مغربی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کا واحد راستہ اقتصادی جنگ کا خاتمہ ہے
ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کا واحد راستہ اقتصادی جنگ کو روک دینا ہے
شیئرینگ :
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کا واحد راستہ اقتصادی جنگ کو روک دینا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے پیر کو تہران میں جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو ماس کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی جنگ پوری دنیا کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے کہ جن لوگوں نے ایرانی عوام کے خلاف اقتصادی جنگ چھیڑ رکھی ہے یا اس کو ہوا دے رہے ہیں، وہ بچ جائیں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی ملک ایرانی عوام کے خلاف کوئی اقدام کرے اور اس کو ایران کی جانب سے منہ توڑ جواب نہ دیا جائے۔ وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے کہا کہ ایران نے کبھی بھی کوئی جنگ شروع نہیں کی، لیکن اگر کسی نے جنگ چھیڑی تو پھر اس کو ختم کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہوگا۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کی پندرہ رپورٹیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ایران نے اپنے بین الاقوامی وعدوں پر عمل کیا ہے، کہا کہ ایران اپنے آپ کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے کہ جس قدر اس نے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل کیا ہے، اسی طرح وہ اپنے عوام کے مفادات اور حقوق کا بھی دفاع کرے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے عراق کے معدوم ڈکٹیٹر صدام کی حمایت، بیت المقدس اور جولان کی پہاڑیوں پر صیہونی حکومت کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کرنے، دہشت گرد گروہوں کی مدد اور یمنی عوام پر بمباری کی پشتپناہی کرنے جیسے امریکہ کے مجرمانہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران گذشتہ سات ہزار سال سے مغربی ایشیا میں موجود ہے، لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ امریکہ کیوں اس علاقے میں آیا ہے اور کشیدگی پھیلا رہا ہے۔؟ جرمن وزیر خارجہ ہایکو ماس نے بھی اس مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ مغربی ایشیا میں پائی جانے والی کشیدگی بہت ہی خطرناک ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے ایٹمی معاہدے کے لئے جرمنی، برطانیہ اور فرانس کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کی وجہ سے معاہدے میں درج ایران کے اقتصادی مفادات اور فوائد تہران کو نہیں مل سکے، اسی لئے یورپ کوشش کر رہا ہے کہ ایران میں تجارت اور اقتصادی ترقی کے مواقع فراہم کرے۔