تاریخ شائع کریں2019 17 August گھنٹہ 09:49
خبر کا کوڈ : 434353

عمران خان نے پارلیمنٹ میں کشمر کی صورتحال پر اپنا موقف بیان کیا

کشمیریوں کے ساتھ جو بدعہدی کی ہے اس سے بھارتی ریاست کا اپنا وقار بھی مجروح ہوا ہے
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پنڈت جواہر لعل نہرو کے وقت سے چلی آرہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا صدارتی حکمنامہ جاری کرواتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ جو بدعہدی کی ہے
عمران خان نے پارلیمنٹ میں کشمر کی صورتحال پر اپنا موقف بیان کیا
عمران خان نے پارلیمنٹ میں کشمر کی صورتحال پر اپنا موقف بیان کیا
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پنڈت جواہر لعل نہرو کے وقت سے چلی آرہی کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا صدارتی حکمنامہ جاری کرواتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ جو بدعہدی کی ہے اس سے بھارتی ریاست کا اپنا وقار بھی مجروح ہوا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدے اور اعلانِ لاہور میں کشمیر کو متنازع خطہ تسلیم کرتے ہوئے یہ عہد کر رکھا ہے کہ اس کا ہر دو فریقوں کو قابلِ قبول حل نکالا جائے گا۔ شملہ معاہدہ اگر اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگرس نے کیا تھا تو اعلانِ لاہور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں خود وزیراعظم نریندر مودی کی اپنی پارٹی بی جے پی نے کیا تھا، ہر دو مواقع پر پاکستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جمہوری حکومتیں برسرِ اقتدار تھیں، گویا جنوبی ایشیا کی منتخب جمہوری قیادتوں کے یہ فیصلے تھے جن سے آج مودی جی نے انحراف کی جسارت کی ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہماری پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو تقاریر ہوئی ہیں انہیں بلاشبہ قومی جذبات کی ترجمانی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن شاید ان میں شعوری دلائل کم اور جوش و خروش زیادہ تھا۔ جس پر وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیے ’’کیا میں بھارت پر حملہ کر دوں؟‘‘ وزیراعظم نے اس موقع پر کہا کہ وہ بہادر شاہ ظفر کا نہیں ٹیپو سلطان کا راستہ اختیار کریں گے، سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے، عالمی عدالتِ انصاف میں جانے کا بھی سوچ رہے ہیں، خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے، بھارت کشمیریوں کو کچلے گا تو پلوامہ جیسا ردِّعمل آئے گا جس کا الزام پاکستان پر لگے گا، میں نیو کلیئر بلیک میلنگ نہیں کر رہا لیکن بات روایتی جنگ سے آگے بڑھ سکتی ہے اور جنگ کی صورت میں فتح کسی کی نہیں ہوگی، سب ہار جائیں گے جبکہ قائدِ حزب اختلاف میاں شہباز شریف شاید اس سے بھی کچھ زیادہ سننا چاہتے تھے۔ شہباز شریف نے کہا کہ محض مذمتی قراردادیں کافی نہیں ہیں، آگے بڑھ کر بھارتی ہاتھوں کو کاٹ ڈالیں۔ کشمیر کے معاملے پر پیچھے ہٹیں گے نہ کسی کو ہٹنے دیں گے۔ اگر ان کا مقصد جنگ کروانا ہے تو پھر مصلحت سے کام نہ لیں، اس کے نتائج کی ذمہ داری میں شرکت کا واضح اعلان بھی کریں۔ اپوزیشن کی یہ بات بھی غیر ضروری تھی کہ حکومت نے علاقائی تعاون کے تحت بھارت کو سیکورٹی کونسل کا عارضی یا غیر مستقل ممبر بننے میں معاونت کیوں فراہم کی حالانکہ ہمارے تعاون کے بغیر بھی اُس نے ممبر بن جانا تھا اگر ہم نے علاقائی امن و سلامتی کے لئے تعاون کیا تھا تو اس پر اعتراض بنتا نہیں تھا کیونکہ جب (ن) لیگ کی اپنی حکومت تھی تو کیا آپ لوگ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے اپنی پوری کاوشیں نہیں کرتے رہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جب آپ حکومت میں ہوں تو رویہ دوستانہ ہو اور جب محرومِ اقتدار ہو جائیں تو آپ کا خون جوش مارنے لگے۔ اپوزیشن کو وزیراعظم پر ضرور تنقید کرنا چاہئے، یہ اُس کا حق ہے اور وزیراعظم کو بھی اپنے اندر اپوزیشن کی تنقید سننے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئے۔ انہوں نے ٹھیک کہا کہ آپ میرا پورا نام لیں، عمران احمد خان نیازی، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وزیراعظم مودی نے تو اپنی اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے جس کے جواب میں قائدِ حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے تو اپنی اپوزیشن کو محض دیوار کے ساتھ لگایا ہے جبکہ آپ نے اپنی اپوزیشن کے ساتھ انار کلی جیسا سلوک کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کو یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ خود انہوں نے نریندر مودی کی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ اگر مودی جیت گئے تو مسئلہ کشمیر حل ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ درویش کو اس وقت بھی اس بیان پہ سخت حیرت ہوئی تھی اور تبھی یہ لکھا تھا کہ یہ بیان کوئی ایسا شخص ہی جاری کر سکتا ہے جسے خطے کی سیاست اور اس کے حقائق کا پوری طرح علم نہ ہو۔ اگر آپ کو RSSکے رول اور مہاتما گاندھی کے قتل کیے جانے کی تفصیلات کا علم ہے تو پھر آپ کو تصوراتی و خیالی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اس پر اپوزیشن لیڈر کی وضاحت بنتی ہے کہ وزیراعظم واجپائی کا تعلق بھی تو اسی جماعت کے ساتھ تھا مگر اعلانِ لاہور اور مینارِ پاکستان پر جاکر انہوں نے جن حقائق کو کھلے بندوں تسلیم کیا آپ کی خارجہ پالیسی اُس سے کہیں دور بھٹک رہی ہے۔ جسے چند روز قبل یہ تک معلوم نہیں تھا کہ مودی سرکار کشمیر ایشو پر کیا کرنے جا رہی ہے، اس کے برعکس امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان پر جھوم رہے تھے کہ وہ کشمیر پر ثالثی کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ کچھ اسی نوع کی حدت پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو کے الفاظ میں بھی چھلک رہی تھی جو بار بار گجرات کے قصائی کو تباہ و برباد کرنے کیلئے اپنا خون کشمیر کی گلیوں میں بہا دینے کیلئے بیتاب تھے۔ خداوند تعالیٰ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ بلاشبہ مودی سرکار نے ایک سراسر ناجائز فیصلہ کیا ہے، کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا انہیں قطعی کوئی اختیار نہیں، وہ نہ صرف کشمیریوں کے ساتھ بلکہ ہمسایہ مملکت پاکستان کے ساتھ آئینی و قانونی معاہدوں کے بندھن میں بندھے ہوئے تھے لیکن اسی چیز کا دوسرا رخ دیکھیں تو منتخب عوامی رہنما کی حیثیت سے مودی نے اپنی دونوں انتخابی مہمات میں اپنے کروڑوں عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے آئین سے خصوصی حیثیت کی حامل شقوں کو نکال باہر کریں گے۔ موقع ملنے پر انہوں نے اپنی جنتا سے باندھا اپنا عہد پورا کر دکھایا، اب یہ بھارتی سپریم کورٹ کا کام ہے کہ اس کے آئینی یا غیر آئینی ہونے کا جائزہ لیتے ہوئے سچائی پر مبنی فیصلہ صادر کرے۔ 
https://taghribnews.com/vdcbsabafrhbffp.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ