>> نئےامریکی صدر کی اسرائیل کے بارے میں مثبت سوچ | تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
تاریخ شائع کریں2017 25 January گھنٹہ 00:02
خبر کا کوڈ : 258066

نئےامریکی صدر کی اسرائیل کے بارے میں مثبت سوچ

اسرائیل کا اصلی مسئلہ ایران کا ایٹمی معاہدہ نہیں بلکہ شام میں ایرانی فوج اور حزب اللہ کی موجودگی ہے:اسرائیلی اخبار "هاآرتص"
نئےامریکی صدر کی اسرائیل کے بارے میں مثبت سوچ
ایک اسرائیلی اخبار "هاآرتص" نے نئی امریکی حکومت کی ممکنہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائیل کا اصلی مسئلہ ایران کا ایٹمی معاہدہ نہیں بلکہ شام میں ایرانی فوج اور حزب اللہ کی موجودگی ہے۔ اس لئے تل ابیب کو چاہیئے کہ وہ اس بارے میں امریکہ سے بات کرے۔

ایرانی خبر رساں ادارے فارس نیوز کے مطابق اسرائیل کی داخلی سلامتی کے حوالے سے تحقیقاتی ادارے کے ایک دانشمند "سیما شاین" (موساد کے شعبہ تحقیقات کے سابق ڈائریکٹر) نے اسرائیلی اخبار "ھاآرتص" میں شائع ہونے والی اپنی ایک تحلیل میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطٰی کے بارے میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے تبصرہ کیا ہے۔ سیما شاین نے لکھا ہے کہ آج کل بہت سے ماہرین ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ اسٹریٹجک خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ اب تک جو اشارے ملے ہیں، ان کے مطابق نئے امریکی صدر کی اسرائیل کے بارے میں سوچ انتہائی مثبت جبکہ ایران کے بارے میں ان کا موقف انتہائی منفی نظریات پر مبنی ہے۔

ایران کے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے صیھونی ریاست کی توجہ دو بنیادی نکات پر مبزول ہے، ایک ایران کی ایٹمی فعالیت اور اپنے سینٹری فیوجیز کی کارکردگی بڑھانے کیلئے کی جانے والی تحقیقات، دوم یہ کہ معاہدے میں ذکر شدہ وہ مدت جس کے گزر جانے کے بعد ایران قانونی طور پر آزادی سے یورینیم کی افزودگی کو صلاحیت کو بڑھا سکے گا۔ اس اسرائیلی دانشمند کے مطابق اسرائیل کو ابھی سے ان دو اہم موضوعات کے بارے میں امریکہ سے بات کرنی چاہیئے اور اس حوالے سے اہم معاہدوں کے بارے میں اتفاق رائے حاصل کر لینا چاہیئے، بے شک یہ اتفاق رائے اور معاہدے فوری طور پر انجام نہ پا سکیں۔ مقالے میں آگے جا کر لکھا گیا ہے کہ وہ نکتہ جو ایران کے ایٹمی معاہدے سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے، وہ شام میں ایرانی فوج اور حزب اللہ کی بڑے پیمانے پر موجودگی ہے۔ شام میں ایران کی موجودگی اور وہ بھی اس ملک کے جنوب میں واقع گولان کی پہاڑیوں کے نزدیک، مستقبل میں ایران کی یہ موجودگی اسرائیل کے لئے انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہوسکتی ہے۔ اس طرح لبنان کے ساتھ ساتھ یہاں سے بھی اسرائیل کے خلاف ایک نیا محاذ کھل سکتا ہے، جو آئندہ کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں اسرائیل کے پہلے سے موجود سناریو کو تبدیل کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق نئی امریکی حکومت سے ہونے والے مذاکرات میں اس اہم نکتے کو اسرائیلی ایجنڈے میں سرفہرست ہونا چاہیئے۔ اسرائیل کی خواہش یہ ہے کہ شام کے بحران کے حل کیلئے مستقبل میں جو بھی معاہدہ ہو، اس میں یہ مطالبہ شامل ہونا چاہیئے کہ شام میں موجود تمام غیر ملکی فورسز اس ملک سے نکل جائیں اور اسرائیل کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ اور روس کی بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسرائیلی تجزیہ نگار نے آگے جا کر لکھا ہے کہ اسرائیل کی خواہش کے مطابق ایسا ہونا آسان کام نہیں ہے، ایران اور روس شام میں موجود اپنے فوجی تعاون و ہمکاری کو آئندہ بھی جاری رکھنا چاہیں گے، کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا تجربہ ہے۔ روس ایران کو ایئر ڈیفنس سیسٹم ایس300 بھی فراہم کر چکا ہے، جس کی اسرائیل ایک عرصے سے مخالفت کرتا آ رہا تھا۔ اپنی تحلیل کے آخری حصے میں اس اسرائیل دانشمند نے لکھا ہے کہ نئی امریکی حکومت کی جانب سے ایران مخالف اقدامات، اس خطے میں ایران کے اثر و نفوذ کو کم کرنے کی خواہش اور دوسری طرف وہ قدرت اور اعتبار جو ایران شام اور عراق میں اپنے اہم کردار کی وجہ سے حاصل کرے گا، دونوں باہم متصادم ہیں۔ دوسری جانب نومنتخب امریکی صدر روس کے ساتھ بھی اپنے روابط کو بہتر کرنا چاہتا ہے، جبکہ روس آج کل ایران کے بہت نزدیک ہوچکا ہے، ادھر اسرائیل اور امریکہ کے نزدیکی روابط کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔
https://taghribnews.com/vdcg379x3ak9nz4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ