تاریخ شائع کریں2021 3 May گھنٹہ 17:49
خبر کا کوڈ : 502392

امریکی افواج کی واپسی و پاکستان پر اس کے اثرات

پاکستان نے ہمیشہ سے اپنا یہی اصولی مؤقف اپنایا ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور استحکام کا داعی ہے ۔ اگرچہ دونوں پڑوسی مذہب ، رسوم رواج اور نسل کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں تاہم دونوں کے درمیاں 1947 سے ابک تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے ۔
امریکی افواج کی واپسی و پاکستان پر اس کے اثرات
بشکریہ:شفقنا اردو

افغانستان کی زیادہ تر تاریخ تنازعات اور  جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ وار لادڑد کے مابین طاقت اور اختیار کی جنگ سے بین الاقوامی طاقتوں کے سیاسی مقاصد کے حصول تک افغانستان کی سرزمین پر بے بہا خون بہا اوربہایا جارہا ہے۔ افغانستان کے لوگ جو کہ نسل، فرقوں اور طبقوں میں منقسم ہے مسلسل قیمتوں جانوں کا ضیا دیکھ رہے ہیں اور یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو کئی دہائیوں سے چلا آراہا ہے۔ امریکہ جو کہ افغانستان میں بزور فوجی قوت اپنے سٹریٹیجک مفادات کے لیے افغانستان میں برسرپیکار ہے اس تاریخ میں تازہ ترین اضافہ ہے۔ اس سے قبل امریکی افواج نے کامیابی سے عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کا خاتمہ کر کے عراق میں اپنے تباہ کن اور مذموم مقاصد کی تکمیل کی اور پھر عراق کی طرز پر ہی افغانستان میں ایک امریکی دوست حکومت کے قیام کی کوشش بھی کی تاہم یہاں اسے طالبان کی جانب سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبان کی گوریلا جنگ کی تکنیک اور پھر مشکل پہاڑی خطے میں طالبان کا مقابلہ کرنا امریکی افواج کے لیے ممکن نہ رہا اور افغان پر غلبہ پانا امریکہ کا خواب ہی رہ گیا۔

افغانستان میں دو دہائیاں سے برسر پیکار امریکہ بالاخر نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی قیادت میں افغان جنگ کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دینے پہ تیار ہے ۔ حالیہ معاہدے کے مطابق امریکہ اس خطے سے اپنی افواج کو مکمل طور پر نکال لے گا اور افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانستان کی عوام پر چھوڑ دیا جائے گا جو اس حوالے سے مکمل طورپر آزاد ہوں گے۔ اگرچہ افغانستان کی یہ صورتحال بطاہر بہت خوش کن دکھائی دیتی ہے تاہم امریکی انخلا کے اس خطے اور پڑوسی ممالک خصوصی طور پاکستان پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے مکمل انخلا کے لیے 11 ستمبر 2021 کی تاریخ دی ہے ۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان اپنے ملک کا سیاسی نقشہ مرتب کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوگا ۔ اس لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان ایک اسلامی امارات کے قیام کے لیے مکمل طور پر زور لگائیں گے اور اسلامی طرز حکومت کے قیام کی کوشش کریں گے جیسا کہ وہ پہلے ایک مرتبہ کر چکے ہیں۔ اگرچہ افغانستان کی سیاسی حکومت کو اس معاملے میں ایک طرف کر دیا گیا ہے تاہم افغانستان کی سیاسی قوتیں طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کسی متفقہ منصوبے تک پہنچا جا سکے۔

افغان طالبان ایک طویل عرصے سے مکمل امریکی انخلا اور اسلامی امارات کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ افغانستان میں کچھ عرصہ سے طالبان سویلین اور حکومتی عہدیداروں پر حملوں میں بھی ملوث تھے اور ایک عرصے سے خون کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ ان حملوں کے باجود مضبوط اسلامی تشخص کی وجہ سے طالبان کو افغانستان میں بے پناہ مقبولیت بھی حاصل ہے۔ مسلسل حملوں کی وجہ سے افغان حکومت پہلے ہی کمزو ہوچکی ہے اور پھر اس پر خراب حکومتی کارکردگی سونے پہ سہاگہ ہے جس سے یہ بات یقینی ہے امریکی انخلا کے ساتھ ہی افغانستان کی سیاسی حکومت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ اور امریکی انخلا کے ساتھ ہی ایک ممکنہ طالبان حکومت اپنی سابقہ پالیسیوں کو جاری رکھتی دکھائی دے گا۔ بہت سارے پڑوسی ممالک خاص طور پاکستان نے امریکی انخلا کے ساتھ ہی افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ افغانستان میں موجود قبائلی وار لارڈز ایک عرصے سے اپنے اپنے علاقے میں طاقت اور اثرو رسوخ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ افغانستان کی تاریخ ہے کہ بیرونی حملہ آوروں کے خطرے سے قطع نظر افغانستان کے مخالف گروہ ایک دوسرے کے خلاف ہمیشہ سے برسرپیکار رہے ہیں اور ملک کو عدم استحکام شکار کرتے رہے ہیں۔ آج بے شک ایک بڑے گروہ  کے باوجود طالبان ایک یکجا تنظیم نہیں ہیں کیونکہ اس میں بہت سارے گروہوں نے شمولیت اخیتار کی ہے یا پھر شکست کے بعد طالبان کے ہاتھوں بیعت کی ہے۔ طالبان کی زیادہ افرادی قوت پٹھان نسل ہے جس کی وجہ سے دیگر نسلی اقلیتوں کی بقا کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں جو ممکنہ طور پر طالبان کی زبردستی اطاعت کے خلاف ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔

پاکستان نے ہمیشہ سے اپنا یہی اصولی مؤقف اپنایا ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور استحکام کا داعی ہے ۔ اگرچہ دونوں پڑوسی مذہب ، رسوم رواج اور نسل کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں تاہم دونوں کے درمیاں 1947 سے ابک تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے ۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی سرزمین پر درانداز میں ملوث ہیں اور دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہوئے ان کو ریاستی سرپرستی کی دہشتگردی کا نام دیتے ہیں۔ پاکستان کے لیے افغانستان میں امن اس لیے لازم ہے کہ اس سے اس کو بلوچستان اور فاٹا میں استحکام حاصل ہوگا  کیونکہ اس خطے سے پاک چین راہدری گزر رہی ہے جو کہ مسلسل دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے۔ افغانستان میں امن کی صورت میں یہ دہشت گرد افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں نہیں بنا سکیں گے اور پاکستان ان کو باآسانی نشانہ بنا سکے گا۔ پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ افغانستان کے دوران دونوں ممالک نے قیام امن اور بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے پر زور دیا۔ امریکی انخلا کے بعد اور افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات کے باوجود پاکستان افغان طالبان کی قیادت کو پر امن طریقے سے مسائل کے حل کے لیے مجبور کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ گا۔

افغانستان کی صورتحال کبھی بھی اس قدر پیچیدہ نہیں رہی۔ امسال ستمبرمیں امریکی انخلا سے افغانستان کی تاریخ کا ایک خونی باب بند ہوجائے گا۔ اس انخلا کے افغانستان اور پڑوسی ممالک کی عوام پر کئی مختصر اور طویل المدتی اثرات مرتب ہوں گے ۔ پاکستان کے لیے افغانستان میں قیام امن اور اس کااستحکام تاریخ میں اس قدر کبھی اہم نہیں رہا جس قدر ضروری اور اہم اب بن چکا ہے۔ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ اس کی مغربی سرحد پر امن قائم ہو تاکہ وہ اپنی توجہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی طرف مرکوز کر سکے۔ ایسے میں جب افغانستان کے خانہ جنگی میں گرنے کے امکانات بہت روشن ہیں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک متحرک خارجہ پالیسی اور بات چیت کے لیے ایک پلیٹ فارم افغانستان کے مخالف دھڑوں کو ایک جگہ لانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور یہ تمام ذمہ داری پاکستان کے سر ہی ہوگی۔ افغانستان میں امن کی خواہش ایک طویل عرصے سے پاکستان کے دل میں ہے اور اب وقت آگیاہے کہ اس خواہش کوعملی جامہ پہنایا جائے۔
 
https://taghribnews.com/vdcaounmu49nwe1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ