تاریخ شائع کریں2017 9 August گھنٹہ 18:00
خبر کا کوڈ : 278860

سید علم الہدیٰ کا عالمی مجلس تقریب مذاہب اسلام کی کارکردگی پر ایک انٹرویو

سید علم الہدیٰ کا عالمی مجلس تقریب مذاہب اسلام کی کارکردگی پر ایک انٹرویو
ایران میں عالمی مجلس تقریب مذاہب کے معاون حجت السلام سید حامد علم الہدیٰ نے تقریب کی کار کردگی کو بیان کیا۔ تقریب،خبر رساں ایجنسی ﴿نتا﴾ کے مطابق،سید علم الہدیٰ نے عالمی مجلس تقریب مذاہب اسلام کی کارکردگی پر ایک انٹرویو دیا  جو درجہ ذیل ہے۔

انھوں نے  ایک سوال کے جواب میں کہا  کہ“بنیادی طور پر ایران میں عالمی مجلس تقریب کی جانب سے دو طرح کے کام ہوتے ہیں ،

ایک  روزانہ کی بنیاد پر ،میں خود اس روزانہ کام کرنے والی ٹیم میں شامل ہوں ، روزانہ لوگ بالخصو ص  خواہران  و برادران اہل سنت  آکر ملاقات کرتے ہیں اور کیونکہ تہران اس وقت ایران میں اہل سنت کا دوسرا پُرامن گھر شمار ہوتا ہے تو آنے والوں کی تعدا بھی زیادہ ہے، علما ء اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد آتے ہیں ، بعض وہ افراد کہ جو اداروں کی وجہ سے پریشان ہیں ،ہمارے پاس آتے ہیں کیونکہ ان کو یہ ادارے کوئی خاص جواب نہیں دیتے ہیں لہذا ان کے پاس کو ئی  ایسی جگہ نہیں ہے کہ جو اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکے ،جیسے عدالت وغیرہ کے امور میں یا پھر ان کے اپنے شہر میں میونسپلٹی کے مسائل ہیں یا دوسرے ادارے ، ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمیں  مدد کرنے کا کہتے ہیں ہم ان کے لئےلیٹر وغیر تیار کراتے ہیں اور ماہرین ان کے کاموں کی چھان پھٹک کرتے ہیں اگر ہم اس میں کوئی اثر پیدا کرسکتے ہیں تو  متعلقہ ادارے کو اس کے کام میں تعاون کا بول دیتے ہیں ،یہ ہمارے روزمرہ کے کاموں میں سے ہے ” ۔


لیکن جو دوسرے کام ہیں ،وہ پورے ایران سے متعلق ہیں کہ جو آٹھ شعبوں  میں تقسیم ہوتے ہیں ، میں یہاں اختصار کےساتھ بیان کر دوں، نمائشوں کا اہتمام ،ثقافتی سیر و تفریح،ہمارے ماہرین کے سفر،  سال بھر میں مذہبی اور قومی مختلف مناسبتوں سے مبلغین کو بھیجنا،ملک بھر میں موجود مختلف  قبائل کے اختلافات کو ختم کرنا، وغیرہ وغیرہ

یہ بات آپ کے لئے جالب ہوگی، لوگ ہمیں باقاعدہ اپنے اختلافات کے حل کی دعوت دیتے ہیں تو پھر انہیں  کسی عدالت اور وکیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی ، اس طرح بھی دوسرے کام نمٹا دیتے ہیں صلح و صفائی کے ساتھ،لہذا سیستان وبلوچستان  میں ہمارے ادارے کا کردار بہت اہم ہے وہاں مختلف قبائل کے درمیان اختلافات کے حل کےلئے حتیٰ کہ اغویٰ کے سلسلے میں بھی ہمارے ادارے کا کردار بہت اہم ثابت ہوا ہے ہم نے وہاں بہت بڑے بڑے مسائل حل کئے ہیں۔


آیت اللہ اراکی نے گذشتہ سال یہ ارادہ کیا تھا کہ ،صوبوں میں مجلس تقریب مذاہب کے دفاتر قائم کئے جائیں لیکن اس سلسلے میں بجٹ نہیں ہے کہ اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا جائے، لیکن سیستان و بلوچستان کی حد تک ہم نے اپنے کام کا آغاز کردیا ہے اور اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔


ہمارے کچھ کام ایسے ہیں جو شراکت میں انجام پاتے ہیں جیسا کہ انہیں ایام میں عشرہ کرامت کے سلسلے میں ، امام ہشتم علیہ السلام  سے منسلک ایک ادارے نے ایک فیسٹیول کا اہتمام کیا ہے یعنی بجٹ انکا ہے اور ہم نے ان کے لئے ایک پروگروم ترتیب دیا ہے ، لیکن ہمارے مرتب کردہ  پروگرام کا بڑا حصہ  اہل سنت  سے تعلق رکھتا ہے ، ہم نے بیرون ملک اور اندرون ملک  سے اہل سنت مہمانوں کو مدعو کیا ہے ،تقریباً ۳۰ سے ۴۰ مہمان اس تقریب میں شریک ہوں گے ، اسی طرح اور دوسرے اداروں سے ملکر کام کرنے کابیڑا اُٹھایا ہے ۔


انھوں نے کہا ہے کہ“اہل سنت کے مطالبات ایک ایرانی ہونے کے ناطے قابل توجہ ہیں اور قانون اساسی کے ضمن میں آتے ہیں،ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اس  طولانی مدت میں کہ جب  سے ہم ان کے ساتھ ہیں یہ ہم سے احترام و صادقت کے  طالب ہیں ، الحمدللہ  تقریب کے توسط سے ہم ان  میں خوشنام ہوئے ہیں اور یہ ہمارے اخلاص پر دلالت ہے۔ ہم ان کے بہت سے مسائل کے حل میں ناکام رہے ہیں تو کم از کم ان کے مسائل کو سنیں تو صحیح،ہم اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم کامیاب ہو ئے ہیں ، لیکن  اعتماد حاصل کیا ہے۔ میں اپنے دوستوں سے کہتاہوں کہ ہمیں جو اعتماد حاصل ہوا ہے وہ ایک شب میں حاصل نہیں ہوا ہے یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا ہے اس میں وقت لگا ہے ”۔


میں خود گذشتہ سال کئی ایک سرحدی  علاقوں میں گیا ہوں سب میں تو نہیں جاسکا لیکن کافی ایک جگہ گیا ہوں ایک جو مشکل تھی وہ انتخابات کی تھی کہ ملک کے انتخابات میں ان کی بھی سرگرمی ہونی چاہیے، ناصرف انتخابات میں مذہبی ریلیوں میں ، دھہ فجر کی تقریبات میں ایک شہری ہونے کے اعتبار سے ان کا حصہ ہونا ضروری ہے، ہم ان سے ملے ان کے گلے شکوے دور کئے،جس میں ہمیں کامیابی ہو ئی ہے۔


انھوں نے ملک میں شیعہ سنی دوری کے بارے میں کہا ہے کہ اندرون ملک تقریب کا مسئلے میں عوام ہم سے آگے ہیں انکا آپس میں گھل مل کر رہنا، شادیاں ،کاروبار کرنا ،شیعہ سنی علما کا آپس میں مل کر رہنابہت زیادہ ہے ، حتیٰ آپس میں مذہبی مراسم جیسے شیعوں کی مانند محرم کے عشرے میں ایک دوسرے کے ہاں شریک ہونا،یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے آپس میں تعلقات اچھے ہیں ۔

انقلاب کی برکت سے سنی شیعہ  علما ء کا آپس میں رابطے کو اور وسعت ملی ہے ،شیعہ ان کے میلادوں میں جاتے ہیں اور سنی شیعوں کے میلادوں میں آتے ہیں ، مجالس عزا سید الشہدا میں وہ زیادہ نہیں آتے ہیں اس کی  وجہ ان کے افکار و اعتقادات ہیں لیکن سنی نشین علاقوں میں عشرہ محرم کے دوران ان کی اپنی رسومات ہیں جیسے قرآن کی تلاوت کی محافل وغیرہ  بعض علاقوں میں نذر وغیرہ کی رسومات ہیں لیکن جیسا آپ تصور کرتے ہیں کہ جلوس اعزا ،سینہ زنی ایسا نہیں ہے یہ چیزیں ان کے ہاں نہیں ہو تی ہیں اور نا ہوں گی اور ہمیں بھی اس کا انتظار نہیں ہونا چاہیے۔

اگر اس سلسلے میں چند علاقوں کا نام لوں کہ جس میں آپ  کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ یہ علاقہ شیعوں کا ہے یا سنیوں کا تو وہ علاقہ گیلان و تالش کا علاقہ ہے اسلام شہر سے لیکر تالش کے مرکز تک یہاں کی ۵۰  فیصد آبادی اہل سنت پر مشتمل ہے ان میں شیعہ سنی شادیوں کا رواج ہے آپ کسی گھر میں داخل ہوں گے تو دیکھیں گے کہ دو بچے سنی ہیں اور ماں شیعہ ہے دو بچے شیعہ ہیں ان کا دماد شیعہ ہے دلہن سنی ہے اور آرام سے زندگی گذار رہے ہیں ان کے درمیان کو ئی مشکل نہیں ہے۔

مشکل جب پیش آتی ہے جب کوئی باہر سے آکر ان کے مسائل میں داخالت کرتا ہے لہذا تکفیریت  بے نتیجہ نہیں رہی ہے اس نے اپنا اثر دیکھایا ہے جب ان کا لیٹریچر نشر ہوا تو مشکلات بڑھ گئیں مگر ان کی محبت کے جذبے پر اس کا کوئی اثر نا پڑا۔


کبھی کبھی کوئی ایسا مبلغ جو اس علاقے سے آشنا نہیں تبلیغ کے لئے جاتا ہے تب مسائل پیدا ہوتے ہیں اگر کو ئی ایسامبلغ جو اس علاقے کی خاصیت سے آشنا ہوتا ہے تو کو ئی مشکل پیش نہیں آتی ہے ہم ایسے مبلغ تربیت کر رہے ہیں جو افراط و تفریط سے پاک ہیں جو ان کے علاقوں میں جاتے ہیں اور ان کے مطابق گفتگو کرتے ہیں قرآن و روایات کی روشنی میں ۔


دشمن نے بہت کوشش کی ہے کہ سنیوں کو ایران میں ایک اقلیت ظاہر کریں،ان پر ظلم کو ظاہر کریں،مگر یہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ سنی ایران کے مختلف نکات میں مذہبی ، سیاسی اور دیگر امور میں اپنی سرگرمیاں دیکھا رہے ہیں۔ لیکن جب ہم ملک سے باہر جاتے ہیں تو ہم سے ہونے والے سوالوں میں سے ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ ، آپ کے ملک میں اہل سنت  کے کیا حالات ہیں ؟ آیا ان کی نماز جماعت ہے؟ آیا ان کے دینی مدارس ہیں؟۔


اس بارے میں صرف ایک مثال پیش کرونگاکہ  فقط ایک صوبے سیستان وبلوچستان  میں اہل سنت کے مدارس کے تعداد اچھی خاصی ہے پورے ملک میں جتنی نماز جمعہ ہوتی ہے اس زیادہ اس ایک صوبے میں ہوتی ہیں پورے ملک میں شعیوں کی نماز جمعہ سے زیادہ اہل سنت کی نماز جمعہ ہوتی ہے ، ٦۰۰ نماز جمعہ صرف ایک صوبے میں ہوتی ہے یہ اپنی مراسم میں آزاد ہیں ، نماز تراویح ماہ مبارک رمضان میں منعقد ہوتی ہے کو ئی پابندی نہیں ہے۔


حتی یہاں تک کہا گیا کہ تہران میں اہل سنت کی کوئی جگہ نہیں ہے یہ بات درست نہیں ہے ، اس وقت تہران میں دماوند سے شہریار تک یعنی اطراف تہران میں تقریباً ١۷ مساجد ہیں جو اہل سنت سے تعلق رکھتی ہیں کئی ایک مقام پر  انھوں نے اپنے لئے نماز پڑھنے کی جگہیں  کرایہ پر لی ہوئی ہیں  یا بنائی ہیں کہ جن میں آزادنہ اپنی عبادات انجام دیتے ہیں مگر دشمن اپنی دشمنی دیکھاتا ہے ہمیں اپنی توجہ اور افکار کو کام میں لانا چاہیے ،کوشش کرنا چاہیے، کیونکہ اب تک ہم سے یہ سوال کیا جاتا ہے ۔


انھوں نے ثقافتی سیرو تفریح کے بارے میں بتایا کہ اس طرح کے پروگرامز وحدت اور تقریب کے ایجاد میں  کانفرنسوں سے زیادہ اثر گذار ہیں انھوں نے کہا ہے کہ”اتنے خرچے کے بعد منعقد ہونے والی کانفرنسیں کہ جنکا کوئی خاطر خواہ نتیجہ بھی نہیں ہوتا ہے جبکہ ثقافتی سرگرمیاں اور اس طرح کے کیپمس کہ جن میں خرچہ بھی کم ہوتا ہے اور نتائج بھی اچھے حاصل ہوتے ہیں۔

ہم نے  ملک سے باہر کے سفر اس  عنوان سے کئے ہیں ، جس میں ہمیں کامیابی ہو ئی ہے سنی شیعہ کے  ۷ مخلوط اس طرح کے کیمپس  ہم نے منعقد کئے ہیں جس می ۵۰ تا٦۰ افراد شامل تھے ،شام ،لبنان اور ترکی میں ان کیمپوں کی تعدا د کم ہے ، ہم نے مقامات مقدسہ کے سفر کئے ہیں جن میں صرف آئمہ اظہار کے مشہد مقدس شامل نا تھے بلکہ اہل سنت کے مقامات مقدسہ بھی شامل تھے جن میں بغداد میں عبدالقادر جیلانی اور اہل سنت کے امام اعظم کا مزار بھی شامل تھا  تقریب میں اس طرح کے سفر بہت کامیاب ہوتے ہیں۔ حتیٰ بغداد کے مفتی نے ہماری دعوت کی اور ہمارے گروہ کا گرم جوشی سے استقبال کیا ، اس طرح  کے اقدامات کا اثر جاویدانی ہوا تا ہے۔


تقریب کے کون سے ایسے عوامل ہیں جن کا اثر سب زیادہ ہے ؟
انھوں نے اس سوال کے  جواب میں کہا کہ تقریب کا مسئلہ در اصل ایک ثقافتی جنگ ہے کہ جس میں ہم نے قدم آگے بڑھایا ہے اور بعض جگہ پر دشمن نے داعشیوں اور تکفیریوں کے ذریعے سے اسلام پر کاری ضرب ماری ہے  باوجودیکہ اسلام دین رحمت و محبت ہے اسلام کا چہرہ بہت بھیانک دیکھایا گیا ہے۔


انھوں مزید کہا ہے کہ باوجودیکہ شام اور عراق میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور داعش اور تکفیریوں کے ہاتھ تنگ ہوئے ہیں لیکن ابھی داعش کا تفکر ابھی باقی ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ میڈیا کی زبان ابھی تقریب کے اہداف سے دور ہے ،ابھی تک ہمارے پاس کوئی اپنا چینل نہیں ہے لیکن ہم نے اب تک ملک کے مختلف چینلوں پر اچھے پروگرامز دئیے ہیں اور انھوں نے بھی ہم سے تعاون کیا ہے مگر اب تک ہمیں ہمارا مطلوب حاصل نہیں ہو سکا، سال میں ایک کانفرنس ہمارے اہداف کے حصول میں کافی نہیں ہے۔


انھوں نے آیت اللہ اراکی، کی گفتگو کہ ” اب تقریب کو لوگوں کے درمیان لےجانے کا وقت ہے" کی جانب اشارہ کیا کہ ہماری زیادہ تر فعالیت شیعہ سنی علما ء کے درمیان تھی جبکہ دوسرے مرحلے میں شیعہ اساتید اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے افراد تھے لیکن اگر ہم اپنے اہداف تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ملک کے تمام شعبوں میں اس کو پھیلانا ہو گا۔


ہمارے کاموں میں ایک رکاوٹ ، بجٹ ہے ہمارے پاس بجٹ کی کمی ہے ،اس سال تو بجٹ اور بھی کم ہوا ہے ، پہلے ہمارا ہاتھ کھلا تھا، کوئی بھی پروگرام  کرسکتے تھے ،لیکن عامة الناس ہمارے ساتھ ہیں اگر چہ ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے جب ہم کسی علاقے میں جاتے ہیں تو لوگ ہمیں سپورٹ کرتے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdcaianuw49n0a1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ