تاریخ شائع کریں2017 10 February گھنٹہ 15:31
خبر کا کوڈ : 259682

انقلاب ِ اسلامی ایران ۔ کیوں اور کیسے؟

انقلاب ِ اسلامی ایران ۔ کیوں اور کیسے؟
گزشتہ صدی کے آئینہ میں براعظم ایشیا کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تو یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ اس تمام عرصہ میں انقلابی فکر اور قیادت نے خصوصاً مسلمانوں کو ایک نئی کیفیت سے آگاہ کیا۔ برصغیر اور خلافت عثمانیہ کے واقعات نے گزشتہ صدی کے اوائل سے ہی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم اسلامی ملک کی حکومت ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والوں کے لیے راہ ہموار کر رہی تھی کسے خبر تھی کہ بیسویں صدی میں ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جو عوام کی فکر میں ایک نئی روح پھونکے گا اور ’’مرد انقلاب‘‘ کہلائے گا۔ حجۃ الا سلام سید روح اللہ خمینیؒ وہ تاریخ ساز نام ہے جس نے انقلاب کی جنگ استقامت کے ساتھ لڑی۔ یہ حقیقت ہے کہ جب فریقین میں فکر کا تضاد ہوتو کر بلا جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں کوئی یزید بن جاتا ہے تو کوئی حسین ؑ !! ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ صدی کے دوران ایران میں رونما ہوا جس نے انقلاب اسلامی کی راہ ہموار کی۔

انقلاب ِ اسلامی ایران ۔ کیوں اور کیسے؟

۲۰۱۶؁ء کی آمدنے نے انقلاب اسلامی ایران کے ۳۷سال مکمل کر دیے ہیں ۔ ان سینتیس سالوںکا پس منظر شاہ ایران کی جبری حکومت پر محیط ہے ۔ یہ انقلاب کیونکرممکن ہوا، آئیے اس کی حقیقت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
تاریخی جائزہ
مغربی حکومتوں نے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے عالم اسلام کے وسیع علاقوں پر جبری قبضہ کیا اور وہاں تشدد ، مال و طاقت کی بدولت استعماری طاقتوں کی خفیہ اور برملا مداخلت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایران میں بھی کئی سلاطین برسر اقتدار آئے اور عوام پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے مگر ایران کے دیندار عوام نے اس نو آبادیاتی نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طریق کار کی ناکامی پر دشمن کے سر غنہ یعنی امریکہ نے اپنی حکومت عملی تبدیل کر دی اور یہاں کے وسائل حضو صاتیل کی دولت پر قبضہ کرنے کی ٹھانی اور ایران کی شاہی حکومت کے ذریعے مغربی طرز حکومت کی بنیاد رکھنے کا منصوبہ بنایا۔

چونکہ ایرانی عوام ایک طویل عرصہ سے ظلم و استبداد کا مقابلہ کرتے آرہے تھے لہٰذا انہوں نے سلسلہ شاہی سے بغاوت کا اعلان ایک با قاعدہ تحریک کے ذریعے کیا ۔ ۱۸۹۱ ؁ء کے دوران ’’تحریک تمباکو ‘‘ میں عظیم مجاہد اور عالم آیت اللہ العظمی مرزا حسن شیرازی کے فتوے ، سید جمال الدین اسد آبادی (افغانی ) کے اصلا حی پیغام اور مغربی سا مراج کے خلاف ایران و عراق کی تحریک سے یہ بات آشکار ہو چکی تھی کہ ایرانی عوام کے دلوں اور ذہنوں پر علمی قیادت مکمل طور پر قابض ہے لہٰذا امریکہ نے دین کو سیاست سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے مقصد کے حصول کی خاطر پہلوی خاندان کا سہارا لیا۔ امریکی معاون بر طانیہ نے رضا خان کے بیٹے محمد رضا کو ۱۹۴۱؁ء میں ایران کا بادشاہ بنادیا۔ ایرانی عوام باشعور علماء کی قیادت میں اپنی منزل (اسلامی حکومت کے قیام) کی طرف رواں دواں تھی۔ ان صف ِ اول کے رہنمائوں میں سے ایک شخصیت نے خود کو سب سے الگ اور جُد اثابت کر دیا۔ اُس میں کیا تھا اور کیا نہیں؟ ایک عام آدمی شاید درک نہ کر سکے مگر شاعر کے قلم کو کون روک سکتا ہے؟

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری              ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری 
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری                    کو کب قسمت امکاں ہے خلافت تیری 
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے                نور تو حید کا اتمام ابھی باقی ہے

سید روح اللہ موسوی خمینیؒ جیسے مرد مومن نے اپنے ہاتھوں سے نور ِ توحید کی شمع باقی رہنے کا سامان پیدا کیا تو باطل کی تاریکی خود بخود روشنی میں تبدیل ہو گئی۔ بھلا اس حقیقت کو کون جُھٹلا سکتا ہے کہ ہراندھیری رات ایک روشن دن پر ختم ہوتی ہے۔

امام خمینی ؒ کا مختصر سوانحی خاکہ

آپ ؒ کی تاریخ پیدائش ۲۰ جمادی الثانی ۱۳۲۰ ق مطابق ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ ء؁ اور جائے ولادت ضلع خمین (ایران ) ہے ۔ آپؒ کے والد گرامی مرحوم آیت اللہ سید مصطفی موسویؒ ، آٰیت اللہ العظمیٰ میر زائے شیر ازیؒ کے ہم عصر تھے اور نجف اشرف میں کئی سال اسلامی علوم حاصل کر کے درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے حکومت وقت کے خلاف حق پرستی کی حمایت کا صلہ شہادت کی صورت میں آپؒ کو دیا گیا ۔ خمینیؒ کے لیے یہ تمام صورتحال اجنبی تھی کیونکہ اُس وقت آپؒ کی عمر محض پانچ ماہ تھی۔ آپؒ کی والدہ بانو ہاجر جرأت اور علم و تقویٰ کا پیکر تھیں لہٰذا آپ ؒ کی تربیت پر خاص تو جہ دی۔

لڑکپن سے لے کر بلو غت تک آپ ؒ نے اُس زمانے کی مرو جہ تعلیمات اور دینی مدارس کا نصاب مختلف علمائے کرام سے حاصل کیا ۔ علمی حصول کی خاطر آپ ؒ نے سفر بھی اختیار کیا اور اراک سے ہوتے ہوئے قم کے حوضہ ٔ علمیہ میں تعلیمی مراحل طے کیے۔ جلد ہی آپ ؒ فقہ ، اصول فقہ ، فلسفہ، عرفان و سلوک اور اخلاقیات کے شعبوں میں ایک صاحب نظر استاد اور مجتہد کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ شعور کی منزل پر قدم رکھتے ہی امام ؒ نے ایرانی سیاست کو مشکل ترین حالات سے دو چار پایا۔

سیاسی جدوجہد

امام خمینی ؒ کی علانیہ سیاسی جدوجہد کا آغاز اُس بل کی منظوری پر ہوا جسے امیراسد اللہ اعلم کی کا بینہ نے منظور کیا تھا ۸ اکتوبر ۱۹۶۲ء کے اس بل میں علاقائی وصوبائی کو نسلوں کے رائے دہندگان اور امیدواروںمیں غیر مسلموں کی شمولیت ، خواتین کو انتخاب میں حصہ لینے کی آزادی اور قرآن مجید کی بجائے آسمانی کتابوں پر حلف اٹھانے کے امور شامل تھے۔ مذکورہ بل کی منظوری کی اطلاع ملتے ہی امامؒ نے قم اور تہران کے دیگر علماء کے ساتھ مشورے کے بعد بھر پور مخالفت کا اعلان کیا۔ حکومت کے خلاف علماء اور طلباء کی جد وجہد رنگ لائی اور نتیجے کے طورپر شاہ کی حکومت نے بل پر عمل درآمد روک دیا۔ پہلے وار کی ناکامی کے بعد ’’ سفید انقلاب ‘‘ شاہ حکومت کی طرف سے ایرانی عوام پر دوسرا وار تھا۔

دراصل سفید انقلاب امریکہ کی ایماپر تیار کیا گیا ایک منصوبہ تھا۔ جس میں چھے نکات پیش کئے گئے تھے۔ اس منصوبہ پر عوام کی تائید حاصل کرنے کے لیے ریفرنڈم کا اعلان کیا گیا ۔ چونکہ یہ منصوبہ زمین داری نظام کے خاتمے، جنگلات کو قومی تحویل میں لینے، سرکاری خزانوں کے حصص کو فروخت کرنے ، کار خانوں کے منافع میں مزدوروں کے حصے، انتخابات کے قوانین میں اصلاح اور سپاہ دانش (جاسوسی ایجنسی ) کے قیام پر مشتمل تھا، اسلیے علماء نے ایک بار پھر اس کی شدید مخالفت کی اور ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر دیا۔ بہت قلیل عوام نے رائے دی لیکن حکومت نے ’’ سفید انقلاب‘‘ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس پر لوگ سٹرکوں پر نکل آئے احتجاج کے سلسلے کو روکنے کے لیے انتظامیہ اور ساواک نے لاٹھیوں اور گولیوں کا استعمال کیا مگر وہ انقلابی ہجوم کو قابونہ کر سکے۔ دوسرے وارکی ناکامی پر علماء پر مظالم کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ مذہبی مطبوعات پر پابندی لگا دی گئی اور علماء کی زمینیں اور جائیداد چھین لی گئیں۔

۳ جون ۱۹۴۳ ؁ء یعنی یوم عاشورہ کے موقع پر امام ؒ کا خطاب انقلاب اسلامی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس تقریر میں آپؒ نے جرات مندی سے شاہ اور اسرائیل ( امریکی ایجنٹ) کے خفیہ تعلقات کو فاش کیا۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر قم کی شاہرا ہوں اور گلیوں میں ’’مرگ بر شاہ ‘‘ ’’ ما شاہ نمی خواہم‘‘ کے نعرے لگاتا رہا۔ تحریک کی آواز کو دبانے کے لیے آپؒ کے ساتھیوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کر لیا گیا اور ۵ جون ۱۹۶۳؁ء کو امام ؒ کو بھی اُن کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے تہران بھیج دیا گیا۔ قائدِ انقلاب کی گرفتاری کی خبر پور ے ملک میں پھیل گئی اور حالات کشیدہ ہوگئے ۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامیہ مارشل لاء نافذ کرنے پر مجبور ہوگئی۔

عوام کے مسلسل احتجاج کے نتیجے میں آپؒ کو ۱۲ اگست ۱۹۶۴ء؁ کو رہا کر دیا گیا۔ اس رہائی نے شمع تو حید کے پروانوں کے جذبات کو اور ہوادی اور وہ اپنے ہر دلعزیز رہنما کے استقبال کو کو بڑھتے چلے آئے۔ حکومت کے لیے یہ سماں ایک اُلجھن بن گیا کہ وہ آقای خمینیؒ کو رہا کر ے یا مسلسل قیدمیں رکھے !! اس کا حل یوں تلاش کیا گیا کہ آپؒ کو نظر بند کر دیا گیا۔ اسد اللہ اعلم کی حکومت تبدیل ہونے کے بعد نئے وزیر اعظم حسن علی منصور نے مصلحتاًعلماء کی طرفداری کرتے ہوئے قائد کی نظر بندی ختم کر دی اور انہیں رہا کر دیا۔ دشمن کی مسلسل ناکامی نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر نیت نیک ہو اور سفر کا مقصد واضح اور متعین ہو تو منزل تک پہنچنا چنداں مشکل نہیں ہوتا۔ بقول شاعر

اگر سچی لگن ہو تو بہت سو چا نہیں کرتے        کوئی رستہ کٹھن ہو تو بہت سوچا نہیں کرتے 
خدا کا نام لیتے ہی نکل پڑتے ہیں منزل کو          ارادہ بے شکن ہو تو بہت سوچا نہیں کرتے

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں!

۱۵ جنوری ۱۹۶۳؁ء کو شاہ کی حکومت نے سینٹ میں ایک بل پیش کیا ۔ اس بل کا پس منظر ایران میں امریکی فورسز کی تعیناتی، ان کے تحفظ کی ضمانت اور مطلق العنانیت کے لیے عدالتی و قانونی رکاوٹ کا خاتمہ تھا۔ یہ بل ۲۵ جولائی ۱۹۶۴؁ء کو منظور کر لیا گیا۔ اسے Capitulationکا بل کہتے ہیں۔ امام ؒ نے اِس بل کی حیثیت کو حسبِ سابق ماننے سے انکار کر دیا اور ایک زبردست تقریر کے ذریعے بل کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایک بار پھر عوام آپـ کی آوازپر لبیک کہتی ہوئی احتجاج کے میدان میں اُتر آئی ۔ تمام ملک شاہ مخالف نعروں سے گونج اٹھا۔ تحریک کا یہ دور نہایت دلچسپ صور تحال اختیار کر چکا تھا۔ امامؒ کی گرفتاری ماضی کا تلخ تجربہ بن چکی تھی جسے دہرانا عوام کی صفوں میں ہیجان پیدا کرنے کے مترادف تھا ۔ اس کے علاوہ آپ ؒ کو جان سے مار دینے کی صورت میں بھی ملک کے اندر بغاوت کا خدشہ تھا۔ شاہی حکومت تقریباً تمام جنگی وار آزما چکی تھی اور اب شدید ذہنی کشمکش کا شکار تھی۔ اب اس کے ترکش میں ایک ہی تیرباقی بچا تھا جسے بلا تذبذب آزمایا گیا ۔ ۴نومبر ۱۹۶۴ ؁ء کو امامؒ کو قم سے گرفتار کر کے سیکیورٹی فورسز نے تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر پہنچا دیا جہاں سے ایک طیارہ کے ذریعے آپ ؒ کو ترکی (انقرہ) لے جایا گیا۔ امتحان کی ایک نئی منزل پر آپؒ قدم رکھ چکے تھے جس میں آپ ؒ کے فرزند آیت اللہ حاج آقای مصطفیؒ بھی شریک سفر تھے۔

امام خمینیؒ کی جلاو طنی کے واقعہ تک اگر اُن کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ۱۴۰۰ سال قبل کی ایک شخصیت کی زندگی کے چند مناظر ذرامختلف انداز سے دوبارہ اُبھر آئے ہوں۔ ہوش سنبھالتے ہی یتیمی کے کی کیفیت سے آشنا ہو جانا، لڑکپن کے زینے پر قدم رکھتے ہی یسیر ی کا غم اُٹھا نا، صبرو ہمت کی ہمراہی اور علم و عمل کی صحبت میں وقت گزارنا، انقلابی فکر کے ساتھ میدان جہاد میں اُترنا، حق کا پر چار اور کفر کا انکارکرنا، اور ایک منزل پر اپنے وطن کو خیرباد کہنا ۔ یہ وہی منظر ہے کہ جب نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دین کی بقا کی خاطر اپنے وطن ( مکہ مکرمہ) کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کسے خبر تھی کہ آج کامہاجر کل کا فاتح بن کر واپس اپنے گھر لوٹے گا۔ پس یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ اپنے محبوب ؐ جیسی زندگی گزارنے والا شخص بھی اپنے وطن کو واپس آنے کے لیے چھوڑ رہا ہے۔ ترکی میں جلا وطنی کے دوران آپؒ کی سیاسی سر گرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی مگر آپؒ نے کتاب’’ تحریر الوسیلہ‘‘ کی تصنیف مکمل کی ۔ یہ کتاب امامؒ کے فقہی فتاوی پر مشتمل ہے جس میں جہاد ، دفاع، امربا لمعروف و نہی عن المنکر پر عصری تقاضوں کے مطابق فتوے دیے گئے تھے۔ اس عرصہ میں حکومت کا فی حد تک عوام کی جہادی قوت کو کچلنے میں کامیاب ہو گئی ۔ دوسری طرف قائد انقلاب خطوط کے ذریعے علماء کو جہاد جاری رکھنے کی تاکید کرتے رہے ۔ ۴ اکتوبر ۱۹۶۵؁ء کو ترکی کی حکومت نے مذہبی حلقوں کے دبائو میں آکر آپؒ کو عراق بھیج دیا۔ نجف اشرف میں بھی آپؒ ایرانی علماء کو بذریعہ قلم مشن جاری رکھنے کی ترغیب دیتے رہے ۔ ۱۹۷۰؁ء کے اوائل میں اسلامی حکومت یاولایت فقیہ کے موضوع پر درس کا آغاز کیا۔ بعد میں یہ دُروس کتابی شکل میں شائع ہو کر ایران ، عراق اور لبنا ن پہنچے ۔ اس کتاب میں انقلابی و جہادی مقاصد کو بیان کرنے کے علاوہ اسلامی حکومت کی فقہی ، اصولی اور عقلی بنیادوں پر تشریح کی گئی تھی۔

اُدھر ایران میں شاہ بھرپور انداز سے اپنی تہذیب کے فروغ میں مصروف عمل تھا۔ غیر ملکی ثقافت کا پر چار، امریکی اور یورپی کمپنیوں کے ہاتھوں ایران کے تیل کے ذخائر کی لوٹ کھسوٹ اور امریکی سراغ رساں ایجنسیوں اور فوجی اڈوں کا قیام جیسے مقاصد اُس کے منصوبہ کا حصہ تھے۔ اپنے رہبر کی غیر موجودگی کے باوجود ایرانی قوم ہر سال ۵جون کو یوم تحریک انقلاب کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ جہاد کا بھی عہد کرتی رہی۔

اسلامی انقلاب نقطۂ عروج پر

۱۹۷۷؁ء میں امامؒ کے فرزند آیت اللہ مصطفی ؒ کی شہادت نے ایران کے مذہبی معاشرے کی تحریک کا ازسر نو آغاز کر دیا۔ بیٹے کی شہادت پر امام خمینیؒ کا صبر و استقلال قابل تعریف تھا۔ بھلا حسین ؑ کے ماننے والے اپنے فرزند کو قربان کرنے سے پیچھے ہٹے ہیں؟ پس ادھر عوام کی قوت سڑکوں پر نکلی ، ادھرشاہ کی گولی چلی ۔ جمشید آموز گار اور جعفر شریف امامی (ایرانی وزرائے اعظم) جیسے پٹھوئوں نے حالات پر قابو پانے کی سعی کی مگر ناکام رہے۔ عراقی حکومت نے آقای خمینیؒ سے کہا کہ اگر آپ ؒ عراق میں قیام پذیر رہنا چاہتے ہیں تو سیاست میں حصہ لینا چھوڑ دیں۔ آپ نے مصالحت کی بجائے ہجرت کو فوقیت دی اور پیر س جانے کا فیصلہ کیا ۔ شریف امامی کی نا قص حکمت عملی کی وجہ سے اُسے اقتدار سے جلدہی دست بر دار ہونا پڑا۔ جبہہ ملی ( قومی محاذ) کا رہنما’’ شاہ پور بختیار‘‘ امریکہ کا آخری پٹھو تھا جسکا نام شاہ کے سامنے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے تجویز کیا گیا۔ مگروہ ۱۶ جنوری ۱۹۷۹ ؁ء کو ایران سے فرارہوگیا۔ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھا کیونکہ امامؒ کے خصوصی پیغامات نے عوام میں ولولہ پیدا کر دیا تھا اور شورائے انقلاب (انقلابی کو نسل) کی تشکیل نے اُس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا تھا، سو اُس نے راہ فرار اختیار کی۔

پہنچی و ہیں پہ خاک ۔۔۔

یکم فروری ۱۹۷۹؁ء کی صبح ۱۴ سال وطن سے دُور رہنے کے بعد امام خمینیؒ ایران واپس تشریف لائے ۔ ایرانی عوام نے اپنے قائد کے استقبال کے لیے دیددہ و دل بچھا دیے ۔ آپؒ نے وطن واپس آتے ہی قوم کی حمایت سے حکومت بنانے کا اعلان کیا بختیار کی دم توڑتی ہوئی حکومت نے آخری کوشش کے طور پر فوجی بغاوت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا نے کا حکم دیا ۔ کر فیونافذ ہونے کے باوجود امامؒ نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو گھروں سے نکل جانے کا حکم دیا۔ تہرانی عوام لبیک کہتی ہوئی سٹرکوں پر نکل آئی اور شاہی حکومت کی آخری کوشش بھی ناکام ہو کر رہ گئی ۔ ۱۱ فروری ۱۹۷۹ ؁ء کی صبح کو ایران میں امام خمینیؒ کی تحریک اور اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوا۔ اور ظالم بادشاہوں کا طویل سلسلہ بادشاہت بھی ختم ہوگیا۔

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے!

انقلاب اسلامی ایران کی اصل رُوح امام خمینی ؒ کے دینی افکار و اذ کار اور اُن کا پر چار ہے۔ انقلاب کی کامیابی سے مراد اسلامی روحانی اقدار کے فروغ کے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک میں آزادی کی تحریکوں کی لہر کو متحرک کرنا ہے۔ آیت اللہ روح اللہ خمینیؒ نے بر سر اقتدار آنے کے بعد تحریر و تقریر کے ذریعے اُمت مسلمہ کی فلاح ، یگانگت اور مغربی ثقافت کی یلغارسے بچائو کے لیے وعظ و نصیحت کا سلسلہ بر قرار رکھا۔ آپ مسلمانوں کے مسائل میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔ قدس کی آزادی کے لیے آپ ؒ کی تقاریر نے دنیا ئے اسلام کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا آپ ؒ نے فرمایا تھا؛

’’امریکہ ۔ برطانیہ سے بدتر ، برطانیہ ۔ امریکہ سے بدتر اور سوویت یونین ان دونوں سے بدتر ہے، یہ سب ایک دوسرے سے بدتر اور سب ایک دوسرے سے نا پاک ترہیں ، لیکن آج ہمارا واسطہ ان خبیثوں سے ہے۔ امریکہ سے ہے،امریکی صدر کو جان لینا چاہیے کہ ہماری قوم کے نزدیک وہ دنیا کا سب سے زیادہ قابل نفرت شخص ہے۔ہماری ساری مصیبتیں اسی امریکہ کی وجہ سے ہیں ، ہماری مصیبت اس اسرائیل کی وجہ سے ہے، اسرائیل بھی امریکہ کا حصہ ہے‘‘۔

سینتیس سال گزر جانے کے بعد بھی یہ الفاظ آج کی دنیا کی سیاسی صورتحال کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں۔ امامؒ کا سب سے اہم اور جراتمندانہ قد م اپنے دور کی بڑی طاقت روس کو اسلام کا پیغام دینا تھا یہ واقعہ بھی اُس واقعہ سے مماثلت رکھتا ہے کہ جب نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے روم اور ایران کے بادشاہوں کو دعوتِ اسلام دی تھی۔، امام ؒ نے روس کے صدر گوربا چوف کو آگاہ کیا تھا کہ اُن کے ملک کا حقیقی مسئلہ نجی ملکیت و اقتصادیات کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ خدا پرایمان نہ لانا تھا۔ اس حقیقت کا اعتراف خود روسی صدرنے امام ؒ کی رحلت کے بعد کیا تھا ۔ بقول گوربا چوف :
ـ’’امام خمینی ؒ کا پیغام میرے ذہن پر نقش ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ میں عنقریب مار کسزم کو تاریخ کے عجائب گھر میں دیکھ رہا ہوں۔ اگر ہم اُن کی دور اندیشی کو سنجیدگی سے سنتے تو آج ہم اس حال کو نہ پہنچتے اور ملک کی یہ حالت نہ ہوتی اگر چہ روس کی موجودہ حالت داخلی اسباب کی بنا پر ہے‘‘۔

المختصر، امام خمینیؒ کا کردار، ہر مسلمان کے لیے نمونہ ٔ عمل ہے ۔ اور ہر نوجوان کے لیے ایک پیغام ہے۔ بقول شاعر

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے 
دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کر دے

(تحریر: سیدہ سائرہ بانو )
https://taghribnews.com/vdcbw9b55rhbs0p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ