تاریخ شائع کریں2021 25 November گھنٹہ 22:58
خبر کا کوڈ : 528231

سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو ریکارڈنگ

فرم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’آڈیو کے سپیکٹروگرام کا ملاحظہ کیا گیا اور گواہی دی کہ آڈیو میں ایک لمحے کا بھی رخنہ موجود نہیں، اگر سپیکٹروگرام میں کوئی رخنہ ہوتا تو وہاں سپیکٹروگرام میں سیاہ رنگ کا خلا موجود ہوتا۔‘
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو ریکارڈنگ
تحریر:ارشد چوہدری 
بشکریہ:انڈپینٹ اردو


سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کے معاملے پر سینیئر قانون دانوں کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ یا کسی مستند فورم سے اس آڈیو کی تصدیق کرائی جائے اور اگر درست ثابت ہو تو اس کا نواز شریف اور مریم نواز کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

مختلف میڈیا فورمز پر ’فیکٹ فوکس‘ نامی ویب سائیٹ سے جاری ہونے والی سٹوری پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ مقامی میڈیا کے بعض اداروں کی جانب سے اس آڈیو کو فیک قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق سال 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی تقریر کے کچھ الفاظ جوڑ کر اس آڈیو کے ساتھ مکس کیے جا رہے ہیں اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ آڈیو میں گڑبڑ کی گئی ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی اس آڈیو کو فیک قرار دے کر اپنے خلاف پروپیگنڈا بتایا ہے۔

دوسری جانب فیکٹ فوکس نے سٹوری میں دی گئی آڈیو کا تصدیقی سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا ہے جس میں امریکی فرانزک کمپنی نے اس آڈیو کو غیر ایڈٹ شدہ قرار دیا ہے نیز مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز شریف نے اس آڈیو کو ثاقب نثار کے خلاف چارج شیٹ قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’پہلے ثاقب نثار نے کہا تھا کہ یہ آواز ان کی نہیں ہے، ثاقب نثار کو آج نہیں تو کل سچ بتانا پڑے گا۔‘

کیا آڈیو واقعی اصلی ہے؟

خبر دینے والے صحافی احمد نورانی نے بتایا کہ ’فرانزک کے ماہر امریکی ادارے نے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے منسوب آڈیو فائل کی صداقت اور درستی کی تصدیق کی ہے۔‘

ان کے بقول ’گیریٹ ڈسکوری نامی جس فرم سے انہوں نے اس آڈیو کا فرانزک کرایا ان کے پاس ماہرین کی ٹیم ہے جس کے پاس امریکی عدالتوں کے سامنے شواہد پیش کرنے، ان کا تجزیہ کرنے اور عدالتی گواہی دینے کا طویل تجربہ ہے۔‘

ان کے مطابق فرم کی تجزیاتی رپورٹ آڈیو فائل کی صداقت اور درستگی کی تصدیق کرتی ہے اس میں بتایاگیا ہے کہ اس آڈیو میں کسی بھی طرح سے کوئی کاٹ چھانٹ نہیں کی گئی ہے۔

فرم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’آڈیو کے سپیکٹروگرام کا ملاحظہ کیا گیا اور گواہی دی کہ آڈیو میں ایک لمحے کا بھی رخنہ موجود نہیں، اگر سپیکٹروگرام میں کوئی رخنہ ہوتا تو وہاں سپیکٹروگرام میں سیاہ رنگ کا خلا موجود ہوتا۔‘

سپیکٹروگرام میں سیاہ رنگ کا کوئی خلا نظر نہیں آیا اور آڈیو کے شروع اور آخر میں سیاہ خلا یہ نشان دہی کرتا ہے کہ آڈیو کہاں سے شروع اور کہاں پر ختم ہوئی۔

ریکارڈنگ کے 2.8 سیکنڈز بعد ریکارڈنگ بٹن کے کلک کرنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔

احمد نورانی کے مطابق ’ایک صحافی جب خبر دیتا ہے تو یہ یقینی بنانا اس کے فرائض میں شامل ہے کہ اس خبر کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہو۔ سوال یہ کہ ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ میں وہ کس سے بات کر رہے ہیں، تو میری سٹوری کو اگر غور سے پڑھا جائے تو اس کا جواب مل جائے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’مجھے دو ماہ قبل یہ آڈیو ریکارڈنگ ملی جس کو میں نے شک کی نگاہ سے ہی دیکھا کہ اس میں موجود آوازسابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہے بھی یا نہیں اور آیا کسی بھی حوالے سے ٹیمپرڈ تو نہیں ہے؟ کیونکہ اس میں بہت ہی اہم اداروں اور شخصیات کا ذکر تھا۔ یہ چیز بڑی واضح تھی کہ ایسی کوئی بھی خبر سامنے آنے سے قانونی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔

’اس لیے اس آڈیو ریکارڈنگ کا مستند فرم سے پہلے فرانزک کرایا گیا اور ان کی مصدقہ رپورٹ کے ساتھ سٹوری شائع کی گئی۔‘

احمد نورانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری سٹوری آڈیو پر نہیں بلکہ ایک رجسٹرڈ اور مستند فرم کی فرانزک رپورٹ پر ہے۔ جو سوال اٹھا رہے ہیں وہ کسی بھی فرم سے تصدیق کرا لیں کیونکہ گیریٹ ڈسکوری فرم نے تو یہ تصدیق بھی کردی کہ آڈیو کا فرانزک ان سے کرایا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سابق چیف جسٹس کی سینکڑوں تقاریر موجود ہیں جن میں سے جملے لے کر جو مرضی آڈیو یا ویڈیو بنا لیں وہ مصدقہ کیسے ہو سکتی ہے جو چینلوں پر ویڈیو میری خبر کی تردید کے لیے چلائی جا رہی ہے کیا اس کی کسی فرم سےفرانزک رپورٹ موجود ہے جیسے میں نے رپورٹ حاصل کی ہے؟‘

انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنی سٹوری پر قائم ہیں، جو چیلنج کرنا چاہے ایسی ہی رپورٹ کے ساتھ سامنے آئے۔ میرا مقصد کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانا نہیں بلکہ صرف صحافتی ذمہ داری کے مطابق خبر دینا ہے وہی دی ہے۔

گیرٹ ڈسکوری ہے کیا اور کیسے کام کرتی ہے؟

’گیرٹ ڈسکوری‘ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق یہ کمپنی ٹیکنیکل تفتیش سے متعلق مختلف قسم کی خدمات فراہم کرتی ہے جن میں کمپیوٹر اور سیل فون فورینزک کےعلاوہ آڈیو اور ویڈیو فورینزک بھی شامل ہیں۔ 

کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ کسی آڈیو کا تجزیہ کر کے بتا سکتی ہے کہ یہ آڈیو کس سورس سے ریکارڈ کی گئی، اس کے مختلف حصوں کے درمیان رخنہ تو نہیں اور اسے ری کمپریس تو نہیں کیا گیا۔ 

تاہم اس ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق کمپنی یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ وہ کسی بولنے والے کی آواز کی شناخت کی تصدیق کر سکتی ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ پر مختلف وکیلوں کی جانب سے بیانات درج ہیں جن میں گیرٹ ڈسکوری کی خدمات اور صلاحیت کو سراہا گیا ہے۔ تاہم ریویو ویب سائٹ ’ییلپ‘ پر اس کمپنی کے بارے میں ایک ہی ریویو ہے جو منفی ہے اور اس میں ایک خاتون نے، جنہوں نے ایک ویڈیو کے تجزیے کے لیے گیرٹ ڈسکوری کی خدمات حاصل کی تھیں، اس کمپنی کو فراڈ بتایا ہے۔ تاہم اسی ریویو کے نیچے گیرٹ ڈسکوری نے تفصیلی جواب لکھ کر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خاتون کا دعویٰ غلط ہے۔ 

اخبار اورلینڈو بزنس جرنل کے مطابق گیرٹ ڈسکوری 2007 میں وجود میں آئی تھی اور اس کے دفتر پانچ مختلف امریکی ریاستوں میں قائم ہیں۔ یہ کمپنی ستمبر 2020 تک تین ہزار سے زیادہ کیسوں پر کام کر چکی ہے جس میں برٹش پیٹرولیم کمپنی کے 2010 میں سمندر میں تیل کے اخراج کا کیس اور امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس بریٹ کیوانا کی تصدیق کا کیس شامل ہیں۔

اسی اخبار نے لکھا ہے کہ کمپنی کے مالک اینڈریو گیرٹ سابق ڈی جے ہیں اور آواز سے اسی تعلق کی بنا پر انہوں نے فورینزک کے کاروبار میں جانے کا سوچا۔

یونیورسٹی آف ویسٹرن فلوریڈا کی ویب سائٹ کے ایک نیوز لیٹر کے مطابق اینڈریو گیرٹ امریکی بحریہ اور خلائی ادارے ناسا میں بھی کام کر چکے ہیں۔

’رازداری کی شق‘

امریکی کمپنی گیریٹ ڈسکوری نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے تحریری رابطہ کرنے پر جواب دیا ہے کہ ’ہم نے ’فیکٹ فوکس‘ کے لیے کام انجام دیا۔ ہمارے معیاری معاہدے کے حصے کے طور پر ہمارے پاس رازداری کی ایک شق ہے جو ہمیں اس کام یا کام کے دائرہ کار کے بارے میں بولنے سے منع کرتی ہے جو ہم نے انجام دیا ہے۔ ہمیں تفصیلات جاری کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے جب تک کہ ہمارا کلائنٹ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دینے والے معاہدے پر دستخط کرتا ہے۔ ہم نے جو کام کیا ہے اس کے بارے میں کسی بھی استفسار کے لیے براہ کرم فیکٹ فوکس سے رابطہ کریں اور ان کے ساتھ معلومات کے اجرا پر بات کریں۔ ہم اس وقت تک اس مسئلے پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔‘

واضح رہے کہ گیریٹ ڈسکور کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی موجود جو کہ گیریٹ ڈسکور کی آفیشل ویب سائٹ سے منسلک ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ گیریٹ ڈسکور کا ہی ہے۔

اس اکاؤنٹ کے 1749 فالوورز ہیں جب کہ یہ اکاؤنٹ اپریل 2013 میں بنایا گیا تھا۔ اسی اکاؤنٹ سے فرانزک رپورٹ کے حوالے سے ادارے کا موقف بھی پیش کیا گیا ہے۔ اکاؤنٹ سے جاری ایک ٹویٹ کے مطابق 500 سے زیادہ صحافیوں نے اس فرم سے ’ثاقب نثار کی آڈیو‘ کے حوالے سے رابطہ کیا ہے۔ 

ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ سما ٹی وی نے اس بارے میں رابطہ کیا ہے مگر وہ اپنے کلائنٹ کے حوالے سے یا اپنے کام کے حوالے سے فون پر جواب نہیں دیں گے۔ 

اسی طرح ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ انہیں منگل کو فون پر دھمکی موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہماری زندگیاں خطرے میں ہیں اور اسی شخص نے کہا ہے کہ وہ ’فیکٹ فوکس کے لیے ایک فائل کی تصدیق کرنے پر ہمارے خلاف عدالت میں جائے گا۔‘

ٹویٹ میں مزید کہا ہے کہ ان کی ویب سائٹ پر ایک ہزار سے زیادہ چیٹ کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور ’ہماری ٹیم کو دھمکی کے ذریعے مختلف نتیجہ خاصل کرنا غیر اخلاقی ہے۔‘ 

دوسری جانب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے موقف میں کہا کہ ’یہ آڈیو فیبریکیٹڈ ہے اور فیک ہے۔ میرے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور مہم کے طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ایک سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

اس معاملے پر بعض مقامی میڈیا اداروں کی جانب سے ایک ایسی ویڈیو چلا کر اس آڈیو کو فیک قرار دیا گیا جس میں سابق چیف جسٹس کی 2018 میں کی گئی ایک تقریر کے الفاظ مطابقت رکھتے ہیں لیکن اس میں وہ پوری آڈیو شامل نہیں جو فیکٹ فوکس نے شائع کی ہے۔

کیا آڈیو ریکارڈنگ بطور شہادت کسی ملزم کو قانونی فائدہ دے سکتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حامد خان نے کہا کہ ’سابق چیف جسٹس ثاقب نثارسے منسوب جو آڈیو ریکارڈنگ وائرل ہو رہی ہے اس میں اہم باتیں ہیں۔ لیکن جب تک اس کے اصل یا فیک ہونے سے متعلق سپریم کورٹ یا کسی اور مستند فورم جوڈیشل کمیشن یا تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعے تصدیق نہیں ہوتی، اس کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں، نہ ہی یہ بطور شہادت تسلیم ہو سکتی ہے۔‘

حامد خان کے بقول ’اگر نواز شریف اور مریم نواز کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے عدالت میں یہ آڈیو ریکارڈنگ بطورشہادت پیش ہوتی ہے اور عدالت اس کی تصدیق کے لیے تحقیقات کا حکم دیتی ہے اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ آڈیو اصل ہے تو معاملہ بہت بڑا ہو سکتا ہے اور اس آڈیو کو عدالت میں بطور موثر شہادت پیش کیا جا سکتا ہے، جس کا فائدہ نواز شریف اور مریم نواز کو ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کی شہادت جب بھی کسی کیس میں پیش ہوتی ہے تو سب سے پہلے عدالت اس کا ماہرین سے معائنہ کراتی ہے لہٰذا اس میں بھی یہی طریقہ اپنایا جا سکتا ہے۔‘

صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وائرل ہونے والی آڈیو فیک لگتی ہے۔ میں ثاقب نثار کو بطور جج اور ذاتی حیثیت میں جانتا ہوں وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سابق جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے اداروں کا احترام لازمی ہے۔‘

سیاسی ردعمل

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنے بیان میں کہا کہ ’نواز اینڈ کمپنی جعلی ویڈیوز، لیکس اور گیمز سے باہر آ کر الزامات کا جواب میرٹ پر دیں۔ یہ ڈرامے مکمل فلاپ ہو چکے ہیں۔ جیل نہیں جانا تو پیسے واپس کریں، یہ مختصر حل ہے جس کو پیچیدہ بنا کر نکلنا چاہتے ہیں۔‘

جب کہ اپوزیشن لیڈرشہباز شریف بھی اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ’سابق چیف جسٹس کے سامنے آنے والے نئے آڈیو کلپ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کے لیے ایک بڑے منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا۔ وقت آ گیا ہے کہ ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی غلطی کو ٹھیک کیا جائے۔ پوری قوم نظام عدل کی طرف دیکھ رہی ہے۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے سابق جج گلگت بلتستان رانا شمیم کی جانب سے بھی ایک بیان حلفی سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کی موجودگی ایک جج کو فون پر ہدایت دی کہ نوازشریف اور مریم نواز کی درخوست ضمانت پر 2018 کےالیکشن سے قبل سماعت نہ کی جائے۔

مریم نواز کی ایون فیلڈ کیس میں بریت سے متعلق کل بروز بدھ اسلام آباد میں اپیلوں پر سماعت ہو گی، تاہم مسلم لیگ ن کی جانب سے ابھی تک رانا شمیم کے بیان حلفی یا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب آڈیو بطور شہادت پیش کرنے یا نہ کرنے سے متعلق تصدیق نہیں کی گئی۔
https://taghribnews.com/vdcaeanm649nuu1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ