تاریخ شائع کریں2020 8 July گھنٹہ 16:08
خبر کا کوڈ : 468599

کورونا وائرس سے محنت کش طبقہ زیادہ متاثر ہوا

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے مشترکہ حکمت عملی کے تحت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا تاہم کورونا وائرس کی وبا کے دوران مزدور طبقہ زیادہ متاثر ہوا، جس سے نمٹنے کے لیے دنیا کو ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی
کورونا وائرس سے محنت کش طبقہ زیادہ متاثر ہوا
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے مشترکہ حکمت عملی کے تحت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا تاہم کورونا وائرس کی وبا کے دوران مزدور طبقہ زیادہ متاثر ہوا، جس سے نمٹنے کے لیے دنیا کو ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے تحت عالمی کانفرنس سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے کچھ ممالک میں یہ کم ہوکر دوبارہ تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ کچھ میں یہ بلندی پر ہی موجود ہے، لہٰذا ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ معاشرے کے ایک اہم طبقے مزدوروں کے حالات کو دیکھا جاسکے۔

پاکستان کی جانب سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ایک طرف ہم نے لاک ڈاؤن نافذ کیا اور یکسوئی سے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ اگر یہ وائرس اچانک پھیلا تو ہمارا نظام صحت جواب دے جائے گا اور ہم نے اس طرح وائرس کی رفتار کو کم کیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف مسئلہ یہ تھا کہ معیشت سے جڑا ایک بڑا حصہ خود سے کمانے والا تھا اور ہمارا مزدور طبقہ رجسٹرڈ نہیں تھا جبکہ جب ہم نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تو اچانک ان لوگوں کی بڑی تعداد بیروزگار ہوگئی۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مسئلے کا سامنا تھا کہ ان مزدوروں کے خاندان یومیہ اور ہفتہ وار اجرت پر انہی پر انحصار کرتے تھے اور اگر یہ لوگ کمائیں گے تو نہیں پھر یہ بھوکیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے ہمیں ابتدائی 2 سے 3 ہفتوں میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ لوگ بھوک کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار تھے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ جس کے بعد ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور ایک طرف ہم نے تعلیمی ادارے، شادی ہالز، کھیلوں کے مقابلوں پر پابندی لگائی تاہم دوسری طرف ہم نے تعمیرات اور زراعت کے شعبوں کو کھولنے کی اجازت دی کیونکہ تعمیراتی شعبے سے بہت بڑی تعداد وابستہ ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ ضرورت مند، مزدور طبقے کو رقم کی منتقلی کی جائے جبکہ جو لوگ رجسٹرڈ تھے ان کے آجر سے بات کی کہ ان کی ملازمت کو برقرار رکھا جائے ہم اس کا معاوضہ دیں گے۔

احساس پروگرام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کے تحت ہم نے لوگوں کو رجسٹرڈ کیا اور ان کی جانچ پڑتال کی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے کم وقت میں اتنے لوگوں میں رقوم کی فراہمی یقینی بنائی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اسی حکمت عملی نے ہمیں لاک ڈاؤن کے باعث سامنے آنے والی بدترین صورتحال سے محفوظ رکھا، ساتھ ہی بھارت کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے اس کے مخالف کام کیا اور وہاں کرفیو لگایا گیا اور اس سے یومیہ مزدوروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا اور غربت بڑھی۔

دوران خطاب پاکستانی وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مستقبل بہت غیرمستحکم ہے، ہمیں نہیں معلوم اس لاک ڈاؤن کے اثرات سے کب تک معیشت بحال ہوگی لہٰذا اس بارے میں کسی کو نہیں معلوم کے آگے کیا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اس وائرس کی کوئی ویکسین آئے اور وہ تحفظ کرے لیکن اس وقت کے دوران غیریقینی صورتحال برقرار رہے گی جبکہ ہمارے معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ مزدور ہی رہے گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اسی لیے یہ کانفرنس بہت اہم ہے کیونکہ ہم یہاں خیالات کے تبادلے کی ضرورت ہے اور مزدور طبقے کی مدد کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے کاروبار دیوالیہ ہوگئے اور اسی لیے ہمیں کوئی حکمت عملی اپنانی ہوگی اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم شہریوں کے حالات کو بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ پاکستان سمیت مختلف ممالک ان کی ترسیلات زر پر انحصار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ان ممالک کو سمجھا سکیں کہ وہ مزدوروں کے ساتھ ہمدردی رکھیں، اس کے علاوہ ہمیں ایک مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے کہ تاکہ مزدور طبقے کے حالات کو دیکھا جاسکے۔
https://taghribnews.com/vdcaoanyo49nim1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ