تاریخ شائع کریں2017 13 June گھنٹہ 19:59
خبر کا کوڈ : 271455

قطر کی مخالفت اور سعودیہ کے سیاسی اہداف

قطر اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بدترین صورت حال اختیار کرتی جارہی ہے
قطر کی مخالفت اور سعودیہ کے سیاسی اہداف
قطر اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بدترین صورت حال اختیار کرتی جارہی ہے اور اس میں مزید اضافہ اُس وقت دیکھنے میں آیا جب سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک، جن میں مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں، نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں قطر سے تعلق رکھنے والے 59 افراد اور 12 تنظیموں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا۔

اگر کوئی خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کی سیاست سے واقف ہے تو وہ اس حقیقت کو جانتا ہوگا کہ 6 ملکی خلیجی ممالک کے بلاک میں اٹھائے جانے والے حالیہ اقدام کی نظیر گذشتہ 3 دہائیوں کی تاریخ میں نہیں ملتی جبکہ پردے کے پیچھے سازش اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا کوئی نئی بات نہیں ہے، کسی ایک ریاست کے لیے اس قسم کے سخت اقدامات عرب ممالک کے درمیان تنازعات کے عکاس ہیں۔ جی سی سی میں جنگ کی لکیر کھینچی جاچکی ہے، جس کے مطابق سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ مل کر قطر کو الگ تھلگ کردیا ہے جبکہ کویت اور عمان سمیت جی سی سی کے دیگر ارکان اس گروپ میں شمولیت کو مشکل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

قطر سے متعلق بنائی گئی دہشت گردی کی فہرست کے حوالے سے دو اہم نکات جاننے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ انتہائی اہم دہشت گردوں اور ان کے حمایتوں کے علاوہ اس فہرست میں قطر کے اہم عہدیداروں اور قطر کے تاجروں، حکومتی حکام، قطر کے حکمران خاندان الثانی کے لوگ، مصر کے جلاوطن عالم یوسف القرضاوی، جنہیں اخوان المسلمون کا روحانی پیشوا سمجھا جاتا ہے، شامل ہیں۔

عرب اتحاد کی جانب سے ترتیب دی گئی فہرست میں عبدالعزیز العطیہ، جو قطر کی بلئرڈس اور اسنوکر فیڈریشن کے سربراہ کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ قطر کی اولمپک کمیٹی کے رکن بھی ہیں، عبدالرحمٰن بن عمیر النعیمی، جو قطر کی فٹبال ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ہیں اور عبداللہ بن خالد الثانی، جو قطر کے شاہی خاندان کے فرد اور سابق وزیر داخلہ و موقوفات بھی رہ چکے ہیں، شامل ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے میڈیا میں اس فہرست میں شامل افراد کی دہشت گردی کی حمایت کے حوالے سے کافی تفصیلات شائع ہوئی ہیں، مثال کے طور پر، کچھ افراد پر امریکا اور اقوام متحدہ نے دہشت گرد گروپ القاعدہ کی امداد کے سلسلے میں پابندی عائد کی تھی، الزامات کی یہ فہرست بہت سال پہلے 2008 میں ترتیب دی گئی تھی؛ تو کیوں اچانک سے یہ تفصیلات 2017 میں بڑھا چڑھا کر پیش کی گئیں؟ درحقیقت ان میں سے بیشتر نام امریکا اور اقوام متحدہ کی فہرست سے لیے گئے ہیں جو کافی سال قبل بنائی گئی تھی، جس میں القاعدہ اور شام میں موجود اس سے جڑے ذیلی گروپوں سے تعلقات بتائے گئے ہیں، جن میں داعش کا معمولی سا ذکر بھی ملتا ہے۔

اس کے علاوہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسلامی سیاسی جدوجہد اخوان المسلمون کو کالعدم القاعدہ اور داعش جسے گروپوں سے ملایا۔ یہ ایک انتہائی عجیب سی درجہ بندی ہے، کیونکہ اخوان المسلمون ایک قدامت پرست مذہبی سیاسی طاقت ہے اور یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ کیونکر اسے شدت پسند عسکری تنظیموں کے گروپ میں شامل کیا گیا۔

اخوان المسلمون کے محمد مرسی جو جدید مصر کی سوچ کے حامل تھے، نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی؛ دوسری جانب القاعدہ اور داعش جمہوریت کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ شاید عرب بادشاہوں کو سب سے زیادہ مشکل یہ ہے کہ اخوان المسلمون اور اس سے متاثر گروپس جمہوریت کو اسلام کے مطابق ڈھال رہے ہیں، جو مطلق العنان حکمرانی کی قانونی حیثیت کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔

جبکہ یوسف القرضاوی کو قدامت پرست علماء میں تعظیم دی جاتی ہے، انہیں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دینا دیوانہ پن ہے، خاص طور پر اس وقت جبکہ انتہائی سخت گیر سلفی علماء سعودی عرب کی عدالتوں میں موجود ہیں۔

دوسرا نکتہ جس پر خاص طور پر توجہ دی جانی چاہیے، وہ یہ ہے کہ سعودی اور کچھ حد تک متحدہ عرب امارات پر بھی ایسے ہی گناہ کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جس میں ریاض اور ابو دبئی، دوحہ کو ملوث قرار دے رہے ہیں۔

مثال کے طور پر جب یہ شام کے تنازع کے حوالے سے ہو تو سعودی عرب ایسی فورسز کی حمایت کررہا ہے جو اعتدال پسند تصور نہیں کی جاتیں۔ یہ متعدد مرتبہ رپورٹ ہوچکا ہے کہ داعش کے ساتھ لڑنے کے لیے ہزاروں سعودی باشندوں نے اپنے ملک کو چھوڑا اور اب جبکہ سعودی ملک میں شدت پسندی کو کم کرنے کے دعوے کررہے ہیں ایسے موقع پر شام میں ان کی حمایت کا طریقہ کار سوالات اٹھا رہا ہے۔

مثال کے طور پر اگر ہیلری کلنٹن کی قریبی دوست جان پودیستا کی لیک ای میل کو مد نظر رکھیں، جس میں ان کا کہنا تھا، ’ہمیں اپنے جمہوری اور اس سے زیادہ روایتی انٹیلی جنس اثاثوں کو قطر اور سعودی عرب کی حکومتوں پر دباؤ کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، جو داعش اور دیگر شدت پسند سنی گروپوں کو خفیہ مالی امداد اور لاجسٹک حمایت فراہم کررہے ہیں‘۔

اور اس بیان کے بارے میں کیا کہیں گے جو سابق امریکی نائب صدر جیو بائیڈن سے منسلک ہے، جنہوں نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کو ’کروڑوں ڈالر اور لاکھوں ہتھیار بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے کسی بھی فرد کو فراہم کرنے کا الزام عائد کیا۔۔۔۔ جو النصرہ فرنٹ، القاعدہ اور دیگر شدت پسند عناصر کو فراہم کیے گئے جو دنیا کے دیگر حصوں سے آرہے ہیں‘۔

واضح طور پر ان ممالک کے سلفی عسکریت پسندی کے ساتھ پیچیدہ تعلقات ہیں، جبکہ ان کی حکومتیں اس میں براہ راست ملوث نہیں، خلیجی ریاستیں شاید عراق اور شام میں شدت پسند گروپوں کو نجی طور پر فنڈز فراہم کررہی ہیں، تو ریاض کا قطر پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام اس کے برعکس کچھ عجیب معلوم ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنا انتہائی خطرناک حکمت عملی ہے، تیل سے مالا مال ان ریاستوں کی پروپیگنڈا مہم خطے کی ریاستوں کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، جس میں داعش اور خطے کی دیگر شدت پسند گروپوں کو غیر مؤثر کرنے کے لیے اتحادی فورس میں شمولیت شامل ہے اور عرب ریاستیں اسے جس قدر جلد محسوس کرلیں گی، وہ بہتر ہے۔
https://taghribnews.com/vdcdkf0xkyt05o6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ