تاریخ شائع کریں2019 16 June گھنٹہ 17:55
خبر کا کوڈ : 425177

خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات میں سعودی عرب رکاوٹ

امریکہ کی سعودی عرب کے بارے میں متضاد اور دوگانہ پالیسی کا سلسلہ جاری ہے
سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خاشقجی کی سالگرہ قریب پہنچ رہی ہے، اس موقع پرامریکہ خود کوخاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا حامی بنا کر پیش کررہا ہے
خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات میں سعودی عرب رکاوٹ
سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خاشقجی کی سالگرہ قریب پہنچ رہی ہے، اس موقع پرامریکہ خود کوخاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا حامی بنا کر پیش کررہا ہے، جبکہ امریکہ کی سعودی عرب کے بارے میں متضاد اور دوگانہ پالیسی کا سلسلہ جاری ہے ۔

مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خاشقجی کی سالگرہ قریب پہنچ رہی ہے، اس موقع پرامریکہ خود کوخاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا حامی بنا کر پیش کررہا ہے، جبکہ امریکہ کی سعودی عرب کے بارے میں متضاد اور دوگانہ پالیسی کا سلسلہ جاری ہے ۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا ، سعودی عرب  پہلے قتل سے انکار کرتا رہا لیکن بعد میں اس نے سعودی صحافی کے بہیمانہ اور وحشیانہ قتل کا اعتراف کرتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا جبکہ خاشقجی کو سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم پر قتل کیا گيا تھا۔
سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ کا آل سعود خاندان پر کافی اثر و رسوخ ،نفوذ اور تسلط ہے اور وہ اپنے اس نفوذ کے ذریعہ ابتدائی دنوں میں ہی خاشقجی کے قتل کے حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتا تھا ، لیکن امریکہ نے ایسا نہیں کیا ، کیونکہ امریکہ جانتا تھا کہ اس کا قریبی دوست محمد بن سلمان اس قتل میں براہ راست ملوث ہے۔اب امریکہ نے سعودی عرب پر خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں دباؤ قائم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کو خاشقجی کے قتل کی سالگرہ سے پہلے تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔اطلاعات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت پر خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں سعودی عرب کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ حکومت کے اعلی اہلکار نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی برسی سے قبل قتل کی تحقیقات کو مکمل کرنا چاہیے۔ امریکی سی آئی اے اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان براہ راست خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکی صدرکے داماد جیرڈ کوشنر اور سکیورٹی مشیرجان بولٹن سے ٹیلی فونک گفتگو میں سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خاشقجی کو خطرناک قرار دیا تھا، جبکہ جمال خاشقجی کے اہلخانہ نے سعودی ولیعہد کے الزامات کو رد کردیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق امریکی اخبار کا دعویٰ ہے کہ سعودی ولی عہد کی جیرڈکوشنر اور جان بولٹن کے ساتھ ٹیلی فون گفتگو  9 اکتوبر کو ہوئی تھی۔
الجزیرہ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے سعودی عرب کے جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے الزام میں گرفتار 11 ملزمان کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی اقوام متحدہ کی 3 رکنی ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے سعودی عرب سے ابتدائی طور پر حراست میں لیے گئے 11 ملزمان کے نام سامنے لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ " سعودی عرب کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ مقدمے کی کارروائی کے طریقہ کار سے عالمی برادری کو اس کے منصفانہ اور جانبدار ہونے سے اور اس کے اختتام پر حاصل کیے جانے والے نتائج سے متعلق مطمئن کردے گی تو وہ غلطی پر ہے "۔ ذرائع کے مطابق  سعودی عرب کی جانب سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے اعلان کے باوجود سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی سعود القحطانی، جنہیں جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے برطرف کیا گیا تھا، ان 11 ملزمان میں شامل نہیں ہیں۔
اگنیس کیلا مارڈ نے عالمی طاقتوں کے سفارتکاروں کی سعودی عرب کی سماعت میں شرکت پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’انصاف کی عدم فراہمی میں کردار ادا کرنا خطرہ ہے، ہمیں یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ یہ ٹرائل انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔الجزیرہ کے سینئر سیاسی تجزیہ کار مروان بشارہ کا کہنا ہے کہ  سعودی عرب کی جانب سے اوپن ٹرائل کرنے کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ اوپن ٹرائل کے نتیجے میں اصل مجرمین تک پہنچنا آسان ہوجائےگا جبکہ سعودی عرب اصل مجرمین کو چھپانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔خیال رہے کہ 25 جنوری کو اقوام متحدہ نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے کولمبیا یونیورسٹی کی اگنیس کیلامارڈ کی سربراہی میں عالمی ماہرین کی 3 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔واضح رہے کہ  سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ سال 2 اکتوبر کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا ، سعودی عرب نے پہلے قتل سے انکار کرتا رہا لیکن بعد میں اس نے سعودی صحافی کے بہیمانہ اور وحشیانہ قتل کا اعتراف کرتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا جبکہ خاشقجی کو سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم پر قتل کیا گيا تھا۔ذرائع کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں امریکہ کی متضاد اور دوگانہ پالیسی جاری ہے اور امریکہ جمال خاشقجی کے قتل کی آڑ میں اور بعض دیگر بہانوں کے ذریعہ سعودی عرب کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فروخت کررہا ہےاور بڑے پیمانے پر سعودی عرب کی دولت کو لوٹ رہا ہے۔
https://taghribnews.com/vdcfetdjew6d0ya.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ