تاریخ شائع کریں2017 9 February گھنٹہ 17:39
خبر کا کوڈ : 259593

سات مسلم ممالک کے لوگوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی

سات مسلم ممالک کے لوگوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلم ممالک کے لوگوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کے حکم نامے کے بعد اس اقدام کے خلاف انصاف پسندوں کی جانب سے دنیا بھر سے آواز اٹھائی گئی۔ متعدد ممالک میں احتجاج کیا گیا۔ یورپ میں اعلیٰ ترین سطح سے امریکی اقدامات کی مذمت کی گئی۔ اگر بدقسمتی سے آواز نہ اٹھی، صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی تو صرف مسلم ممالک کی جانب سے۔ امریکہ سے سوال پوچھنے کی بجائے کچھ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی تعجب خیز طور پر اس فیصلے کی حمایت کی۔ عرب ممالک کی حمایت کو سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ پابندی زدہ ممالک میں ایران بھی شامل ہے، اور آنکھیں بند کر کے عرب ممالک کے پیچھے چلنا پاکستان کی روایت ہے۔ اب ٹرمپ انتظامیہ سے جو سوال مسلم ممالک کو پوچھنا چاہئے تھا وہ امریکی عدالت پوچھ رہی ہے۔ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں جج نے سوال اٹھایا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے عائد کی جانے والی سفری پابندیاں صرف مسلمانوں کے خلاف ہیں؟اگر اس پابندی سے دنیا کے صرف 15 فیصد مسلمان بھی متاثر ہو رہے ہوں تو کیا یہ پابندی امتیازی سلوک نہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ بدستور اپنے شرمناک موقف پر ڈٹی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کانگریس اور عوام نے صدر کو ایسے فیصلوں کا مجاز بنایا ہے۔ امریکی محکمہ انصاف نے ایک بار پابندی بحال کرنے کی اپیل کی۔ جبکہ ریاست واشنگٹن کے وکیل نے عدالت کے روبرو صدر ٹرمپ کے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ بیانات کا حوالہ دیا اور بتایا کہ ان بیانات سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
 
اسے مسلمانوں کی بدقسمتی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر کے اقدامات کیخلاف صرف یورپ سے توانا آواز اٹھی۔ مسلم امہ کی قیادت بدستورچین کی نیند سو رہی ہے۔ مسلم ورلڈ کے قائد ہونے کے دعویدار سعودی عرب اور پاکستان نے امریکی اقدامات کی حمایت کر کے اس تاثر کو پختہ کیا کہ سعودی مسلکی تفریق پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان سعودیوں کی سخاوت کے مزے لوٹنے کے سبب ان کی حمایت کو فرض عین سمجھتے ہیں۔عام مسلمانوں میں ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کے حوالے سے شدید غصہ پایا جاتا ہے مگر حکمران اس غصے کو کسی خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔
 
یہاں مسلمان مہاجرین کا ذکر کرنا بھی لازم ہے جن کیلئے یورپ اور کینیڈا سمیت غیر مسلم ممالک نے اپنے دروازے کھول دیئے۔ انہیں سہولیات فراہم کیں۔ پیار دیا۔ عزت دی اور سر چھپانے کی جگہ۔ مگر کسی مسلمان ملک میں دل میں اپنے مہاجرین بھائیوں کے درد نہیں جاگا اور نہ ہی کسی نے ان کیلئے ہمدردی کے دو بول بولے۔ مہاجرین کی مشکلات کم کرنا تو کجا مسلمان ممالک مسلک کی بنیاد پر اس بحران کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کو گالیاں دینے والے مسلمانوں کیلئے یہ کسی تازیانے سے کم نہیں کہ ان کے حق میں آواز وہیں سے اٹھ رہی ہے جن پر دن رات مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ 
https://taghribnews.com/vdccooqi12bqpp8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ