تاریخ شائع کریں2016 25 December گھنٹہ 17:26
خبر کا کوڈ : 254959

وہ پاکستان کہاں ہے، جس کیلئے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں،

وہ پاکستان کہاں ہے، جس کیلئے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں،
آج جب ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا (140واں) یوم پیدائش منا کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان پر عقیدت کے پھول نچھاور کر رہے ہیں، ایسے میں اس وقت کے حالات کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے موجودہ حالات اور ان کے پاکستان بارے خیالات و تصورات کو دیکھنا بے حد ضروری ہے۔ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا تصور قائد اعظم نے کیا تھا، جس کیلئے انہوں نے دن دیکھا نہ رات، آرام کا خیال کیا نہ صحت کا۔ میرے خیال میں پاکستان بھر میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا، جو یہ کہے کہ ہاں یہ وہی پاکستان ہے، جس کیلئے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں، گھر بار چھوڑے، خاندانی جائیدادیں اور دولت کو لات ماری اور اپنی آنکھوں میں سجے سنہرے خوابوں کی تعبیر کیلئے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ قائد اعظم اور ان کی ٹیم کے دیگر لوگوں میں بہت سے لوگ مخلص اور دیانتدار ہی ہونگے، اس لئے کہ اتنا بڑا کام اور اتنی بڑی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے مخلص ساتھیوں اور ان تھک ورکرز کی ضرورت جا بہ جا ہوتی ہے، جبکہ اگر لیڈر خود ایماندار، دیانت دار اور مخلص و انتھک ہو تو اپنے ہمراہی و ساتھی بھی اپنے مزاج کے مطابق چنتا ہے، قائد اعظم نے بھی اپنے آس پاس ایسے ہی لوگوں کو ترجیحاً رکھا ہوگا، یہ سب لوگ قائد اعظم کیساتھ ہی موت کا شکار نہیں ہوگئے تھے بلکہ زندہ و حیات تھے، پھر یہ لوگ کہاں چلے گئے تھے۔؟

قائد اعظم نے قیام پاکستان کی جو انتھک جدوجہد کی، اس کے بعد انہیں ایسا مرض لاحق ہوگیا جو ان کیلئے جان لیوا ثابت ہوا، یہ ہمارے نوزائیدہ مملکت کی بدقسمتی ہے کہ اس کا بانی ایسے مرحلہ پر اس سے جدا ہوگیا، جس مرحلے پر ان کی شدید ضرورت تھی۔ کیا ان کے ساتھی اور وہ لوگ جو ان کیساتھ ساتھ ہوتے تھے، قائد کی بے وقت رحلت کے بعد پاکستان کی اسی سمت میں قائم رکھ سکے، جس پر قائد چلانا چاہتے تھے، تو جواب نفی میں ملتا ہے، مشکلات میں گھرے نوزائیدہ مملکت میں قائد کی وفات کیساتھ ہی سازشیوں اور مفاد پرستوں نے اس پر قابض ہونے کیلئے پر تولنا شروع کر دیئے، جس کے باعث ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ارض پاک وطن بتدریج ایسے ایسے مسائل میں گھرتا چلا گیا، جن کے تدارک اور ان سے جان چھڑوانا آج ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ قائد اعظم کی بے مثال اور تاریخی قیادت و رہنمائی میں اس پاک سرزمین پر ہندوستان سے جدا ایک خالص نظریاتی و اسلامی ریاست کا وجود اور قیام ایک ایسی حقیقت ہے، جسے آج واحد اسلامی ایٹمی پاور ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں مسلم قومیت اور دو قومی نظریہ کے تصور کی بدولت قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت اور رہنمائی میں معرض وجود میں آنے والی سب سے بڑی نظریاتی اسلامی ریاست پاکستان کے قیام کی تاریخی جدوجہد کی مختصر داستان یہی ہے کہ پاکستان کا قیام زمانہ موجود کی اسلامی تاریخ کا ایک عدیم المثال واقعہ اور بے نظیر کرشمہ ہے۔

بلاشبہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ اس کی تعبیر کیلئے قائد اعظم نے ان تھک کوشش کی اور مسلمانوں کو ایک مثالی مملکت بنا کر دکھائی، اس مملکت کو اگر مستحکم اور مضبوط کرنا ہے تو اسے ایٹم بم سے زیادہ اس کی نظریاتی اساس کو مضبوط اور توانا کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بانیان کے ارفع خیالات و نظریات کو تقویت دے کر کیا جا سکتا ہے۔ ان اصولوں اور قوانین و ضوابط کو لاگو کرکے ہی اس مملکت اسلامی کو مضبوط کیا جا سکتا ہے، قائد اعظم بلا شبہ اسلامی مساوات، عدل، انصاف، احترام، اتفاق، جمہوریت اور شہری آزادیوں کے حامی تھے۔ وہ ہر قسم کے تعصبات اور تنگ نظریوں اور بلاجواز پابندیوں کے مخالف تھے۔ انہوں نے جنوبی ایشیا میں جداگانہ مملکت کیلئے اسی لئے جدوجہد کی کہ ہندو مسلمانوں کیساتھ متعصبانہ رویوں اور تنگ نظریوں کا مظاہرہ کرتے تھے اور اس کے مظاہر انہوں نے اس معاشرہ میں رہ کے محسوس کئے تھے۔ اگر ہم آج کے پاکستان کو دیکھیں تو ہمیں یہ تعصبات اور تنگ نظریوں میں گھرا ہوا نظر آتا ہے، ہمیں یہ راستے سے ہٹا ہوا نظر آتا ہے، ہمیں یہ اصولوں اور ضابطوں سے منحرف پاکستان نظر آتا ہے، ہمیں یہ کمزوروں اور مستضعفین کا پاکستان نظر نہیں آتا، ہمیں یہ قربانیاں دینے والوں کا پاکستان نظر نہیں آتا، ہمیں یہ ایثار گری کے مظاہرے کرنے والوں کا پاکستان نظر نہیں آتا، ہمیں یہ قائد اعظم اور اس کے وارثوں کا پاکستان نظر نہیں آتا، ہمیں یہ مفاد پرستوں اور موقعہ پرستوں کا پاکستان نظر آتا ہے، یہ ابن الوقتوں کا پاکستان نظر آتا ہے۔

اس لئے کہ آج یہاں انصاف ناپید ہوچکا ہے، عدلیہ بک چکی ہے، طاقتور قانون کو مکڑے کے جالے کی طرح سمجھتے ہیں، بے حسی اور بے غیرتی کا راج ہے، اس ملک پر جمہوریت پہ شب خون مارا جاتا ہے، طالع آزماؤں نے اپنی دنیا بنا لی ہے، جمہوریت کے دعویدار خاندانی بادشاہتیں قائم کرچکے ہیں، جنہیں ختم کرنا شائد کسی کے بس کی بات نہیں، نہ ہی کوئی اور قائد ہمارے پاس موجود ہے، جس کی قیادت و رہبری میں ہم اس پاکستان کو واپس لے آئیں، جس کیلئے محمد علی جناح نے دن رات ایک کیا تھا۔ ہماری بدقسمتی کا تو یہ حال ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما اور دین کے نام پر لوگوں کو عقیدت کے گھن چکر میں لوٹنے والوں کی لمبی قطار ہے، جو دین فروشی کا کام کرتے ہیں، جو انسانوں کو خون میں نہلانے اور خون کی ندیاں بہانے کے ٹھیکے لیتے ہیں، جو عبادت گاہوں کو خون کی نہریں بنانے کا ہنر جانتے ہیں، جو انسانوں کو چیتھڑوں میں تبدیل کرنے کا کام کرتے ہیں۔ آج ہمارے ہاں ایسے قائدین و رہنماؤں کی کمی نہیں جو لوٹ مار، کرپشن کے عالمی ریکارڈ قائم کرکے بھی آزاد ہیں، سیاست کا یہ حال ہے کہ یہ طاقتوروں اور پیسہ والوں کا کھیل تماشا بن چکی ہے، آج قائد کے پاکستان کے جس بھی شعبہ پر نظر دوڑائیں، مسائل کے انبار دکھائی دیتے ہیں، مسائل بھی ایسے جو حل ہونے کی جانب بڑھنے کی بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں،گویا پاکستان نہیں ایک مسائلستان معرض وجود میں آچکا ہے۔ اس مسائلستان کے حل کی کنجی اور چابی قائد کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط ہی ہیں، اتحاد، ایمان اور تنظیم کا نعرہ ہم نے ہر جگہ لکھ کے لگایا ہوا ہے، مگر اس کو عملی جامہ پہنانا کسی کی ترجیح اور سوچ میں نہیں۔

آج ہر دردمند پاکستانی یہ سوچ رہا ہے کہ قائد نے اسلامی، فلاحی ریاست کا جو خواب دیکھا تھا، قائد نے رواداری، مساوات اور انصاف کا جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر الٹ ہوگئی ہے، اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اب تو ہم مایوس سے ہونے لگے ہیں، ستر برس کافی ہوتے ہیں قوموں کے عروج و زوال اور رشد و ترقی کیلئے، آگے بڑھنے اور کامیابیوں کے سفر کو طے کرنے کیلئے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم مایوسیوں کی اس گھٹا میں ہی گھٹ گھٹ کے جیئیں گے، بلکہ روز جیئیں گے روز مریں گے، مایوسیوں کی اس گھٹا میں بعض اہل دل اور پرامید لوگ بھی ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنے والا ہے، جب ہر سو اجالا ہوگا، ہریالی ہوگی، خوشحالی ہوگی، قانون کی رکھوالی ہوگی، جب ہمارے ملک میں قائد کے فرامین اور خوابوں کی عملی تعبیر ہوگی اور خوف خدا، احترام آدمیت، حقیقی جمہوریت کا نفاذ اور شہری آزادیوں کے تحفظ کا دور دورہ ہوگا۔ عوام کی امنگوں اور آرزوؤں کی تکمیل ہوگی، جب عدل و انصاف کا پرچم سربلند ہوگا، جب احتساب کا حقیقی رنگ جمے گا، جب کرپشن سے پاک اور دیانت سے سرشار ادارے اور قیادتیں سامنے آئیں گی، جب قانون کی حکمرانی کا راج ہوگا۔ جب ذرائع پیداوار اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہوگی اور جب غربت جہالت کا خاتمہ ہوگا، جب عام پاکستانی سکھ اور چین کا سانس لے سکیں گے۔ جب یہ ملک اپنے قیام کے مقاصد اور اس کی خاطر قربانیاں پیش کرنے والوں کی امیدوں کا محور و مرکز بنے گا۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر
https://taghribnews.com/vdcdko0xnyt0kn6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ