تاریخ شائع کریں2020 17 May گھنٹہ 17:25
خبر کا کوڈ : 462924

اقوام متحدہ کی جانب سے روہنگیا مہاجرین کے سلسلے میں تشویش کا اظہار

بنگلہ دیش کی بحریہ کے لیفٹیننٹ کمانڈر سہیل رانا کا کہنا تھا کہ انہوں نے روہنگیا مہاجرین کے کسی جہاز کو ملک کی سمندری حدود میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ تاہم ایک ماہی گیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے 20 اپریل کو روہنگیا مہاجرین کی دو کشتیوں کو دیکھا تھا جو ساحل کی طرف بڑھ رہی تھیں جبکہ وہ اس وقت دیگر ماہی گیروں کے ساتھ اپنی کشتی میں تھے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے روہنگیا مہاجرین کے سلسلے میں تشویش کا اظہار
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے بنگلہ دیش کی حکومت سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ کئی ہفتوں تک سمندر میں پھنسے رہنے کے بعد سیلاب سے متاثرہ ساحلی علاقے میں آنے والے روہنگیا مہاجرین کو کیمپوں میں بھیج دیا جائے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق انتونیو گوتریس نے بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ کو لکھے گئے خط میں اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میانمار کی سرحد پر پھیلے ہوئے مہاجرین کیمپوں میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے خدشات ہیں۔

خیال رہے کہ خلیج بنگال میں پھنسے ہوئے روہنگیا مہاجرین کو رواں ماہ کے اوائل میں بنگلہ دیش کی سرزمین میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی تاہم حکام نے کہا تھا کہ انہیں کیمپوں میں نہیں بھیجا جائے گا کیونکہ انتظامیہ کووڈ-19 کے پھیلنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتی۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ 308 مہاجرین سیلاب سے متاثرہ بھاشن چار جزیرے پر ہیں جہاں مون سون کی تباہ کن بارشوں سے جانی نقصان ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان خطرات کے باعث بھاشن چار میں موجود مہاجرین کو قرنطینہ کا دورانیہ مکمل ہونے پر مستقل کیمپوں میں بھیج دیا جائے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے واضح نہیں کیا ہے کہ ان مہاجرین کو مزید کتنے دنوں تک قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔

گوتریس نے بنگلہ دیش کے وزیرخارجہ اے کے عبدالمومن کے نام خط میں کہا کہ 'سمندر سے محفوظ مقام پر منتقل کیے گئے مہاجرین کو قرنطینہ بھیجا جاسکتا ہے اور ان کو مہاجرین کے طور پر مزید تحفظ ملنا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے یقین ہے یہ مہاجرین بھی بنگلہ دیش میں انسانی بنیادوں پر سہولیات حاصل کرنے والے روہنگیا کی طرح مستفید ہوں گے اور قرنطینہ کے اختتام پر انہیں بھی کوکس بازار میں دیگر خاندانوں کے ساتھ ملنے کی اجازت دی جائے گی'۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا خط تاحال موصول نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھاشن چار میں گزشتہ برس ایک لاکھ افراد کو رکھنے کی سہولت بنائی گئی تھی اور جن لوگوں کو اس پر تشویش ہے انہیں چاہیے اپنے ملک میں روہنگیا کی میزبانی کریں۔

اے کے عبدالمومن نے کہا کہ 'ہم مزید روہنگیا کی میزبانی کرنا نہیں چاہتے'۔ انہوں نے کہا کہ 'ہمارے پاس انہیں رہائش دینے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں ہے، اگر دیگر ممالک بھاشن چار سے خوش نہیں ہیں تو وہ انہیں اپنے ملک میں آنے دیں یا پھر میانمار واپس بھیج دیں'۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے کہا کہ میانمار پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ ان روہنگیا مسلمانوں کو رخائن میں اپنے گھروں میں واپس بھیج دے۔ قبل ازیں اے کے عبدالمومن نے کہا تھا کہ اکثر مہاجرین رخائن واپسی تک بھاشن چار میں قائم پناگاہوں میں رہنا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ بنگلہ دیش نے دو کشتیوں میں سوار تقریباً 500 روہنگیا مہاجرین کو داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا جس کے باعث وہ کئی ہفتوں تک سمندر میں پھنسے ہوئے تھے۔

بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمومن نے کہا تھا کہ چند ہفتے قبل ہی بنگلہ دیش نے 396 روہنگیا مہاجرین کو بچایا تھا جو ملائیشا پہنچنے میں ناکام ہوئے تھے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے کہا تھا کہ 'کئی ہفتوں سے سمندر میں پھنسے ہوئے روہنگیا مہاجرین مناسب خوراک اور پانی کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں'۔

بنگلہ دیش کی بحریہ کے لیفٹیننٹ کمانڈر سہیل رانا کا کہنا تھا کہ انہوں نے روہنگیا مہاجرین کے کسی جہاز کو ملک کی سمندری حدود میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
تاہم ایک ماہی گیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے 20 اپریل کو روہنگیا مہاجرین کی دو کشتیوں کو دیکھا تھا جو ساحل کی طرف بڑھ رہی تھیں جبکہ وہ اس وقت دیگر ماہی گیروں کے ساتھ اپنی کشتی میں تھے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش اپنی عالمی ذمہ داری کو پوری کرتے ہوئے اجازت دے اور جہاز کو واپس نہ بھیجے جس کے نتیجے میں کسی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عالمی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ 'بین الاقوامی قانون کے تحت ملائیشیا اور تھائی لینڈ سمیت تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ مشکل میں پھنسی ہوئی کشتیوں کو جواب دیں اور ان کو بچانے کا عمل شروع کریں اور پناہ کے خواہاں لوگوں کی زندگیوں کو سمندر میں خطرے میں نہ ڈالیں'۔

خیال رہے کہ 2017 میں فوج کی زیر قیادت کیے گئے آپریشن کے بعد تقریباً ساڑھے 7 لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش میں سرحد پر واقع کیمپوں میں پناہ لی تھی۔

اقوام متحدہ نے اس معاملے پر اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ فوجی کارروائی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی غرض سے شروع کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں نے میانمار کے اس عمل کو نسل کشی قرار دیا تھا اور حکومت میں شراکتی فوج کو اس میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔
https://taghribnews.com/vdcgxx9ttak93y4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ