تاریخ شائع کریں2020 30 October گھنٹہ 00:37
خبر کا کوڈ : 480381

مسلمانوں کے پاس بھی حق ہے کہ وہ فرانسیسیوں کو سزا دیں۔ سابق وزیر اعظم ملائیشیا

فرانسیسیوں نے اپنی تاریخ میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا ہے جن میں سے بیشتر مسلمان تھے۔سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد
مسلمانوں کے پاس بھی حق ہے کہ وہ فرانسیسیوں کو سزا دیں۔ سابق وزیر اعظم ملائیشیا
ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اس بات کا حق ہے کہ وہ ماضی کے ظلم پر طیش میں آئیں اور فرانس کے لاکھوں لوگوں کا قتل کردیں۔

ٹوئٹر کی جانب سے مہاتیر محمد کی اس ٹوئٹ پر فوری ایکشن لیا گیا اور ان کی یہ ٹوئٹ ہٹا دی گئی جبکہ صارفین کی طرف سے اس کی شدید مذمت کی گئی۔ مہاتیر محمد کا یہ تبصرہ طویل بلاگ کا حصہ تھا جو ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا۔

مہاتیر محمد نے اپنی پوسٹ کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ بطور مسلمان انہوں نے فرانسیسی ٹیچر سیموئیل پیٹی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، جبکہ آزادی اظہار رائے کو دوسروں کی توہین کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو قتل کرنا وہ عمل نہیں ہے جس کی بطور مسلمان میں اجازت دوں گا، لیکن چونکہ میں اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں، میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس میں دوسروں کی توہین کرنا شامل ہے، آپ کسی کے پاس جاکر اسے صرف اس لیے بھلا بُرا نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں۔

مسلم دنیا کے ممتاز رہنما کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے پاس غصہ ہونے کا حق ہے اور وہ ماضی کے جرائم کا بدلہ چاہتے ہیں۔ سابق ملائیشین وزیر اعظم نے کہا کہ فرانسیسیوں نے اپنی تاریخ میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا ہے جن میں سے بیشتر مسلمان تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے مسلمانوں کے پاس اس بات کا حق ہے کہ وہ ماضی کے ظلم پر طیش میں آئیں اور فرانس کے لاکھوں لوگوں کا قتل کردیں، لیکن عام طور پر مسلمانوں نے آنکھ کے بدلے آنکھ کے قانون کا اطلاق نہیں کیا، وہ ایسا نہیں کرتے اور فرانسیسیوں کو بھی نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ آپ نے ایک مشتعل شخص کے عمل کی وجہ سے تمام مسلمانوں اور ان کے مذہب کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، تو مسلمانوں کے پاس بھی حق ہے کہ وہ فرانسیسیوں کو سزا دیں۔

مہاتیر محمد نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فوری طور پر مذہب اسلام اور مسلمانوں پر الزام لگایا۔ فرانس کے اسکول میں گستاخانہ خاکے دکھائے جانے کا دفاع کرنے پر متعدد مسلم اکثریتی ممالک نے ایمانوئیل میکرون سمیت فرانسیسی حکام پر تنقید کی تھی۔

ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مسلم اکثریتی ملائیشیا شہریوں کی وجہ سے ایک پرامن اور مستحکم ملک ہے، یہ شہری مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور جنہیں دوسروں کے حساس معاملات کا ادراک ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ باقی دنیا مغرب کے طور طریقوں کی نقل کرتی ہے لیکن نسلوں اور مذاہب کے درمیان ہماری اپنی اور مختلف اقدار ہیں، جسے ہمیں پائیدار بنانے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عصر مغربی دنیا میں کوئی اپنے مذہب پر بھی عمل نہیں کرتا، وہ صرف نام کے مسیحی ہیں، یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں کسی صورت دوسروں کی اقدار اور مذہب کی بے عزتی نہیں کرنی چاہیے، ان کی تہذیب کی یہ سطح ہونی چاہیے کہ وہ عزت دیں۔

مہاتیر محمد نے خواتین کے حقوق سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر مغرب میں خواتین کے حقوق کی تحریک کا آغاز انتخابات میں ووٹ کا حق دیے جانے سے ہوا، آج ہم ہر وہ چیز مٹا دینا چاہتے ہیں جو مرد اور عورت کے درمیان مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو باقی دنیا پر زبردستی اپنی اقدار نافذ نہیں کرنی چاہیے۔

دوسری جانب ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ اس پیغام سے تشدد پر اکسانے سے متعلق اس کے قواعد کی خلاف ورزی ہوئی لیکن وہ پرعزم ہے کہ عوام کے مفاد میں پوسٹ موجود رہے گی، تاہم بعد ازاں ایک ٹوئٹ ہٹادی گئی۔
https://taghribnews.com/vdcdjz0ofyt0js6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ