تاریخ شائع کریں2019 26 November گھنٹہ 19:23
خبر کا کوڈ : 443484

ایران دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانا چاہتا ہے

ایٹمی ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ اور سی ٹی بی ٹی پر بلاتفریق عملدرآمد ایران کی اصولی پالیسی ہے۔
عالمی اداروں میں ایران کے مستقل نمائندے کاظم غریب آبادی نے ایٹمی تجربات پر پابندی کے جامع معاہدے سی ٹی بی ٹی سے متعلق عالمی کمیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا
ایران دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانا چاہتا ہے
ایٹمی ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ اور سی ٹی بی ٹی پر بلاتفریق عملدرآمد ایران کی اصولی پالیسی ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ اور سی ٹی بی ٹی پر بلاتفریق عملدرآمد ایران کی اصولی پالیسی ہے۔ عالمی اداروں میں ایران کے مستقل نمائندے کاظم غریب آبادی نے ایٹمی تجربات پر پابندی کے جامع معاہدے سی ٹی بی ٹی سے متعلق عالمی کمیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ اور سی ٹی بی ٹی کے اہداف پر علمدرآمد کی حمایت تہران کی اصولی پالیسی ہے۔ایران کے مستقل مندوب نے یہ بات زور دے کر کہی کہ سی ٹی بی ٹی کے اہداف کی تکمیل کا دار و مدار ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملکوں کی جانب سے اس معاہدے  کے تحت کیے گئے وعدوں کی پاسداری پر ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دس سمتبر انیس سو چھیانوے کو ایٹمی تجربات پر پابندی کے جامع معاہدے سی ٹی بی ٹی کی معاہدے کی منظوری دی تھی۔ہڈس انسٹی ٹیوٹ میں عالمی سلامتی اور ایٹمی عدم پھیلاؤ سے متعلق تحقیقی شعبے کے سربراہ کرسٹوفر ایشلے فورڈ کا خیال ہے کہ بڑی طاقتوں کے درمیان جاری ایٹمی رقابت اور ایٹمی ہتھیاروں کی جدید کاری کی وجہ سے سی ٹی بی ٹی کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سی ٹی بی ٹی اور اسی طرح ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کرنے والے تمام ممالک اس کی پابندی کریں تاکہ دنیا کو ایٹمی خطرات سے محفوظ بنایا جاسکے۔
این پی ٹی معاہدے کی چھٹی شق میں ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے دنیا بھر کے ملکوں کی ذمہ داریوں کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جبکہ آٹھویں شق میں ہر پانچ سال کے بعد این پی ٹی معاہدے پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے کی ضرورت پر تاکید کی گئی ہے۔اس پس منظر میں سن دوہزار میں این پی ٹی معاہدے پر نظرثانی کے لیے ہونے والی کانفرنس میں معاہدے کی چھٹی شق کے حوالے سے عملی اقدامات کا تعین کیا گیا تھا لیکن آئندہ پانچ برس کے دوران یعنی سن دوہزار پندرہ میں ہونے والی کانفرنس کے آغاز تک ان میں سے ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا تھا۔یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ این پی ٹی معاہدے میں تمام ملکوں کے لیے پرامن مقاصد کی غرض سے ایٹمی تحقیق وترقی، ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کے حق کو بلاتفریق تسلیم کیا گیا ہے اور پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضمانت دی گئی ہے
لیکن اس معاہدے پر عملدرآمد میں امتیازی سلوک اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔دنیا کی تاریخ میں پہلی بار انیس سو پنتالیس میں انسانی اہداف کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرکے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کی نیند سلانے والے واحد ملک امریکہ کے پاس آج بھی کئی ہزار ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور ان پر متعلقہ عالمی اداروں کی نظارت بھی نہیں ہے۔
منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے پاس تقریبا تین ہزار ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں جن میں سے سترہ سو پچاس وار ہیڈز بیلسٹک میزائیلوں اور اسٹریٹیجک بمبار طیاروں پر نصب ہیں جبکہ دوہزار پچاس کے قریب ایٹمی ہتھیاروں کو رزرو رکھا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے خراب ریکارڈ کےحامل ملک امریکہ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جامع ایٹمی معاہدے کے خلاف، عالمی برادری کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا کیونکہ جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے نے اپنی متعدد رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں میں پرامن مقاصد سے انحراف کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔
https://taghribnews.com/vdcg7w9ttak9tt4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ