تاریخ شائع کریں2017 3 January گھنٹہ 09:42
خبر کا کوڈ : 255826

حلب اور موصل کے بعد

یہ خطرہ فقط برطانیہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر اس ملک کو لاحق ہے، جس کے افراد داعش میں بھرتی ہوئے ہیں اور جس میں پائی جانے والی تنظیموں کے ڈانڈے داع
یہ خطرہ فقط برطانیہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر اس ملک کو لاحق ہے، جس کے افراد داعش میں بھرتی ہوئے ہیں اور جس میں پائی جانے والی تنظیموں کے ڈانڈے داعش سے ملتے ہیں
حلب اور موصل کے بعد
تحریر: نذر حافی
بشکریہ اسلام ٹائمز

طرفداری اور حمایت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ اصولوں کے بغیر کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ خصوصاً کسی بھی تحریک یا تنظیم کی حمایت کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ  عوامی ہے یا نہیں، دوسری بات یہ کہ مقامی بھی ہے یا نہیں اور تیسری بات یہ کہ آزادی اور استقلال کی خاطر ہے یا نہیں۔ عوامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس تنظیم یا تحریک کو عوام میں مقبولیت حاصل ہونے چاہیے، وہ تشدد اور دھونس دھاندلی کے بجائے عوامی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو، جبکہ مقامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ تنظیم یا تحریک باہر سے نہ چلائی جا رہی ہو، بلکہ مقامی لوگ ہی اس کے چلانے والے ہوں اور آزادی و استقلال سے مراد یہ ہے کہ وہ تحریک یا تنظیم اپنی ملت کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کروانے اور استقلال کی خاطر ہو۔

ہم پاکستانیوں کے بھی کیا کہنے! کسی کی حمایت یا مخالفت کا ہمارے ہاں کوئی اصول نہیں، ہمیں اپنے ملک کے علاوہ باقی سب کی فکر ہے۔ سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ ہم آنکھیں بند کرکے دوسروں کے جھگڑوں میں کودنے کے عادی ہیں۔ جب سے شام میں باغیوں نے سر اٹھایا ہے، ہم بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔ باغی کون ہیں اور وہ بشار الاسد سے کیوں جھگڑ رہے ہیں!؟ ہمیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔ باغیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ کون دے رہا ہے!؟ ہمیں اس سے بھی کوئی مطلب نہیں، ہم نے تو صرف کسی کی مخالفت یا حمایت کرنی ہوتی ہے، سو اپنی اپنی جگہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ چند سالوں سے مسلسل ہماری مسجدوں، منبروں اور میڈیا سے شام کی جنگ لڑی گئی۔ مسلسل باغیوں کو مجاہدین اسلام اور بشار الاسد کو ڈکٹیٹر کہا گیا، ہماری حمایت اور دنیا کی بے حسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ  شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز حلب چھ سال تک باغیوں کے قبضے میں رہا۔

اللہ کی لاٹھی بھی بے آواز ہے، شامی حکومت نے اپنی توانائیوں کو جمع کیا اور 2016ء کے آخر میں حلب کو حملہ آوروں سے آزاد کروا لیا۔ شامی حکومت کی سرپرستی میں مندرجہ ذیل گروہ باغیوں سے ٹکرائے۔
1۔ شام کی سرکاری فوج
2۔ حزب اللہ لبنان
3۔ لشکر فاطمیون (افغانستان)
4۔ لوالقدس(فلسطین)
5۔ جیش دفاع الوطنی،
6۔ گروه مقاومت اسلامی نُجَباء۔۔۔ وغیرہ
شام کو اس جنگ میں نمایاں فتح ہوئی اور حملہ آور پسپا ہو کر آجکل صحراوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ اس وقت ان کی ایک بڑی تعداد موصل میں عراقی حکومت سے دوبدو ہے۔

موصل بھی حلب کی طرح انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ  ہے۔ یہ عراق کے شمال میں واقع ہے اور دارالحکومت بغداد کے بعد آبادی اور تجارت کے لحاظ سے دوسرا اہم مرکز ہے۔ یاد رہے کہ 2014ء سے اس پر داعش کا قبضہ ہے۔ داعش میں امریکہ، یورپ، ترکی، سعودی عرب، افغانستان اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے لوگ بھرتی ہیں۔ حلب کی آزادی کے بعد جہاں داعشی مفرورین پناہ کے لئے موصل کی طرف بھاگ کر آئے ہیں، وہیں عراقی حکومت نے بھی اپنی تمام تر توجہ موصل پر مرکوز کر رکھی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب موصل میں بھی باغیوں کی شکست یقینی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ شام اور عراق میں ہونے والی پے در پے شکستوں کے بعد باغی اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھی لوٹ سکتے ہیں۔

یہ وہ خطرہ ہے کہ جس کا اظہار ان دنوں برطانیہ کے سکیورٹی وزیر بین وولیس نے بھی کیا ہے۔ ان کے بقول شام اور عراق میں مسلسل پسپائی پر مجبور شدت پسند تنظیم داعش میں شامل برطانوی شدت پسندوں کی واپسی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور داعش واپس لوٹنے والے اپنے تربیت یافتہ جنگجووں کو استعمال کرکے وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی پلاننگ کر سکتی ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر برائے سکیورٹی کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم برطانیہ میں کیمیائی حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ داعش کے پاس ان حملوں کی صلاحیت موجود ہے، جو وہ اس سے قبل مشرق وسطٰی میں استعمال بھی کرچکی ہے۔

ہم یہاں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خطرہ فقط برطانیہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر اس ملک کو لاحق ہے، جس کے افراد داعش میں بھرتی ہوئے ہیں اور جس میں پائی جانے والی تنظیموں کے ڈانڈے داعش سے ملتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو بھی انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے افغانستان میں دہشت گردی کے جو بیج بوئے تھے، اس کی فصل ابھی تک کاٹ رہے ہیں، اب شام اور عراق کا ثمر بھی ملنے والا ہے۔ پاکستان میں جہاں عام حالات میں دہشت گرد ایک حملہ کرکے سکول کے ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو شہید کر دیتے ہیں، جہاں جی ایچ کیو اور پولیس کے مراکز اور ائیرپورٹس کو پہلے سے ہی نشانہ بنایا جاتا ہے، وہاں داعش کے مقابلے کے لئے خصوصی حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔ دہشت گرد ٹولوں اور شدت پسندوں سے کسی بھی طرح کی نرمی یا غفلت ہمیں کسی بھی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔
https://taghribnews.com/vdchimni-23nm6d.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ