تاریخ شائع کریں2017 11 December گھنٹہ 15:15
خبر کا کوڈ : 298688

مولانا غلام احمد علی بائی کا زندگی نامہ

مولانا احمد علی بائی نو دسمبر دوہزار سترہ کو تہران کے خاتم الانبیا اسپتال میں انتقال فرماگئے
مولانا غلام احمد علی بائی کا زندگی نامہ
وحدت کے علمبردار اور مسلمانوں کو آپس میں قریب لانے والے مولانا غلام احمد علی بائی کا زندگی نامہ۔

مولانا احمد علی بائی نو دسمبر دوہزار سترہ کو تہران کے خاتم الانبیا اسپتال میں انتقال فرماگئے۔

مولانا غلام احمد علی بائی ولد حاجی محمد تیرہ سو بارہ ہجری شمسی کو مشہد کے مضافات میں واقع گاؤں ریزہ میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے، اپنی زندگی کے ابتدائی سال اسی گاؤں میں گزارے اور قرآن مجید کی تعلیم مکتب خانے میں حاصل کی۔

انہیں بچپن ہی سے علم دین حاصل کرنے کا بے پناہ شوق تھا، اسی لئے انہوں نے ابتدائی برسوں میں قرآن مجید کے پانچ پاروں کے ترجمے اور کتاب قدوری اور فقہ احناف کی کتاب کنز کی تعلیم آخوند ملا حسن یارمحمدی اور اسی طرح اپنے والد گرامی ملا قربان سے حاصل کی۔

ہندوستان سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا مطہری کی خواف واپسی اور خواف میں حوزہ علمیہ احناف کے افتتاح کے ساتھ  ہی مولانا غلام احمد علی بائی مولانا مطہری کے درس میں شرکت کرنے لگے۔

مولانا غلام احمد بائی اس کے بعد پاکستان چلے گئے اور دوستوں سے صلاح مشوروں کے بعد انہوں نے صوبے پنجاب کے شہر بھورے والا کے ایک مدرسے میں داخلہ لیا اور دینی تعلیم کے اختتام تک اسی شہر میں قیام کیا، دینی تعلیم کے اختتام کے بعد، اولیاء اور صوفیوں کی سرزمین شہر ملتان کے مدرسے خیرالمدارس چلے آئے اور مولانا خیر محمد جالندری سے کسب فیض کیا۔

ملتان شہر میں دوسال گزارنے کے بعد، مولانا غلام احمد بائی ملتان کے ایک اور مدرسے قاسم العلوم کہ جو پاکستان اہل سنت مدارس کا معروف مدرسہ ہے وہاں چلے گئے اور کچھ ہی مدت کے بعد ملتان کی شدید گرمی کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور مجبورا انہیں ملتان چھوڑنا پڑا اور دینی تعلیم کے اعلی مدارج طے کرنے کے لئے وہ کراچی تشریف لے گئے اور جامع بنوریہ نیو ٹاؤن کے مدرسے میں داخلہ لیا۔

ان زمانے میں اس مدرسے کے سربراہ مولانا محمد یوسف بنوری تھے، مولانا غلام احمد بائی نے اس زمانے کے معروف عالم دین مولانا محمد یوسف بنوری سے کسب فیض کیا، اور اعلی علمی مدارج طے کرنے کے بعد، واپس ملتان چلے گئے اور مدرسے قاسم العلوم میں مشغول ہوگئے اور روزانہ دو سے تین گھنٹے مدرسے کے دارالافتای میں مفتی عبداللہ کے ساتھ لوگوں کو دینی مسائل بتاتے۔

مولانا غلام احمد بائی نے اس زمانے کے معروف علماء کرام منجملہ مولانا خیرمحمد جالندری، مولانا شہداد سراوانی، مولانا موسی خان روحانی بازی، مولانا درخواستی، مولانا محمد شریف کشمیری، علامہ مفتی محمد شفیع عثمانی سے کسب فیض کیا۔

دو اعلی اسناد کے حصول کے بعد مولانا بائی تفسیر قرآن کے اعلی دروس میں شرکت کے لئے پاکستان کے معروف عالم دین مولانا احمد علی لاہوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک عرصہ لاہور شہر میں گزارا اور اسی زمانے میں ایران کے شہر زاہدار کے حوزہ علمیہ دارالعلوم کے بانی عبدالعزیز، مولانا لاہوری کی بیعت کے لئے لاہور آئے اور دونوں نے خدام الدین مرکز مں مولانا احمد علی لاہوری کی بیعت کی۔

مولانا غلام احمد بائی علماء کی جانب سے پاکستان میں ہی قیام کرنے کے بے پناہ اصرار کے باوجود تیرہ سو تیتالیس ہجری شمسی کو اپنے گھرانے سے سات سال دور رہنے کے بعد ایران تشریف لے آئے، ابتداء میں اگرچہ انہیں خواف کے علاقے میں بہت زیادہ جگہ سے دعوت دی جاتی رہی، لیکن مولانا غلام احمد بائی نے اپنے علاقے ہی کے عوام کی خدمت کو ترجیح دی۔  
https://taghribnews.com/vdcaaanua49noi1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ