتی اور اس اسلامی ورثے کا دفع کرتی اوراسلامی ممالک اپنا شرعی وظفہ جان کر اس اقدام پر صرف لفظی احتجاج پر اکتفا نا کرتے بلکہ لفظوں کے حصار اور اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں سے نکل کر عملی اقدام کرتے تو آج عالم اسلام کا نقشہ ہی اور ہوتا ،   آج جتنی بھی بدبختی اور مصیبت عالم اسلام پر عارض ہو ئی ہے وہ صرف اس افراط گر وہابی و وہابیت کا شاخسانہ ہے ۔

یہ نکتہ زہنوں میں رہے کہ جنت البقیع اور اس جیسی وہ مقامات کہ جو ختمی المرتبت ﷺ اور اسلامی یادگاریں ہیں کسی خاص مکتب  سے تعلق نہیں  رکھتی بلکہ یہ سب کی سب تمام تر مسلمانوں کے لئے ایک خاص اہیمت کا حامل ہے ، اس کے انہدام سے جہاں اہل بیت علیہم السلام کی توہین ہو ئی ہے وہاں  اُمہات المومنین اور نبی اکرم ﷺ کے مقرب اور معزز صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم کی بھی توہین ہو ئی ہے ، بالخصوص سبط رسول حضرت امام حسن مجتبیٰ ؑ کے جو رسول مکرم اسلام کا  لگاو تھا اور جو احادیث فریقین کی مستند کتب میں موجود ہیں اگر ان کو مد نظر رکھا جائے تویہ رسول اللہ کی توہین ہے ۔
 

[1] ۔سنن ابو داؤد مع عون المعبود: 3؍ 203
[2] صحیح مسلم: 974
[3] ۔ سیره حلبی، ج 3، ص343
[4]۔ سفرنامۃ ابن بطوطہ، ترجمۃ محمدعلی موحد، تہران، 1361 ش.
[5]۔ الوافی بالوفیات، ج 4، ص103، ج 11، ص127
[6]۔ سفرنامه فرهاد میرزا معتمدالدوله، ص170ـ173، 190۔
[7]      ۔ سفرنامه میرزامحمدحسین حسینی فراهانی،ص 228ـ 234۔
[8] ۔ جان لوئیس برکھارٹ (Johann Ludwig (also known as John Lewis, Jean Louis) Burckhardt)، ولادت 24 نومبر 1784، وفات 15 اکتوبر 1817عیسوی، نے عرب کا مشہور سفر نامہ، سفر نامہ حجاز لکھا۔
[9] ۔ برکھارٹ، (فارسی ترجمہ) سفرنامہ حجاز ص222 تا 226۔
[10] ۔ موسوعة العتبات المقدسة، ج3، ص329۔
https://taghribnews.com/vdchixniq23nqqd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ