تاریخ شائع کریں2021 1 August گھنٹہ 16:55
خبر کا کوڈ : 513665

قندھار میں اتوار کو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر راکٹ حملے

ایئرپورٹ چیف مسعود پشتون نے بتایا: ’گذشتہ شب ایئر پورٹ پر داغے گئے تین راکٹس میں سے دو رن وے سے ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں ہوائی اڈے سے تمام پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔‘
قندھار میں اتوار کو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر راکٹ حملے
افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے دوران ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار میں اتوار کو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر راکٹ حملے ہوئے جس کے بعد وہاں پروازیں معطل ہوگئیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قندھار ہوائی اڈے پر حملے کے علاوہ دو اہم صوبائی درالحکومتوں لشکر گاہ اور ہرات میں بھی طالبان اور سرکاری افواج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

ایک افغان اہلکار نے اتوار کو اے ایف پی کو بتایا کہ رات گئے کم از کم تین راکٹ قندھار ائیرپورٹ پر داغے گئے۔

ایئرپورٹ چیف مسعود پشتون نے بتایا: ’گذشتہ شب ایئر پورٹ پر داغے گئے تین راکٹس میں سے دو رن وے سے ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں ہوائی اڈے سے تمام پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔‘

پشتون نے کہا کہ رن وے کی مرمت کا کام جاری ہے اور توقع ہے کہ ہوائی اڈا اتوار کی رات تک آپریشنل ہو جائے گا۔

کابل میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک اہلکار نے راکٹ حملے کی تصدیق کی۔

طالبان کے کئی ہفتوں سے قندھار کے مضافات میں حملے جاری ہیں جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ عسکریت پسند گروپ صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے قریب ہے۔

قندھار کا ایئر پورٹ افغانستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر کو طالبان کے قبضے میں جانے سے روکنے کے لیے ضروری فوجی رسد اور فضائی مدد فراہم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ہوائی اڈے پر حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب طالبان دو دیگر صوبائی دارالحکومتوں ہرات اور لشکر گاہ پر قبضہ کرنے کے قریب ہیں۔

امریکی فوج کے انخلا کے آخری مرحلے کے دوران طالبان کی توجہ کم آبادی والے چھوٹے اضلاع اور دیہی علاقوں پر تھی لیکن حالیہ ہفتوں میں انہوں نے کئی صوبائی دارالحکومتوں کو محاصرے میں لے رکھا ہے اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قابض ہو گئے ہیں۔

کسی بھی بڑے شہر پر قبضہ طالبان کی اہم عسکری کامیابی تصور ہو گی جس سے ان خدشات کو تقویت ملے گی کہ افغان فوج میدان جنگ میں طالبان کی کامیابیوں کو روکنے سے قاصر ہے۔

دوسری جانب کابل حکومت نے موسم گرما میں طالبان کی مسلسل علاقائی کامیابیوں اور حکومتی حکمت عملی کے فقدان کے دعوؤں کو بارہا مسترد کیا ہے۔ 

افغان سرکاری افواج نے اتوار کو کئی بڑے شہروں پر طالبان کے حملوں کے خلاف بھ۔رپور مزاحمت کا دعویٰ کیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق سینکڑوں افغان کمانڈوز کو مغربی شہر ہرات میں تعینات کیا گیا جبکہ جنوبی شہر لشکر گاہ میں حکام نے طالبان کے حملوں کو پسپا کرنے کے لیے مزید فوجیوں کے دستے طلب کیے ہیں۔

سینکڑوں اضلاع اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے کئی صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔

ہلمند کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطا اللہ افغان نے اے ایف پی کو بتایا: ’لشکر گاہ کے اندر لڑائی جاری ہے اور ہم نے شہر میں خصوصی فورسز تعینات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔‘

افغان سکیورٹی فورسز نے طالبان کو شہروں سے واپس دھکیلنے کے لیے فضائی حملوں پر تیزی لائی ہے جس سے گنجان آباد شہروں میں عام لوگوں کے مارے جانے کے خدشات موجود ہیں۔

دو لاکھ آبادی والے شہر لشکر گاہ کے رہائشی حلیم کریمی نے بتایا: ’شہر بدترین حالت سے گزر رہا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آگے کیا ہو گا۔ نہ طالبان ہم پر رحم کریں گے اور نہ ہی حکومت بمباری بند کرے گی۔‘

دوسری جانب ہرات شہر کے مغربی مضافات میں رات بھر لڑائی جاری رہی جس میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ہرات کے صوبائی گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں سو کے قریب طالبان جنگجو مارے گئے۔

اتوار کو وزارت دفاع نے کہا کہ طالبان کے حملوں کو پسپا کرنے کے لیے سینکڑوں کمانڈوز کو ہرات بھیجا گیا ہے۔

افغان وزارت نے ٹویٹ کیا: ’یہ کمانڈوز جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ اور ہرات میں طالبان کو پسپا کریں گے۔‘
https://taghribnews.com/vdcfvmdttw6dyva.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ