تاریخ شائع کریں2017 7 November گھنٹہ 13:06
خبر کا کوڈ : 292360

لبنانی وزیراعظم کا اچانک استعفی، پس پردہ حقائق اور ممکنہ نتائج

لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے اچانک استعفی میں اندرونی عوامل کے علاوہ بیرونی عوامل جیسے سعودی عرب کا دباو اور مغربی اور عرب ممالک کی نئی پالی
لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے اچانک استعفی میں اندرونی عوامل کے علاوہ بیرونی عوامل جیسے سعودی عرب کا دباو اور مغربی اور عرب ممالک کی نئی پالیسیوں کا انتہائی اہم کردار ہے۔
لبنانی وزیراعظم کا اچانک استعفی، پس پردہ حقائق اور ممکنہ نتائج
4 نومبر 2017ء کے دن لبنانی وزیراعظم سعد حریری سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں کیمرے کے سامنے ظاہر ہوئے اور اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ لبنان پر الزامات کی بوچھاڑ کے بعد اپنا استعفی پیش کر دیا۔ سعد حریری کا استعفی لبنان اور مغربی ایشیا کے سیاسی میدان میں ایک غیر متوقع اقدام ہے۔ لبنان کے تقریباً تمام سیاسی تجزیہ کار وزیراعظم سعد حریری کی جانب سے ایسے اقدام کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعد حریری کی جانب سے اپنے عہدے سے استعفی دینے کی کیا وجوہات ہیں؟ اور ان کے اس اقدام کے لبنان اور مغربی ایشیائی خطے پر کیا اثرات ظاہر ہوں گے؟ اگرچہ سعد حریری کے استعفی کی کئی وجوہات قابل ذکر ہیں لیکن زیادہ اہم وجوہات کا تعلق ملکی سیاست سے نہیں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاست سے ہے۔ 

سعد حریری لبنان کے معروف وزیراعظم رفیق حریری کے بیٹے ہیں جنہوں نے اپنے والد کے سیاسی اثرورسوخ اور ان کے قتل کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے ماحول سے فائدہ اٹھا کر لبنان کی سیاست میں قدم جمانا شروع کئے۔ سعد حریری کو سعودی عرب سمیت لبنان میں شام حکومت اور حزب اللہ لبنان کی مخالف جماعتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ سعد حریری لبنان کے اہلسنت شہریوں کی مقبول جماعت المستقبل کے سربراہ ہیں اور 8 مارچ تحریک (حزب اللہ لبنان اور شام حکومت کے حامی عناصر) کے مقابلے میں 14 مارچ تحریک کے بنیادی رکن ہیں۔ وہ نومبر 2009ء سے جون 2011ء تک لبنان کا وزیراعظم رہنے کے بعد 18 دسمبر 2016ء کو دوبارہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 

2016ء کے آخر میں لبنان کی تمام سیاسی جماعتوں نے ملک میں دو سال سے جاری صدر مملکت کے فقدان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے آپس میں اتفاق رائے کیا جس کے نتیجے میں 8 مارچ تحریک سے وابستہ مائیکل عون ملک کے صدر جبکہ 14 مارچ تحریک سے وابستہ سعد حریری وزیراعظم کے طور پر منتخب ہوئے۔ گذشتہ گیارہ ماہ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ سعد حریری بعض اوقات ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف شدید موقف اختیار کرتے تھے لیکن وہ اس عہدے پر باقی رہنے اور حزب اللہ سمیت لبنان کے مختلف سیاسی گروہوں سے تعاون جاری رکھنے کے خواہاں تھے۔ گذشتہ ایک برس کے دوران لبنان کے سیاسی میدان اور اس ملک میں موجود سیاسی محاذ آرائی میں کسی بڑی تبدیلی کا واقع نہ ہونے کے پیش نظر لبنانی وزیراعظم سعد الحریری کا استعفی غیر متوقع اور اچانک تھا۔ سعد حریری کے اس اچانک اور غیر متوقع اقدام کے پس پردہ عوامل جاننے کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ ضروری ہے:

1۔ سعودی عرب کی جانب سے دباو
سعد حریری سعودی عرب کے اہم اتحادی ہیں اور تقریباً کوئی سیاسی فیصلہ یا اقدام ریاض کو اعتماد میں لئے بغیر انجام نہیں دیتے۔ ان کی جانب سے پیش کیا گیا استعفی بھی سعودی دباو کا نتیجہ ہے۔ اس سعودی دباو کی اہم ترین وجوہات سمجھنے کیلئے گذشتہ گیارہ ماہ کے دوران سعد حریری کی سیاسی حکمت عملی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس عرصے میں سعد حریری نے زمینی حقائق کو مدنظر قرار دیتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں خاص طور پر حزب اللہ لبنان سے تعاون پر مبنی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ اپنی اس حکمت عملی پر اس قدر سختی سے عمل پیرا تھے کہ لبنان کے سیاسی اور میڈیا حلقوں میں سعد حریری اور ریاض کے درمیان اختلافات پیدا ہونے پر مبنی خبریں گردش کرنے لگیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکام سعد حریری کے بعض اقدامات سے راضی نہ تھے لہذا انہوں نے سعد حریری کی اتخاذ کردہ حکمت عملی کو جاری رہنے سے روکنے کیلئے ان پر استعفی کیلئے دباو ڈالنا شروع کر دیا۔ 

سعودی عرب میں اپنی طاقت میں اضافے کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان نے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا اثرورسوخ ختم کرنے کو اپنا اصلی مقصد بنا لیا۔ ابتدا میں انہوں نے ایران کے قریب تصور کئے جانے والے ممالک اور گروہوں کے خلاف فوجی طاقت استعمال کرنے کی پالیسی اختیار کی جس کی بنیاد پر سعودی عرب نے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا اور اسی طرح شام اور عراق میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی فوجی اور مالی مدد کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گذشتہ ایک برس کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان نے فوجی ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مثال کے طور پر عراق کے سیاسی میدان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور ایران کا اثرورسوخ کم کرنے کیلئے شیعہ گروہوں سے تعلقات بڑھانے کی کوششیں اور یمن میں انصاراللہ یمن اور علی عبداللہ صالح کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی کوششیں اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔ لہذا سعد حریری کو استعفی دینے پر مجبور کرنے اور اس کی ذمہ داری حزب اللہ لبنان اور ایران پر ڈالنے کے پس پردہ بھی یہی حکمت عملی کارفرما ہے جس کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف نیا سیاسی محاذ کھولنا ہے۔ 

2۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی حکمت عملی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی حکمت عملی اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کا اثرورسوخ محدود کرنے پر استوار ہے۔ اس حکمت عملی کی رو سے اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے اتحادی ممالک اور گروہوں پر دباو بڑھانے کیلئے ایک وسیع اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کا اہم اتحادی ہونے کے ناطے سعد حریری بھی اپنے استعفی کے ذریعے لبنان کی سیاسی صورتحال بحرانی کر کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس نئی حکمت عملی اور روڈمیپ میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس تمام ڈرامے کا اصل مقصد اسلامی جمہوریہ ایران پر خطے میں عدم استحکام اور انتشار پھیلانے کا الزام عائد کرنا ہے۔ یورپی ممالک اگرچہ ایران سے انجام پائے جوہری معاہدے کے حق میں ہیں اور اسے سبوتاژ کرنے پر مبنی امریکی صدر کے اقدامات کی مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ایران کے اثرورسوخ کو کم کرنے کی خاطر امریکی صدر کی اس نئی حکمت عملی کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا وہ بھی ایران کی مداخلت کے باعث سعد حریری کا استعفی دینے پر مجبور ہو جانے پر مبنی منظرنامے کی حمایت کریں گے تاکہ عالمی سطح پر یہ تاثر دیا جا سکے کہ ایران خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔ 

3۔ حزب اللہ کے خلاف نئی امریکی پابندیاں
اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف نئی امریکی پالیسی کے تناظر میں امریکہ نے حزب اللہ لبنان اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے خلاف وسیع پیمانے پر اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں۔ لہذا اگر سعد حریری لبنان کے وزیراعظم کے طور پر ان امریکی پابندیوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے تو حزب اللہ لبنان اور اس کے اتحادیوں جیسے مائیکل عون سے ٹکراو کے نتیجے میں شدید بحرانی صورتحال پیدا ہو سکتی تھی اور سعد حریری لبنان کے سیاسی میدان میں حاضر رہنے کیلئے اس ٹکراو اور بحرانی صورتحال سے بچنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف وہ سعودی عرب کا اتحادی ہونے کے ناطے ملک کے وزیراعظم کے طور پر امریکی اقتصادی پابندیوں اور دباو کے خلاف حزب اللہ لبنان کی مدد اور حمایت کرنے سے بھی قاصر تھے لہذا انہوں نے استعفی پیش کرنے میں ہی اپنا بھلا جانا۔ 

4۔ پارلیمانی انتخابات کا قریب الوقوع ہونا
سعد الحریری نے بے شمار سیاسی، سماجی اور اقتصادی وعدے دے کر وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی جبکہ گذشتہ ایک سال کے دوران بعض اقدامات اور فیصلوں کے باعث خود ان کی اپنی پارٹی میں ہی ان کے خلاف اختلافات ابھر کر آنا شروع ہو گئے تھے جن کی ایک مثال اشرف ریفی اور فواد سینیورے کی جانب سے ان پر انجام پانے والی تنقید ہے۔ لہذا سعد حریری کی سیاسی حیثیت کو دھچکہ پہنچا ہے۔ اس بنا پر سعد حریری اس خوف میں مبتلا تھے کہ مستقبل قریب میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی شکست سے روبرو نہ ہو جائے جبکہ ان کے پاس وزیراعظم کا عہدہ بھی ہے۔ لہذا انہوں نے اسی میں اپنی عافیت جانی کہ ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کر کے اعتراض کے طور پر اپنا استعفی پیش کر دیا جائے اور اس طرح آئندہ منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر بھی اثرانداز ہوا جائے۔ 

دوسری طرف لبنانی وزیراعظم سعد حریری کا اچانک استعفی ملک کو سیاسی میدان میں شدید چیلنجز سے روبرو کر دے گا۔ سعد حریری کے اس غیر متوقع اقدام کے درج ذیل ممکنہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں:

الف) سیاسی عدم استحکام
لبنان کا شمار مغربی ایشیا کے غیر مستحکم ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ ملک حال ہی میں کئی سال تک صدر مملکت کے فقدان پر مبنی بحران کا شکار رہ چکا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعد حریری کی جانب سے استعفی کے بعد لبنان دوبارہ ایک شدید سیاسی بحران سے روبرو ہو گا جو ممکن ہے کئی ماہ بلکہ کئی سال تک جاری رہے۔ 

ب) انتخابات ملتوی ہونے کا امکان
لبنانی پارلیمنٹ کے سیاسی ڈھانچے کے پیش نظر اس ملک میں پارلیمانی انتخابات انتہائی درجہ اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ انتخابات مئی 2013ء سے اب تک مختلف وجوہات کی بنا پر ملتوی ہوتے آئے ہیں۔ اب لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے استعفی کے باعث ان انتخابات کا مزید ملتوی ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے جو ملک کو ایک اور بحران کا شکار کر دے گا۔ 

ج) خانہ جنگی کا امکان
حزب اللہ لبنان پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرنے کا نتیجہ ایسے شدت پسند گروہوں کی تقویت کی صورت میں نکل سکتا ہے جو ملک کے سیاسی میدان سے حزب اللہ لبنان کو مکمل طور پر ختم کر دینے کے خواہاں ہیں۔ لبنان کے پیچیدہ حالات کے پیش نظر ممکن ہے ان اقدامات کا نتیجہ محدود یا وسیع پیمانے پر مسلح جھڑپوں کی صورت میں ظاہر ہو جو اس ملک میں خانہ جنگی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ 

د) علاقائی تنازعات میں اضافہ
عرب دنیا کے اکثر تجزیہ کار لبنان کو مغربی ایشیا کا میدان کارزار قرار دیتے ہیں جہاں ہر وقت شدید بحران پیدا ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں موجود قوتوں کے درمیان تناو کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ لبنان کی سیاسی فضا میں تناو کا مطلب مغربی ایشیا میں اسلامی مزاحمتی بلاک اور امریکی صہیونی بلاک میں ٹکراو کی شدت میں اضافہ ہے۔ شام اور عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا مکمل خاتمہ ہونے والا ہے جس کے تناظر میں امریکی صہیونی بلاک نئی سازشیں کرنے میں مصروف ہے لہذا مغربی ایشیا میں مذکورہ بالا ٹکراو کی شدت میں اضافہ ممکن ہے۔ 

مختصر یہ کہ لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے اچانک استعفی میں اندرونی عوامل کے علاوہ بیرونی عوامل جیسے سعودی عرب کا دباو اور مغربی اور عرب ممالک کی نئی پالیسیوں کا انتہائی اہم کردار ہے۔ اس اقدام کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کو دباو کا شکار کرنا ہے تاکہ خطے میں ان کی مسلسل کامیابیوں کا سلسلہ روکا جا سکے۔
https://taghribnews.com/vdcb05b5grhb9fp.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ