تاریخ شائع کریں2017 20 August گھنٹہ 16:16
خبر کا کوڈ : 280313

کیا قبلہ اول سے ہمیشہ اسی طرح شعلے بلند ہوتے رہیں؟

مسجد اقصٰی آج بھی جل رہی ہے اور تقاضا کرتی ہے کہ مسلم دنیا اپنے اتحاد اور یکجہتی کی قوت سے دنیا کی مظلوم قوموں کے حقوق کی آواز بلند کرے
کیا قبلہ اول سے ہمیشہ اسی طرح شعلے بلند ہوتے رہیں؟
مسجد اقصٰی یعنی بیت المقدس جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اسلامی شعائر میں کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی (ص) کے بعد تیسرا اہم ترین اور مقدس مقام ہے، اس مقام کی فضیلت اور اہمیت سے متعلق ماضی میں پیش کئے جانے والے مقالہ جات میں تفاصیل بیان کی جاتی رہی ہیں، تاہم اس مقالہ میں قارئین کی خدمت میں مقالہ کے عنوان کی مناسبت سے چند ایک عرائض پیش کی جا رہی ہیں۔


انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس ’’فلسطین" گذشتہ ستر برس سے غاصب صیہونیوں کے مظالم اور سفاکیت کو برداشت کرتی چلی آئی ہے اور اس سرزمین کے فرزندوں پر اسرائیلی جعلی ریاست کی جانب سے ایسے بدترین اور انسانیت سوز مظالم روا رکھے گئے ہیں، جن کو بیان کرنے سے تاریخ بھی چلا اٹھتی ہے، یہ مظالم اور سفاکیت نہ صرف تاریخ کے چہرے پر سیاہ دھبہ بن چکے ہیں بلکہ انسانی حقوق کے دفاع کے نام پر قائم کئے جانے والے بڑے بڑے عالمی اداروں کی کارکردگی پر بھی سیاہ دھبہ بن چکے ہیں، ان سیاہ دھبوں کو مٹانے کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ فلسطین سے متعلق انصاف فراہم کیا جائے، تاکہ مظلوموں کی دادرسی ہو اور دنیا سے ظلم ستیزی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔


بہرحال انبیاء ؑ کی سرزمین مقدس کے باسی جہاں غاصب صیہونیوں کے مظالم کو اپنے سینوں پر سہہ رہے ہیں، وہاں ان کی شجاعت اور دلیری کی مثال عظیم الشان ہے کہ انہوں نے کبھی بھی مسجد اقصٰی یعنی قبلہ اول بیت المقدس پر آنچ نہیں آنے دی اور اسرائیلی جعلی ریاست کی درندہ صفت افواج کی بندوقوں سے نکلی ہوئی ہر اس گولی کو اپنے سینہ پر کھانے میں فخر محسوس کیا ہے، جو قبلہ اول کی طرف چلائی گئی ہے۔


یہی وجہ ہے کہ غاصب صیہونی جعلی ریاست اسرائیل فلسطینیوں کے اس حوصلہ اور شجاعت کے سامنے اپنی تمام تر قوت اور امریکی بھاری اسلحہ و گولہ بارود کی موجودگی میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔ فلسطینیوں نے تو ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو احسن انداز سے نبھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، لیکن عالم اسلام کے قلب فلسطین کے ساتھ دنیا کے دیگر مسلمانوں کا رشتہ بھی اسی طرح سے ہے، جیسے فلسطینیوں کا ہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا یا مسلمان ممالک کے حکمران آج مسجد اقصٰی کو فراموش کرچکے ہیں، جبکہ ان ممالک کے عوام آج بھی فلسطینیوں کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت کو اپنی اسلامی و اخلاقی ذمہ داری سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔


مسجد اقصٰی کو 1969ء میں 21 اگست کے روز ایک جنونی قسم کے صیہونی نے نذر آتش کر دیا تھا، جس کے نتیجہ میں مسجد کے کئی ایک تاریخی مقامات کو شدید نقصان پہنچا تھا اور چند ایک ستون بھی متاثر ہوئے تھے، تاہم اس سانحہ نے نہ صرف ملت فلسطین کو جھنجھوڑ کر رکھا دیا تھا بلکہ پوری مسلم امہ کو جھٹکا لگا تھا اور نتیجہ میں مسلم دنیا اسلامی سربراہی کانفرنس یعنی او آئی سی کا قیام عمل میں لائی تھی اور یہ اعلان ہوا تھا کہ مسجد اقصٰی یعنی قبلہ اول کا دفاع ہر حکومت کا اولین فرض ہے۔


فلسطین پر غاصب صیہونی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ صیہونیوں کے عزائم مزید آشکار اور واضح ہوئے تھے کہ وہ قبلہ اول کو منہدم کرنا چاہتے ہیں یا پھر قبلہ اول پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کام کے لئے انہوں نے مسجد اقصٰی کو نذر آتش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا اور یہ تمام کی تمام ناپاک سازش میں جعلی ریاست اسرائیل کی سرپرستی حاصل تھی۔


مسجد اقصٰی کو جب 1969ء میں نذر آتش کیا گیا تو پوری مسلم دنیا کے حکمران اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا تھا، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مسجد اقصٰی صرف 1969ء میں ہی نہیں جلائی گئی بلکہ مسجدا قصٰی کو تو اسی دن سے نذر آتش کیا گیا ہے کہ جس دن سے انبیاء علیہم السلام کی سرزمین پر ایک غاصب اور جعلی ریاست کو اسرائیل کا نام دے کر فلسطین پر قبضہ کیا گیا تھا، اس دن سے آج 2017ء تک پورے ستر سالوں میں قبلہ اول کو روز نذر آتش کیا جا رہا ہے اور مسلم دنیا ہے کہ خوب غفلت میں پڑی ہے۔


کسی کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس غاصب صیہونیوں کے شکنجہ میں ہے، خاص طور پر حالیہ دنوں میں ہی دیکھا جائے تو صیہونیوں نے قبلہ اول کو فلسطینیوں کے لئے بند کر دیا تھا، دروازوں پر قفل لگا دیئے گئے تھے، مسجد میں داخلہ کے لئے سکیورٹی کے نام پر اسرائیلیوں نے اپنا تسلط جمانا شروع کر دیا تھا، لیکن اس موقع پر بھی مظلوم ملتِ فلسطین نے اپنی استقامت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور اسرائیل کے مسجد اقصٰی کے خلاف تمام ناپاک عزائم کوخاک میں ملا دیا۔


مسجد اقصٰی آج بھی جل رہی ہے کیونکہ 1969ء میں تو ایک صیہونی نے مسجد کو نذر آتش کیا تھا، لیکن آج 2017ء میں تو مسلم دنیا کے حکمرانوں نے دنیا کے سب سے بڑے شیطان اور پوری دنیا میں انسانیت کے قتل عام میں ملوث امریکی حکومت کے صدر کی باہوں میں ہاتھ ڈال کر رقص کرتے ہوئے نہ صرف مسجد اقصٰی کو نذرآتش کیا ہے بلکہ کعبۃ اللہ کوبھی نذر آتش کرکے رکھ دیا ہے، قبلہ اول کا تقدس پائمال ہوتا رہا تو ساتھ ہی ساتھ کعبۃ اللہ کے تقدس کو بھی پائمال کیا جاتا رہا اور دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ کی دعوت ایسے ماحول میں کی جاتی رہی کہ مسلمان دنیا کے حکمرانوں کو اس محفل کا پیادہ بنایا گیا۔


مسجد اقصٰی آج بھی جل رہی ہے اور اس جلتے ہوئے قبلہ اول کے شعلوں سے یہی صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ کیا مسلمانوں نے اپنے اسلاف کو فراموش کر دیا ہے؟ کیا پوری دنیا کے مسلمان اور ان کے حکمران اس بات پر راضی ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس سے ہمیشہ اسی طرح شعلے بلند ہوتے رہیں؟ کیا مسلم دنیا اس بات پر خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ ان شعلوں سے اٹھتی ہوئے صدائیں مسلم دنیا کے حکمرانوں سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا تم یمن اور قطر سمیت دیگر مسلمان ممالک کے خلاف ملٹری الائنس بنا بنا کر قتل عام کا بازار گرم کرتے رہو گے؟ کیا وقت نہیں آیا ہے کہ میری آزادی کے لئے تم کوئی ملٹری الائنس بناؤ؟ ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟


خلاصہ یہ ہے کہ مسجد اقصٰی آج بھی جل رہی ہے اور تقاضا کرتی ہے کہ مسلم دنیا اپنے اتحاد اور یکجہتی کی قوت سے اٹھ کھڑی ہو اور دنیا کی مظلوم قوموں کے حقوق کی آواز بلند کرے۔ جلتی ہوئی مسجد اقصٰی سے اٹھنے والے شعلے چیخ چیخ کر پکارتے ہیں اور مسلم دنیا کے سوئے ہوئے اور خیانت کار حکمرانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال کر اسلام و مسلمین کے ساتھ خیانت نہ کرو، قبلہ اول سے دستبرداری اور منہ موڑ کر پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ خیانت کاری سے گریز کرو۔ اٹھو اور جلتی ہوئی مسجد اقصٰی کے تحفظ کے لئے آگے بڑھو نہ کہ جلتی ہوئی مسجد اقصٰی کے لئے اسرائیلی ایندھن بنو۔

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
https://taghribnews.com/vdcgqz9xwak97w4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ