اسلامی انقلاب نے دنیا پرحکمرانی کے معیار تبدیل کر دیئے
اسلامی انقلاب سے پہلے دنیا میں سیکولرازم حاکم تھا اور اس طرح کہا جارہا تھا کہ دین کچھ بھی نہیں
انقلاب کی کامیابی نے مغرب میں ایک تحول ایجاد کیا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی جوان نسل اور غیر مسلمانوں میں اسلام کی جانب ایک رجحان پیدا ہوگیا ہے
شیئرینگ :
عالمی مجلس تقریب مذاہب کے جنرل سیکرٹری نے یونیورسٹی کے طلاب کی ذمہ داریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اسلامی انقلابی طالب علم کا پہلا وظیفہ یہ ہے کہ وہ بیدار اور ہوشیار رہے فکر اور تدبر سے کام لے۔
تقریب خبر رساں ایجنسی کے مطابق آیت اللہ محسن اراکی نے پیر کے دن انقلاب اسلامی کی آرزویں اور عالمی انقلاب کے نام سے منعقد ہونے والی ایک علمی نشست میں طالبلعموں کے ایک گروہ سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی نے حکمرانی کے معیار تبدیل کر ڈالے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے دنیا بھر میں آزادی کی روح پھونک دی اوردنیا بھر میں ایک معنویت ایجاد کی ہے۔
اسلامی انقلاب سے پہلے دنیا میں سیکولرازم حاکم تھا اور اس طرح کہا جارہا تھا کہ دین کچھ بھی نہیں، انسانی زندگی میں دین کا کوئی کردار ہی نہیں، سیکولرازم اور کمیونزم کے حواریوں کا یہ خیال تھا کہ ہم انسان کی آرزوں کو پورا کرنے والے ہیں، لہذا دین کو چھوڑ دیا جائے۔
اسلامی انقلاب کے بعد اس فکر کا دنیامیں کوئی کام نا رہا اور دین انسان کی پناہ گاہ بن گیا اور انسانی مشکلات کاحل دین میں نظر آنے لگا اور اس طرح بیان ہونے لگا کہ دین دو کام انجام دے گا پہلا یہ کہ دین بغیر کسی شدت پسندی کے تبدیلی کاعامل بن سکتاہے دوسرا یہ کہ دین تنہا اجتماعی تغییر کا عامل نہیں بلکہ دین معاشرے کے لئے ایک برگزیدہ نظریہ ہے۔
اسلامی انقلاب نے مفہوم دین کو تبدیل کرڈالا اور سب کو بتایا کہ دین معاشروں کو تبدیل کرنے والا ہے۔
انھوں کہا کہ انقلاب کی کامیابی نے مغرب میں ایک تحول ایجاد کیا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی جوان نسل اور غیر مسلمانوں میں اسلام کی جانب ایک رجحان پیدا ہوگیا ہے، اس کا بہترین نمونہ یہ ہے کہ یورپ میں اب سیکڑوں اسلامی مراکز ہیں جبکہ انقلاب سے پہلے ایسا نا تھا۔
یہ ایک ایسا تحرک تھا جس نے نوجوان نسلوں میں ایک بیداری پیدا کی جو امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی بن گئی لہذا انھوں نے اسلام سے مقابلے کی ٹھان لی اور انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے ہم فکروں کو جمع کیا اور سعودی عرب اور خلیج فارس کے ممالک کو اپنے ساتھ ملایا اور یہ منصوبہ بنایا گیاکہ سعودی عرب دنیا کی تمام مساجد پر قبضہ کرلے اور پھر اسے اسلامی انقلاب کے خلاف استعمال کرے، مسلح گروہ تشکیل دیئے گئے جن کو اسلامی انقلاب کی راہ روکنے کے لئے لگایا دیا اور داعش اسکا نمونہ ہے۔
دوسری جانب ٹی وی چینلز کے ذریعےسے اسلامی انقلاب کے خلاف پروپگینڈہ کیا گیا تاکہ اسلامی انقلاب سے فائدہ نا اٹھایا جاسکے ایک اور گروہ ایجاد کیا گیا کہ جس کو برطانیہ کی حمایت حاصل ہے کہ جو بنام شیعہ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں ان کا منشاء اہل سنت کو شیعوں کے خلاف بھڑکانا ہے۔