تاریخ شائع کریں2019 27 November گھنٹہ 19:04
خبر کا کوڈ : 443574

فلسطینی مظاہرین نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے پرچم بھی نذر آتش کردیے

فلسطینی عوام نے یوم غضب کے زیر عنوان احتجاجی مظاہرے کر کے امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی بے دریغ حمایت و جانبداری کی مذمت کی ہے۔
فلسطینی عوام نے یوم غضب کے زیر عنوان احتجاجی مظاہرے کر کے امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی بے دریغ حمایت و جانبداری کی مذمت کی ہے۔
فلسطینی مظاہرین نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے پرچم بھی نذر آتش کردیے
فلسطینی عوام نے یوم غضب کے زیر عنوان احتجاجی مظاہرے کر کے امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی بے دریغ حمایت و جانبداری کی مذمت کی ہے۔
ہزاروں فلسطینیوں نے امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی یہودی کالونیوں کی تعمیر کی جاری حمایت پر احتجاج کرتے ہوئے فلسطین کے مختلف علاقوں میں مظاہرے کئے۔ 
فلسطینوں نے ان احتجاجی مظاہروں کے دوران امریکہ اور صیہونی حکومت کے پرچم بھی نذر آتش کیے ۔
صیہونی فوجیوں نے مظاہرین پر یلغار کر کے کم سے کم ستتر فلسطینیوں کو زخمی کردیا۔ 
امریکہ سے فلسطینی عوام کی گہری ناراضگی اور غم و غصے کی متعدد وجوہات ہیں ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کی موجودہ حکومت جنوری دوہزار سترہ سے اب تک غاصب اسرائیل کی حمایت میں سینچری ڈیل کے قالب میں کئی پالیسیاں اور اقدامات انجام دے چکی ہے جو فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے تشدد میں شدت آنے کی اصلی وجہ شمار ہوتی ہے۔
ٹرمپ نے چھے دسمبر دوہزار سترہ کو ایک غیرقانونی فیصلہ کرتے ہوئے نہ صرف بیت المقدس کو باقاعدہ طور پر صیہونی حکومت کا نیا دارالحکومت اعلان کر دیا بلکہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مئی دوہزار اٹھارہ میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کر دیا۔ 
اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ریلیف اور روزگار ایجنسی آنروا کی مالی مدد بھی بند کردی۔
درایں اثنا امریکی وزیر خارجہ نے اٹھارہ نومبر کو ایک بار پھر فلسطینی زمینوں پر صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ واشنگٹن اس کے بعد سے غرب اردن میں اسرائیلی کالونیوں کی تعمیر کو بین الاقوامی قوانین کے منافی نہیں سمجھتا۔
امریکی وزیرخارجہ مائک پمپئو نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ واشنگٹن نے غرب اردن میں یہودی کالونیوں کی تعمیر کے سلسلے میں اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے دعوی کیا کہ یہودی کالونیوں کی یہ تعمیر خود بخود بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی شمار نہیں ہوتی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تیئیس دسمبر دوہزار سولہ میں قرارداد تیئیس چونتیس جاری کر کے مقبوضہ فلسطین کی زمینوں پر یہودی کالونیاں تعمیر کرنے سے متعلق تمام سرگرمیاں روک دینے کا مطالبہ کیا۔
درایں اثنا محدود اختیارات کی حامل فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے غرب اردن میں یہودی کالونیوں کی تعمیر کو قانونی سمجھنے سے امریکہ کی موجودہ حکومت کے ساتھ تعلقات پوری طرح منقطع ہو جائیں گے۔
محدود اختیارات کی مالک فلسیطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے کہا کہ اوسلو معاہدے کے بعد امریکہ کے ساتھ فلسطین کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن نے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اب تک کوئی بھی مثبت اقدام نہیں کیا ہے۔ 
امریکہ، فلسطین کے سلسلے میں دوسرے عزائم بھی رکھتاہے جو فاش ہوچکےہیں تاہم ابھی اس کا سرکاری طور پر اعلان نہیں ہوا ہے۔ فلسطین کے خلاف امریکہ کا ایک خطرناک فیصلہ کہ جو سینچری ڈیل کے تناظر میں کیا گیا ہے، فلسطینیوں کو پوری طرح غیرمسلح اور نہتھا کر دینا ہے۔ امریکی حکومت کا خیال ہے کہ فلسطینی گروہوں کو پوری طرح غیرمسلح رہنا چاہئے اور صرف فلسطینی پولیس کو شہری سیکورٹی کی ضروریات کے لئے نہایت ہلکے اور معمولی ہتھیار رکھنے کی اجازت ہوگی۔ 
https://taghribnews.com/vdcguw9ttak9tn4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ