پاکستان حکومت کا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے انتخاب کا فیصلہ
اپوزیشن انتخابی اصلاحات میں ہمارا ساتھ دیں، ہماری حکومت انتخابی نظام میں اصلاحاات لانے کے لیے پرعزم ہے، ٹیکنالوجی کے استعمال سے انتخابی نظام میں شفافیت آئے گی، انتخابات شفاف ہونگے تو ہی جمہوریت مضبوط ہوگی۔
شیئرینگ :
بشکریہ:شفقنا اردو
چند روزقبل وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اپوزیشن ہمارے ساتھ بیٹھ کر دستیاب الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ماڈل کا انتخاب کرے، اپوزیشن انتخابی اصلاحات میں ہمارا ساتھ دیں، ہماری حکومت انتخابی نظام میں اصلاحاات لانے کے لیے پرعزم ہے، ٹیکنالوجی کے استعمال سے انتخابی نظام میں شفافیت آئے گی، انتخابات شفاف ہونگے تو ہی جمہوریت مضبوط ہوگی۔ مریم نواز اور شہباز شریف نے حکومتی پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔ اس آفر کے جواب میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کا حساس کام پوری قوم کی منشاء اور اعتماد سے ہوتا ہے، انتخابی اصلاحات تمام فریقین کی مشاورت، عوام کی رائے کی روشنی اور اتفاق رائے سے ممکن ہوتی ہیں، ایک فرد کی خواہش یا حکم پر ایسے اہم قومی کام انجام نہیں پاتے، عوام کی امنگوں اور اعتماد کا مظہر و محور پارلیمان ہے جسے 3 سال سے تالا لگایا ہوا ہے۔ جس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کا انتخابی اصلاحات پر مذاکرات سے فرار انتہائی افسوس ناک ہے۔ اپنی ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا انتخابی اصلاحات پر مذاکرات سے فرار انتہائی افسوس ناک ہے، یہ کہنا کہ اصلاحات کا عمل پارلیمان کی بجائے الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ انھیں نظام کی سمجھ ہے نہ ہی اصلاحات سے کوئی دلچسپی۔ ہمیشہ سازش سے برسراقتدار آنے ولی جماعت کیوں اصلاحات کی بات کرے گی؟
فواد چوہدری نے کہا کہ قانون سازی اور اصلاحات کرنا الیکشن کمیشن کا نہیں پارلیمنٹ کا کام ہے،الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم انٹرنیٹ سے جڑا ہوا نہیں اس لئے اسے ہیک نہیں کیا جاسکتا، الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کار ریکارڈ سافٹ ویئر کے ساتھ کاغذ پر بھی ہوگا جس پر ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کا منصوبہ دھاندلی کے لئے لارہی ہے، کاغذ کا بیلٹ پیپر آج بھی جمہوریت کو بچانے کا محفوظ ترین طریقہ ہے، الیکشن کمیشن کے ذریعہ انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے، اس کے بعد پارلیمنٹ میں قانون سازی کو سپورٹ کرنے کو تیار ہیں۔ ن لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ انتخابی اصلاحات الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے، انتخابی اصلاحات پر ہمیں حکومت کی نیت پر شک ہے،پچھلے چند ماہ میں جتنے بھی ضمنی انتخابا ت ہوئے حکومت ہاری ہے، حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کا منصوبہ دھاندلی کے لئے لارہی ہے،دنیا میں ابھی تک غلطیوں سے مبرا الیکٹرانک ووٹنگ کا سسٹم نہیں بن سکا ہے، کاغذ کا بیلٹ پیپر آج بھی جمہوریت کو بچانے کا سب سے محفوظ راستہ ہے، آپ الیکٹرانک ووٹنگ کو کتنا بھی محفوظ کرلیں سورس کورڈ ررکھنے اور ہیک کرنے والا اس سے کھیل سکتا ہے،امریکا میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ پر ہیکنگ کے معاملہ پر یکسوئی نہیں ہے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کی تجویز الیکشن کمیشن کودے، حکومت کی نگرانی میں ایسی کوئی چیز ہوئی تو ہمیں قبول نہیں ہے، حکومت انتخابی اصلاحات کے اپنے پیکیج پر ہم سے ربڑ اسٹیمپ نہیں کرواسکتی، حکومت کھلے دل سے اپوزیشن کے تحفظات بھی سنے، الیکشن کمیشن ہم کو بلائے اور اتفاق رائے سے قانون سازی کی جائے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ نظام سے متعلق حکومت کو تحفظات سے آگاہ کردیا جب کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی استعداد پر سوالات اٹھا دیے۔ ذرائع کے مطابق وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم ہی نہیں کیں، الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بریفنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ الیکٹرانک ،بائیومیٹرک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ آر ٹی ایس کی طرح کام کرنا چھوڑ گئی تو متبادل کیا ہو گا۔ ٹیکنالوجی میں جدت کے باعث مشینوں کے ایک بار استعمال کے بعد دوبارہ استعمال میں بھی پیچیدگیاں پیش آ سکتی ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی مینوفیکچرنگ لاگت اور استعمال کے بعد سٹوریج اور مرمت بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سوال اٹھایا ہے کہ الیکٹرانک اور بائیومیٹرک ووٹنگ مشینیں کون بنائے گا اور ہیکنگ سے کتنی محفوظ ہونگی۔
وزیر اعظم صاحب کی نیت پر کسی طور پر بھی شک نہیں کیا جاسکتا مگر کیا انتخابی اصلاحا ت صرف الیکٹرانک ووٹنگ کی محتاج ہیں؟ کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ آئرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی، فن لینڈ اور دیگر ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ناکام تجربے کے باعث دوبارہ بیلٹ پیپرز پر آگئے ہیں اور ماضی میں لاہور کے ایک حلقے کے ضمنی انتخاب کے دوران الیکٹرانک اور بائیومیٹرک ووٹنگ مشینوں کا تجربہ کامیاب نہیں رہا تھا۔ الیکشن کمیشن نے ای ووٹنگ اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق اپنے خدشات حکومت کے سامنے رکھتے ہوئے آزاد کشمیر انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے تجرباتی استعمال کی تجویز دی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جو دنیا میں ٹیکنالوجی میں کہیں پیچھے ہے کیا اس ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ کا عمل ممکن ہے؟ اس کے قبل حالیہ عام انتخابات میں پاکستان نے آرٹی ایس کا جو تجربہ کیا تھا کیا وہ ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں ووٹنگ کا عمل تبدیل ہونا چاہیے مگر اس میں جو بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے وہ اس عمل میں شفافیت لانا ہے نہ اس کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہے۔
ان تمام چیزوں سے بھی کہیں زیادہ ضروری پاکستان کے الیکشن کمیشن میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر تمام پولنگ سٹیشنز پر بروقت نتائج دے دیے جائیں اور تمام پولنگ عملہ فارم 45 سب کو فراہم کر دے تو اس میں کوئی اسی عمل کو شفاف بنایا جاسکتا ہے۔ اگر ای ووٹنگ کا عمل ضروری ہے تو اس کے لیے الیکشن کمیشن کے تمام تر خدشات کو بھی دور کرنا لازم ہے۔ تحریک انصاف کی نیت پر شک تو نہیں کرنا چاہیے تاہم پے درپے ناکامیوں اور بدترین کارکردگی کی صورت میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر تحریک انصاف کو اس وقت انتخابی تبدیلیوں کی کیا ضرورت ہے؟