تاریخ شائع کریں2021 21 November گھنٹہ 13:53
خبر کا کوڈ : 527633

مجمع جہانی اہل بیت (ع) کے تحت افغانستان کے حالیہ شہداء کی یاد میں کانفرنس منعقد

حجۃ الاسلام علی شریفی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ طالبان نے ابھی تک امارت کے جواز کی کوئی تعریف یا ثبوت فراہم نہیں کیا ہے،مزید کہا کہ سنی فقہ کے مطابق اگر کسی سرزمین میں تسلط کی بنیاد پر حکومت قائم ہو تو حاکم کو شریعت کے نفاذ کا حق حاصل ہے اگرچہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو۔اہل سنت امیر کی اطاعت کو واجب سمجھتے ہیں اور اس کی مخالفت کو رسول اللہ(ص)کی مخالفت تصور کرتے ہیں۔
مجمع جہانی اہل بیت (ع) کے تحت افغانستان کے حالیہ شہداء کی یاد میں کانفرنس منعقد
جمعے کے روز افغانستان کے صوبۂ قندوز اور قندھار کی شیعہ جامع مساجد میں دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہونے والے شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام کے علمی و ثقافتی ادارے کے تعاون سے ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ان واقعات کی مذمت کی گئی اور شہداء کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق،مجمع جہانی اہل بیت(ع)کی جانب سے منعقدہ اس کانفرنس میں ایرانی اور غیر ایرانی طلباء سمیت سیاسی ماہرین کی کثیر تعداد شریک تھی۔

کانفرنس کے آغاز میں المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبۂ فقہ و حقوق کے رکن حجۃ الاسلام علی شریفی نے اس کانفرنس کے انعقاد کے لئے کوشش کرنے والے افراد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کے ساتھ عوامی تعلقات کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم یہ ہے کہ حکمران عوام کو رعایا کے طور پر دیکھتے ہیں اور حکمران عوام کے مالک ہیں۔ دوسری قسم جو کہ بہت سے سیاسی نظاموں میں موجود ہے وہ اتباع اور اطاعت ہے،اس نظام میں لوگ کے بطور شہری،حکومت کے ساتھ خونی،علاقائی اور معاہدہ کے تعلقات ہوتے ہیں اور بعض بڑے فیصلوں میں شریک ہوتے ہیں۔تیسری قسم شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہے،یعنی شہریوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں اور وہ بہت سے فیصلوں میں حصہ لیتے ہیں اور حکمران عوام کی مرضی سے چلتے ہیں۔

المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے فقہ عدالت اور حقوق کے شعبے کے رکن نے مزید کہا کہ اسلامی علوم میں امت کا جو تصور ہے اور امت میں غیر مسلم شامل نہیں ہیں۔ہمارے ہاں رہائشی سرزمینوں کے حوالے سے دار الاسلام اور دار الکفر کے تصورات بھی موجود ہیں۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہمیں افغانستان میں امارت اسلامیہ کا سامنا ہے،کہا کہ سنی فقہ میں خلافت سے منقطع امارت کی کوئی حیثیت نہیں ہے،امارت خلیفہ کے ماتحت ہے اور اگر جائز طریقے سے خلیفہ کا تعین نہ ہو تو امارت غیر متعلقہ اور ناجائز ہے۔

حجۃ الاسلام علی شریفی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ طالبان نے ابھی تک امارت کے جواز کی کوئی تعریف یا ثبوت فراہم نہیں کیا ہے،مزید کہا کہ سنی فقہ کے مطابق اگر کسی سرزمین میں تسلط کی بنیاد پر حکومت قائم ہو تو حاکم کو شریعت کے نفاذ کا حق حاصل ہے اگرچہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو۔اہل سنت امیر کی اطاعت کو واجب سمجھتے ہیں اور اس کی مخالفت کو رسول اللہ(ص)کی مخالفت تصور کرتے ہیں۔

انہوں نے امارت اسلامیہ کے ساتھ لوگوں کے روابط کو اطاعت کے طور پر متعارف کرایا اور مزید کہا کہ حکومت کے ساتھ عوامی تعلقات کی طالبان کی تعریف رعایا کا رابطہ ہے اور امارت کے تحت ہم اپنے حقوق کو حاصل نہیں کر سکیں گے اور ہم شیعوں کو چاہئے کہ اس تحریر میں رد و بدل کریں کیونکہ رعایا کو کوئی حق نہیں ہے اور اگر ہم ایسا نہیں کر سکیں تو حقوق کی پاسداری نہیں ہوگی۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صوبۂ قم میں وزارت داخلہ کے تارکین وطن اور غیر ملکی ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ سید الشہداء سکول اور کابل یونیورسٹی کے شہداء علم و آگہی کے شہداء تھے اور استکبار جہاں ایشیائی اور اسلامی ممالک میں علم و آگہی کے سرسخت مخالف اور اس سے خوفزدہ ہیں۔

ڈاکٹر عباس شیرمحمدی نے مزید کہا کہ استکبار جہاں افغان نوجوانوں کی ذہانت سے واقف ہیں اور ایران اور دیگر ممالک میں افغانستان کے نوجوان اور یونیورسٹی اور کالجوں کے طلباء اعلیٰ درجے کی ذہانت کے حامل ہیں اور اگر افغان معاشرہ باشعور ہو جائے تو دشمن افغانستان کے وسائل کو لوٹنے میں ناکام ہو جائیں گے۔

انہوں نے افغانستان میں نماز جمعہ کے شہداء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے اندر نماز جمعہ میں شیعہ اور سنی اکٹھے کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں،لہذا نماز جمعہ کے شہداء اتحاد و وحدت کے شہداء ہیں۔ دشمن عوام کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ نماز جمعہ میں شریک نہ ہوں لیکن ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔

صوبۂ قم میں ایرانی وزارت داخلہ کے مہاجرین اور غیر ملکیوں کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ افغانستان کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل علماء اور دانشوروں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،کہا کہ ہمیں افغانستان میں کسی ایسی جنگ کا علم نہیں ہے کہ جو نسلی، لسانی یا مذہب کی بنیاد پر ہوئی ہو،جب سے اسلامی جمہوریہ افغانستان کا اعلان ہوا ہے،استکبار نے اختلافات کو ہوا دینا شروع کردیا ہے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دشمنوں کا مقصد افغانستان کے وسائل کو لوٹنا ہے،مزید کہا کہ افغانستان کی جنگیں سیاسی ہیں لیکن دشمن اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے اسے مذہب کا لبادہ اوڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تفرقہ انگریزی استکبار جہاں کا منصوبہ ہے،لہذا،المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلباء اور افغانستان کے طلباء سمیت دانشوروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

آخر میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ آیۃ اللہ رئیسی کی حکومت میں تارکین وطن کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجمع جہانی اہل بیت(ع)کے شعبۂ علم اور ثقافت کے نائب نے کہا کہ21ویں صدی کو بعض مفکرین نے معنوی و روحانی صدی کہا ہے،دشمن اسلام کے چہرے کو خراب کرنے کی کوشش میں ہیں۔دشمن اسلام کے چہرے کو متشدد اور وحشی دکھانا چاہتے ہیں تاکہ دوسرے دین اسلام کی طرف مائل نہ ہوں۔

حجۃ الاسلام والمسلمین احمد احمدی تبار نے عراق اور شام میں داعش کے ظہور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے دشمنوں نے دہشت گرد گروہ داعش کو تکفیر کے حربے سے بنایا۔ظہورِ اسلام کے دور میں مسلمان ایک دوسرے کے مقابل میں کھڑے تھے لیکن اسلام کے پرچم تلے اکٹھے تھے،ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک روایت کے مطابق جو شخص شہادتیں پڑھتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو تو اس کی جان ومال اور عزت و ناموس کی حفاظت کرنی چاہئے۔سنی مذاہب اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ جو شخص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہو اور شہادتیں زبان پر جاری کرتا ہو وہ مسلمان ہے۔

مجمع جہانی اہل بیت(ع)کے شعبۂ علم و ثقافت کے نائب نے داعش کے اہداف اور اقدامات اور مدافعین حرم کے مقام و منزلت کے بارے میں کہا کہ داعش نے شام اور عراق میں تحریک شروع کی اور عالم اسلام کو بہت نقصان پہنچایا۔ہم جتنا آگے بڑھیں گے،ہمیں مدافعین حرم کی اہمیت اور مقام و منزلت کا اتنا ہی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کس طرح تکفیریوں اور اسلام کو تباہ کرنے کی ناکام کوششیں کرنے والوں کے خلاف قیام کیا لہٰذا،ہمیں اپنے تمام پروگراموں میں عراق،شام،افغانستان، ایران اور پاکستان کے مدافعین حرم کے شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے،خاص طور پر اسلام کے عظیم شہداء سردار سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کہ جنہوں نے اسلام کا دفاع کیا۔

انہوں نے زور دیا کہ استکبار جہاں نے افغانستان کو اسلام مخالف کارروائیوں کے لئے ایک اچھے خطے کے طور پر منتخب کیا ہے،اسی لئے وہ داعش کی حمایت کرتے ہیں۔داعش کے دہشت گرد افغانستان میں جرائم کرتے ہیں اور شیعوں کو نماز جمعہ کے دوران شہید کیا جاتا ہے اور یہ گروہ استکبار جہاں کا آلہ ہے اور اسلام کی تباہی کا خواہاں ہے۔

انہوں نے ماضی قریب میں افغانستان کے شیعوں کی ذمہ داریوں کے بارے میں کہا کہ افغان شیعوں کو شیعیت کی مضبوطی اور مزید ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے محتاط منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔افغانستان میں شیعوں کی ترقی کے لئے اہل تشیع دانشوروں کو سوچنا اور کوئی لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔

آخر میں مجمع جہانی اہل بیت(ع)کے علمی اور ثقافتی نائب نے افغانستان میں نماز جمعہ کے دوران شہید ہونے والے شہداء کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں نماز جمعہ کے دوران شہید ہونے والے شہداء اعلیٰ مقام پر فائز ہیں،وہ اپنے خدا کے پاس پہنچے ہیں اور ابا عبداللہ(ع)کے مہمان بن گئے۔شہداء کے خون ہمیں اسلام اور مکتب اہل بیت(ع)کے بلند اہداف کے حصول کے لئے متحرک کرے گا۔
https://taghribnews.com/vdcfmedtmw6d0va.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ